اسلامی عقائد میں” عقیدہ ختم
نبوت“ کو بنیادی اور مرکزی حیثیت حاصل ہے،یہ عقیدہ دین اسلام کی اساس ہے جس
پر مکمل ایمان رکھے بغیر کوئی شخص مسلمان نہیں ہوسکتا، قرآن مجید کی 100 کے
قریب آیات اور 200 سے زائد احادیث مبارکہ سے ثابت ہے کہ حضور نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے آخری نبی اور رسول ہیں،آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کے بعد کسی قسم کا کوئی نیا نبی نہیں،آج تک پوری اُمت مسلمہ کا اِس
بات پر اجماع رہا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ساتھ ہی
نبوت و رسالت کا دروازہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بند ہوگیا ہے اور آپ صلی اللہ
علیہ وسلم کے بعد کسی نئے نبی کے آنے کی ضرورت باقی نہیں رہی،لہٰذا اب اگر
کوئی شخص کسی بھی معنوں میں دعوے نبوت کرتا ہے تو وہ بالاتفاق اُمت کافر و
مرتد،کذّاب و دجّال اور دائرہ اسلام سے خارج قرار پاتا ہے۔
یوں تو دنیا میں عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر آج تک سینکڑوں
بدبخت لوگوں نے نبوت کا دعویٰ کر کے دنیا و آخرت میں اپنی ذلت و رسوائی کا
سامان پیدا کیا، لیکن بیسویں صدی میں فرنگی سرپرستی میں قادیان کے ایک ضمیر
فروش مرزا غلام احمد قادیانی نے جس نبوت ِکاذبہ کا دعویٰ کیا،اُس نے اسلام
کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا،برصغیر میں مرزا کی عجمی نبوت کا مقصد
انگریزی اقتدار کی مضبوطی کیلئے مسلمانوں کی فکری وحدت کو پارہ پارہ کرنا
اور جذبہ جہاد کا خاتمہ تھا،مرزا کی ساری زندگی انگریزکی حاشیہ برداری میں
گزری۔
اُس نے اپنی زندگی کا اِک اِک لمحہ حکومت برطانیہ کی مدح سرائی اور جاسوسی
میں صرف کیا،انگریز کا دور حکومت اُس کے نزدیک ”سایہ رحمت اور ایسے امن و
استحکام کا باعث تھا،جو اُسے مکہ و مدینہ میں بھی نہیں مل سکتا۔“ایسی صورت
میں مرزا کے متبعین (ذرّیت) یہ کب گوارہ کرتی کہ انگریز اِس سرزمین سے چلے
جائیں،چنانچہ مرزا کی جماعت نے برصغیر میں انگریزکے قیام کو طول دینے کیلئے
اُسے ہر ممکن مدد و معاونت فراہم کی،حقیقت یہ ہے کہ قصر نبوت میں نقب لگانے
کی کوشش کرنے والے مرزا کی ذرّیت نے ”اکھنڈ بھارت “کے خواب کو عملی جامہ
پہنانے کیلئے تحریک پاکستان کی ہی مخالفت نہیں کی بلکہ انہوں نے قیام
پاکستان کے بعد پاکستان کے وجود کو نقصان پہنچانے کیلئے بھی کوئی دقیقہ
فروگزاشت نہیں کیا۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ قادیانیت کے خلاف تحریک تحفظ ختم نبوت کی رہبری و
قیادت میں علماءو مشائخ اہلسنّت ہمیشہ پیش پیش رہے،جن میں ” براہین احمدیہ
“کی اشاعت کے ساتھ ہی تعاقب فتنہ قادیانیت کا سب سے پہلے آغاز کرنے والے
علامہ غلام دستگیر ہاشمی قصوری سے لے کر پیر سیدنا مہر علی شاہ صاحب،اعلیٰ
حضرت امام احمد رضاخاں فاضل بریلوی،حجة الاسلام علامہ حامد رضاخان،امیر ملت
پیر جماعت علی شاہ صاحب،مبلغ اسلام علامہ عبدالعلیم صدیقی،قائد تحریک ختم
