ہسپتالوں کا کوڑا بیماریوں کا بڑا ذریعہ، مناسب اقدامات کی ضرورت
(Dr. Muhammad Javed, Karachi)
|
انسانی صحت اورماحول کی صفائی اور ستھرائی
کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔اگر ماحول گندا ہو گا ،صفائی کا بہتر انتظام نہیں
ہو گا تو آہستہ آہستہ اسپتال بیماروں سے بھرنا شروع ہو جائیں گے یہ تصویر
آج ملک کے ہر چھوٹے بڑے شہروں میں نظر آتی ہے۔ہر روز چھوٹے شہروں میں
سینکڑوں مریض اور بڑے شہروں میں ہزاروں کی تعداد میں مریض طرح طرح کی
بیماریوں کا شکار ہو کر اسپتالوں میں یا تو داخل ہیں اور یا مسلسل علاج کے
چکر میں نظر آتے ہیں۔یقیناً یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ’’ جس ملک اور معاشرے
میں صحت و صفائی کا نظام عمدہ ہو گا اس کے اسپتال خالی ہوں گے۔‘‘لیکن ہمارے
ملک میں جہاں عام کوڑے کر کٹ کے اتلاف کا باقاعدہ مؤثر نظام نہ ہونے کے
برابر ہے وہاں سب سے تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ سب سے خطرناک ترین کوڑا کر کٹ
جو کہ اسپتالوں سے حاصل ہوتا ہے۔اس کو تلف کرنے کے حوالے سے سنجیدگی دکھائی
نہیں دیتی اور نہ ہی سائنسی اصولوں کے مطابق اس کا کوئی باقاعدہ حل موجود
ہے۔WHOعالمی دارہ برائے صحت نے ہسپتال کے کوڑے کومختلف اقسام میں تقسیم کیا
ہے ۔مثلاً ۱۔خون یا پیپ آلودہ روئیاں اور پٹیاں ۲۔آپریشن کے دوران مریض کے
جسم سے نکلنے والی مختلف اشیاء ۳۔آپریشن کے دوران استعمال ہونے والے
ماسک،ایپرن،ٹوپی اور دستانے ۴۔استعمال شدہ خون کی خالی تھیلیاں ۵۔کیمو
تھراپی کے دوران نکلنے والا آلودہ کوڑا ۶۔ناکارہ انسانی اعضاء ۷۔پیتھالوجی
اور لیبارٹری کا کوڑا ۸۔ڈرپ کی خالی بوتلیں۔اس کے علاوہ تیز
دھار(SHARP)اشیاء پہ مشتمل کوڑا بھی ہوتا ہے، اس قسم کے کوڑے میں وہ اشیاء
شامل ہوتی ہیں جو تیز دھار رکھتی ہیں۔اور وہ ہاتھ لگنے سے یا اٹھانے سے
ہاتھ پہ خراش یا زخم پیدا کر سکتی ہیں مثلاً: ۱۔سرنجیں ۲۔سوئیاں ۳۔ٹوٹے
ہوئے شیشے ۴۔بٹر فلائی نیڈلز ۵۔شیشے کی نلیاں اور دوسری نوکدار اشیاء
۶۔کیتھٹرز ۷۔ مائیکرو پیپٹیس ۸۔استرے ۹۔شیشے کی پلیٹیں ۱۰۔انجیکشن کی خالی
شیشیاں
دنیا بھر میں اسپتالوں کے کوڑا کر کٹ کو ٹھکانے لگانے کا مسئلہ درپیش ہے
اور خاص طور پہ ایسی اشیاء جن سے بیماریاں تیزی سے پھیلتی ہیں۔ہم بھی اس
مسئلے کا شکار ہیں، لیکن ہمارے ہاں یہ مسئلہ مزید خطرناک اور پیچیدہ صورت
اختیار کر رہا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہسپتال کا کوڑا کرکٹ عام کوڑے کے
