جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لئے کم از
کم 20سال کے ہر جوان پر فوجی ٹریننگ لازمی قرار دی جانی چاہیئے۔ جوں ہی
کوئی نوجوان اس عمر کو پہنچے ، وہ جہاں کہیں بھی ہو، اسے ٹریننگ سنٹر میں
حاضر ہو کر کم از کم دو سال کی فوجی ٹریننگ ، ہنگامی حالات ، حادثات، آفات
سے نمٹنے کی ٹریننگ دی جائے۔ آئیندہ اس خطے کے حالات کا کچھ پتہ نہیں، کس
طرف رخ موڑ لیں۔ اس لئے پہلے سے ہر قسم کی تیاری ضروری ہو گی۔ اس طرح نکیال
، بھمبر اور جارحیت کے دیگر خطرات کو ناکام بنایا جا سکتا ہے۔
26اپریل 1998کو بھمبر کے گاؤں بنڈالہ سیری میں آزاد کشمیر کے 21معصوم
شہریوں کو بھارتی فوجیوں نے شب خون مارتے ہوئے قتل کیا۔اس کا اعتراف بھارتی
آئی بی کے عہدیدار نے معروف بھارتی اخبار کے ساتھ گفتگو میں کیا۔ تا ہم
پاکستان نے بھارت کی سرحد پار دہشت گردی کو دنیا کے سامنے پیش کرنے میں
دلچسپی نہ دکھائی۔ یہی نہیں 25فروری2000ء کو بھارتی فوج نے نکیال سیکٹر کے
گاؤں لنجوٹ پر شب خون مارا۔ 6خواتین، 5بچوں سمیت 14افراد کو شہید کر دیا۔جن
کی عمریں دو سال تا 90سال تک تھیں۔ بھارتی فوج کی آزاد کشمیر کے اندر گھس
کر یہ دہشت گردی ایسے موقع پر ہوئی جب پاک فوج کو گولہ باری اور فائرنگ میں
الجھا یا گیا۔یہاں سے پاک فوج کی پوسٹ صرف 400میٹر کی دوری پر تھی۔علاقہ
میں لود شیڈنگ کے دوران بھارت نے یہ دہشت گردی کی۔ اس کی تصدیق اس وقت کے
ڈی سی کوٹلی ابو طالب کاظمی اور ڈی آئی جی پولیس طاہر قیوم نے بھی کی۔
بھارتی فوج کی جانب سے ماضی میں جنگ بندی لائن پار کر کے آزاد کشمیر کے
شہریوں کو اغواء کئے جانے کی اطلاعات موصول ہوتی رہی ہیں۔ اوڑی میں فوجیوں
کی ہلاکت کی آڑ میں بھارتی فوج جنگ بندی لائن کی خلاف ورزیوں کی مرتکب ہو
سکتی ہے۔ تا ہم آزاد کشمیر پر حملے یا مکمل جنگ بھارت کے بس کی بات نہیں۔
اس کی فوج کے حوصلے پست ہیں۔ وہ ذہنی مریض ہے۔ جوان اپنے افسروں کو ہی نہیں
بلکہ خود کو بھی اپنی سروس رائفلز سے گولیاں مار کر اپنی زندگیوں کا خاتمہ
کر رہے ہیں۔ یہ فوجی بھگوڑے بن رہے ہیں۔ بھارتی فوج میں ہزاروں افسروں کی
کمی ہے۔ موجودہ افسر فوج کی نوکری چھوڑ کر دیگر شعبوں میں جا رہے ہیں۔ ان
کا کوئی مشن نہیں۔ سمجھدار فوجی سمجھتے ہیں کہ حکومت انہیں معصوم لوگوں کا
قاتل بنا رہی ہے۔ وہ فوج میں کرپشن سے بھی تنگ ہیں۔ بو فورس توپوں کے سودے
میں یا کرگل جنگ میں مرنے والے بھارتی فوجیوں کے لئے تابوتوں کے سودے تک