نبوت 1953ءعلامہ ابوالحسنات سید محمداحمد قادری،مجاہد ملت حضرت علامہ
عبدالستار خان نیازی،غازی تحریک ختم نبوت 1953ءسید خلیل احمد قادری اور
علامہ عبدالمصطفیٰ الازہری رحمھم اللہ تعالیٰ اجمعین تک ہزاروں علماءو
مشائخ اہلسنّت شامل ہیں۔
لیکن عصر حاضر میں جس کے نام پر قادر مطلق نے تحریک ارتداد قادیانیت کا
سہرا مقدر فرمایا وہ شخصیت حضرت علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی رحمتہ اللہ
علیہ کی ہے،تاریخ اسلام میں ریاست و مملکت کی سطح پر فتنہ انکار ختم نبوت
کو کفرو ارتداد قرار دینے اور اُس کے خلاف سب سے پہلے علم جہاد بلند کرنے
کا اعزاز جانشین رسول خلیفہ اوّل سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو حاصل
ہوا اور اُن کے بعد یہ اعزاز اُنہی کی اولاد امجاد میں علامہ شاہ احمد
نورانی صدیقی کو نصیب ہوا۔
علامہ شاہ احمد نورانی نے 30جون 1974ءکو قومی اسمبلی میں قادیانیت کے خلاف
قرار داد پیش کرنے سے لے کر اُس کی منظوری تک نہایت ہی محنت و جانفشانی سے
کام کیا،اِس دوران آپ نے قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں باقاعدگی سے شرکت کے
ساتھ ،اراکین اسمبلی کو اعتماد میں لینے،انہیں مسئلہ ختم نبوت کی اہمیت و
حیثیت سے روشناس کرانے،رات گئے تک اٹارنی جنرل کے ساتھ قادیانیوں سے پوچھے
جانے والے سوالات کی تیاری کے ساتھ،مرزا ناصر اور صدرالدین لاہوری کے محضر
نامے کے جواب میں 75سوالات پر مشتمل سوالنامہ کی تیاری میں بھی بھر پور حصہ
لیا،آپ نے قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی اور رہبر کمیٹی کے رکن ہونے کے
باوجود عوامی رائے عامہ ہموار کرنے کیلئے ملک بھر کے طوفانی دوروں میں
چالیس ہزار میل کا سفر طے کیا اور ڈیڑھ سو سے زائد شہروں،قصبوں اور دیہاتوں
عوامی جلسوں سے خطاب کرکے مسلمانوں کو قادیانیوں گمراہ کن عقائد ،فتنہ
پردازیوں اور شرانگیزیوں سے آگاہ کیا ۔
پاکستان کی تاریخ میں اسمبلی فلور پر عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کیلئے سب سے
پہلے مسلمان کی تعریف کو آئین کا حصہ بنانے کا مطالبہ کرنے والے علامہ شاہ
احمد نورانی صدیقی کی پیش کردہ قرار کے نتیجے میں 7 ستمبر 1974ءکو ملک کی
منتخب پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر قادیانیوں کو اُن کے کفریہ عقائد کی بناء
پر غیر مسلم اقلیت قراردیا اور یوں نوے سالہ فتنہ اپنے انجام کو پہنچا،لیکن
اِس کے باوجود آج بھی قادیانی خود کو مسلمان اور مسلمانوں کو غیر مسلم کہتے
ہیں،قادیانی عقائد و تعلیمات اتنی روح فرسا ہیں کہ انہیں پڑھ کر کلیجہ
پھٹنے کو آتا ہے،دل ٹکڑے ہوتا ہے،روح میں زہر آلود نشتر چبھتے ہیں اور دماغ
مفلوج ہوتا محسوس ہوتا ہے ۔
زیر نظر کتاب”ثبوت حاضر ہیں !“ (جو کہ 1072صفحات پر مشتمل اور علم و عرفان
پبلیشرز،اردو بازار لاہور کے زیر انتظام شائع کی گئی ہے ) معروف سکالر محمد
متین خالد نے تمام مکاتیب فکر کے جید علماءکرام اور نامور اہل علم و دانش
کی سرپرستی میں 15 سال کی شبانہ روز انتھک محنت کے بعد مکمل کی ہے،یہ عالم
اسلام کی اپنی نوعیت کی منفرد اور شاہکار کتاب ہے جس میں قادیانیوں کی
اسلام کے خلاف ہرزہ سرائیوں،مضحکہ خیزیوں اور کفریہ عقائد و عزائم کو مستند
عکسی و دستاویزی شہادتوں کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔
یہ کتاب قادیانیوں کے متعلق نادر معلومات،حیرت انگیز اکتشفات،ہوش ربا
انکشافات،سنسنی خیز واقعات،ناقابل تردید حقائق اور مذموم سرگرمیوں کے خفیہ
گوشے لیے ہوئے ہے،اِس کتاب میں تمام قادیانی کتب اور اخبارات و رسائل کے 50
ہزار سے زائد صفحات کھنگالنے کے بعد قادیانیوں کے مذموم عقائد و عزائم کے
عکسی ثبوت یکجا کردیے گئے ہیں،جن کی موجودگی میں قادیانیوں کی طرف سے کسی
قسم کا انکار،تاویل یا بہانہ ناممکن ہے،آج قادیانیت کی اصل حقیقت کو سمجھنے
کے لیے اِس سے بہتر کتاب کوئی نہیں ۔
قادیانی جماعت کے سربراہ نے قادیانیوں پر اِس کتاب کے مطالعہ پر پابندی لگا
رکھی ہے،ورنہ یہ کتاب اپنی تحقیق کے لحاظ سے ایک ایسا سرچشمہ ہے جس سے
قادیانی سیراب ہوکرمشرف با اسلام ہوسکتے ہیں،خوبصورٹ ٹائٹل سے مجلد جلد اور
عمدہ پیپر پر طبع اِس کتاب میں جہاں پیر کرم شاہ الازہری،جناب مجید
نظامی،لیفٹینٹ جنرل حمید گل،پروفیسر محمد سلیم ،پروفیسر منوراحمد ملک،ڈاکٹر
محمود احمد غازی،پروفیسر رفیع الدین ہاشمی جیسے اہل دانش کے علمی و تحقیقی
تبصرے شامل کئے گئے ہیں،وہیں اِس کتاب میں کچھ ایسے تبصرے بھی شامل ہیں جو
دین کے دعویداروں کے متعصبانہ اور غیر مورخانہ طرز عمل کے عکاس، صحریحاً
دروغ گوئی پر مبنی،اصل تاریخی حقائق کے خلاف اور قابل گرفت ہونے کی وجہ سے
کتاب کی علمی حیثیت و مقام کو متاثر کررہے ہیں اور اصل تاریخی حقیقت کو
سامنے لانے کے متقاضی ہیں ۔
اِس تناظر میں آج ضرورت اس اَمر کی ہے فتنہ ارتداد قادیانیت کی تحاریک میں
شامل تمام مکتبہ فکر کے علماءو مشائخ کا تذکرہ اُن کے کردار و عمل کے مطابق
درجہ بدرجہ کیا جائے،ہم امید کرتے ہیں کہ جہاں محترم محمد متین خالد نے
قادیانیت کے خلاف ناقابل تردید شواہد کو اکٹھا کرکے ایک کا عظیم کارنامہ
انجام دیا ہے وہیں وہ مستقبل قریب میں ہماری گزارشات پر توجہ دیتے ہوئے
صحیح تاریخ کو قوم کے سامنے لانے کا اہم فریضہ بھی سرانجام دیں گے۔
زیر نظر کتاب اِس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ اِس کا مطالعہ
علما،خطباء،وکلاء،اساتذہ اور طلبہ کو فتنہ قادیانیت کے خلاف مضبوط دلائل
اور ٹھوس معلومات کا ذخیرہ فراہم کرتا ہے،اِس کتاب کو قادیانیت کے خلاف ہر
عدالتی مقدمہ،بحث اور مناظرہ میں مستند حوالے کی حیثیت سے پیش کیا جاسکتا
ہے،ایسی کتاب وقت کی ضرورت تھی،جسے جناب محمد متین خالد صاحب نے بروقت پورا
کیاہے، اِس کی اہمیت و افادیت کے پیش نظر نہ صرف ہر مسلمان کے لیے اِس کا
مطالعہ ناگزیر ہے بلکہ اس کا ہرگھر اور لائبریری میں بھی موجود ہونا بہت
ضروری ہے،ہم اِس اہم کوشش و کاوش پر جناب محمد متین خالد کو مبارکباد پیش
کرتے ہوئے دعاگو ہے کہ ”اللہ کرے زور قلم اور بھی زیادہ “۔ |