میں کرپشن اور گھوٹالوں سے وہ دلبرداشتہ ہو چکے ہیں۔ ایسی فوج پست ہمتی اور
بزدلی کے عالم میں بہادری اور جرائت کی پیکر پاک فوج کے سامنیکیسے ٹھہر سکے
گی۔
بھارت نے ایک بار پھر جنگی جنون پیدا کر دیا ہے۔ بھارتی میڈیا فوج کی پیش
قدمی، گولہ باری، میزائلوں کی تنصیب کی غبریں دے رہا ہے۔ تا کہ نفسیاتی
دباؤ سے عالمی رائے عامہ پر اثر انداز ہوا جائے۔ مگر دہلی میں بیٹھے پالیسی
ساز جانتے ہیں وہ مسلہ کشمیر کو دنیا کے سامنے اس طرح پیش کرنے کے حق میں
نہیں۔ وہ مسلے کو پاک بھارت کا مسلے تک محدود رکھنے پر زور دیتے رہے ہیں۔
وہ سمجھتے ہیں کہ اقوام متحدہ یا کسی تیسری طاقت کی ثالثی اس کی کشمیر میں
فوجی قبضے کو دوام بخشنے کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ فوجی
دباؤ کے بعد اسلام آباد کے ساتھ دو طرفہ بات چیت شروع کرنے کے لئے بے تاب
ہو جاتے ہیں۔ دنیا کو پیغام دیا جاتا ہے کہ دونوں ممالک بات چیت کر رہے
ہیں۔ کوئی حل نکل آئے گا۔ وقت گزرنے اور دباؤ کم ہونے پر سابق صورتحال بحال
کی جا تی ہے۔ اس کا الزام بھی پاکستان پر دال دیا جاتا ہے کہ وہ مسلے کو حل
کرنے میں سنجیدہ نہیں۔ کانگریسی وزیراعظم منموہن سنگھ کے مشیر برائے کشمیر
اور راء کے سابق چیف اے ایس دولت جو ٹریک ٹو ڈپلومیسی کا بھی حصہ رہے ہیں،
بھارت پر پاکستان کے لئے طویل المعیاد سٹریٹجک پالیسی تشکیل دینے کی وکالت
کرتے ہیں۔ ٹال مٹول اور وقت گزاری کے حامی سمجھتے ہیں کہ نریندر مودی سارک
سربراہ کانفرنس میں شرکت کے لئے اسلام آباد جائیں، دونوں ممالک کے نیشنل
سیکورٹی مشیروں کی ملاقات ہو، صرف تاخیری حربے کے لئے۔ ممبئی، کالو چک
اورپٹھانکوٹ حملوں میں بھی پاکستان کو ملوث کرنے کی کوشش کی گئی۔ پارلیمنٹ
حملہ کو جمہوریت پر حملہ تصور کراتے ہوئے پاکستان کے خلاف کارروائی کا
ماحول بنایا گیا۔ جس طرح امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان ، یا عراق
میں داخل ہو کر ان ملکوں کو تباہ کر دیا۔ بھارت بھی یہی خواہش رکھتا ہے۔ وہ
ہر حملے کو نائن الیون کے طور پر پیش کرتا ہے۔ نریندر مودی اوڑی حملے کرانے
والوں کو سزا سے نہ بچنے کی دھمکی دیتے ہیں۔ اس پر بھی اگر بھارتی عدالتی
تحقیقات کی جائے تو بھارتی فوج ہی اس میں ملوث قرار پائے گی۔ چاہے اس کا
سیکورٹی لیپس، یا کوئی سازش ہی کیوں نہ ہو۔ جموں کی ڈوگرہ فوج پر حملہ جموں
کے ہندؤں کو اہلیان وادی کے خلاف صف آراء کرنے کی پہلے بھی کوششیں کی گئیں۔
لیکن بھارت اس میں کامیاب نہ ہو سکا۔ اوڑی حملہ ڈوگرہ حکمرانوں کے جانشین
ڈاکٹر کرن سنگھ کے حالیہ بیانات کی تناظر میں بھی شکوک پیدا کرتا ہے۔ آخری
والئی ریاست کرن سنگھ نے جموں و کشمیر کابھارت کے ساتھ الحاق کئی سوالات کے
ساتھ مشکوک بنا دیا ہے۔ تحریک آزادی کے خلاف جموں کے ڈوگروں کو مزاحمت پر
تیار کرنے کے لئے بھارتی فوج نے شہریوں کے قتل عام کے کئی ڈرامے کئی ہیں۔
اگر کوئی بیرونی غیر جانبدار تحقیقات ہو تو کئی منصوبے بے نقاب ہوں گے۔
میانمار یا انگولا کے طرز پر بھارت گرم تعاقب کے آپشن کو آزما سکتا ہے۔ مگر
اس کا کوئی جواز نہیں۔ جنوبی افریقہ نے80ء کی دہائی میں باغیو ں پر انگولا
میں حملے کئے۔ مگر آج 2016ہے۔ پاکستان انگولا یا میانمار نہیں۔ سوسائیٹیز
فار پبلک سٹڈیز دہلی کے دائریکٹر اودے بھاسکر کی طرح بھارتی رائے عامہ پر
اثر انداز ہونے والے ایک طبقہ دہلی حکومت پر سوچ سمجھ کرفیصلہ کن جنگ لڑنے
کے لئے دباؤ بڑھا رہا ہے۔ وہ ساتھ ہی کہتا ہے کہ بھارت کو پاکستان کے ٹریپ
میں نہیں آنا چاہیئے۔ یہ بھی خیال رہے بھارت کا چین پاکستان اقتصادی
راہداری منصوبے کو سبوتاژ کرنے کا منصوبہ ابھی ابتدائی مراحل میں ہے۔ اسے
کوئی جواز درکار ہے۔ امریکہ اور دیگر پاکستان دشمن طاقتیں بھی پاکستان کو
اقتصادی طور پر کمزور کرنے میں مصروف ہیں۔ یہی کبھی پاکستان کو ناکام ریاست
یا دہشت گرد ملک کے طور پر ثابت کرنے میں سرگرم تھیں۔ ان کے منصوبے ناکام
ہو گئے۔ کشمیر میں بھارتی ریاستی دہشت گردی کے دوران بھی جب عید پر بھارتی
فوج نے سرحدوں پر پاک فوج کو مٹھائیاں پیش کیں۔ اس وقت بھی وہ منفی تاثر
دینے کے خواہش مند تھے۔ جنگی جرائم میں ملوث بھارتی فوج مٹھائیاں اور تحائف
تقسیم کرے تو یہ کشمیریوں کو بد ظن کرنے کا ہی آپریشن تصور ہوتا ہے۔ اوری
حملہ کے بعد سرجیکل سٹرائیک یا محدود جنگ یا کوئی نکیال ، بھمبر جیسا
آپریشن بھارت کی طرف سے اعلان جنگ کے مترادف ہو گا۔ نریندر مودی نے جنگی
اسلحہ کی خریداری کے لئے عوامی عطیات کے لئے سندیکیٹ بینک میں اکاؤنٹ
کھولا، اس نے بھی بھارتی جارحیت کے بارے خدشات پیدا کئے۔ بھارتی حکومت اپنے
عوام کو جارحیت پر اکسا رہی ہے اور ان کا جذباتی استحصال کیا جا رہا ہے۔اس
کے ردعمل میں پاکستان وزیراعظم کشمیر فنڈ قائم کرتے ہوئے بھارتی ریاستی
دہشت گردی کے متاثرین اور تحریک آزادی کی کھل کر حمایت کر سکتا ہے۔ |