ساتھ سڑک کے کناروں، گلیوں کے کناروں پہ پھینکنا ہے۔جہاں کئی کئی دن کوڑا
راہگیروں اور دیگر کچرا اکٹھے کرنے والوں کے لئے بیماریوں کا باعث بنتا
رہتا ہے۔افسوس ناک امر یہ ہے کہ ہسپتال انتظامیہ، میونسپلٹی کے ادارے اس
حوالے سے سنجیدہ نظر نہیں آتے۔اگر دیکھا جائے تو ہسپتال اور صحت عامہ کے
مراکز معاشرے کی صحت کی حفاظت کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔لیکن اگر یہی ادارے
میڈیکل کے اس خطرناک کوڑے کو غیر مناسب طریقے سے ٹھکانے لگائیں گے۔تو یہ
بدرجہا زیادہ بیماریوں کے پھیلاؤ کا باعث ہوسکتا ہے۔ پاکستان میں ہسپتالوں
کے اس کوڑے کو ٹھکانے لگانے کے حوالے سے موجودہ صورتحال تسلی بخش نہیں
ہے۔یہاں کوئی باقاعدہ ایسا نظام موجود نہیں ہے جو کہ اس کوڑے کو مناسب
طریقے سے ٹھکانے لگانے کا کام تسلسل سے انجام دے رہا ہو۔عام طور پہ یہ
دیکھا گیا ہے کہ ہسپتالوں کے کوڑے کو عام بلدیہ کے کوڑے کے ذخیروں کے ساتھ
سڑکوں کے کناروں پہ پھینک دیا جاتا ہے۔اور اس کو اسی طرح سے ٹھکانے لگایا
جاتا ہے جیسا کہ عام کوڑے کر کٹ کو۔کچھ کوڑا بغیر کسی خاص احتیاطی تدبیر کے
زمین میں دفن کر لیا جاتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ تمام آلات جو کہ کوڑے کے مناسب
انتظام کے حوالے سے ضروری ہیں وہ عام طور پہ موجود نہیں ہیں جہاں موجود ہیں
وہاں متعلقہ سٹاف ایک مؤثر او ر قابل عمل پالیسی بنانے اور اس پہ عملدرآمد
کرنے میں ناکام ہے۔
پاکستان میں ایک عام طرزعمل یہ ہے کہ استعمال شدہ سرنجوں کودوبارہ استعمال
میں لایاجاتا ہے۔لوگ ہسپتالوں کے کوڑے سے سرنجیں اٹھاتے ہیں اور انہیں
بیچتے ہیں۔بہت سے منشیات کے عادی افراد ان استعمال شدہ سرنجوں کو دوبارہ
استعمال کرتے ہیں جو کہ ایڈز اور دوسری مہلک ترین بیماریوں کا باعث ہو سکتا
ہے۔اگر سرنج کسی ایڈز زدہ فرد نے استعمال کی ہوئی ہے تو یقینا’ اس کے
دوبارہ استعمال سے ایڈز کی بیماری ہو سکتی ہے۔پس ہسپتال کے عملے کی یہ ذمہ
داری ہے کہ سرنجوں کو استعمال کرنے کے بعد انہیں کٹر سے کاٹ کر پھینک دیں
اس طرح سوئیوں کا دوبارہ استعمال نہیں ہو سکے گا۔جب ہسپتالوں کے کوڑے میں
پلاسٹک کو جلایا جاتا ہے تو اس سے ڈائیوکسن گیس خارج ہوتی ہے،جس سے
کینسر،پیدائشی معذوری،اعصابی کمزوری،قوت سماعت پہ اثر،حافظے کی کمزوری اور
دودھ پینے والے بچوں کے افعال متاثر ہو سکتے ہیں۔مکھیاں جب ہسپتال کے آلودہ
کوڑے کے ڈھیر پہ بیٹھتی ہیں تو اس سے بڑی آسانی سے ہلاکت خیزبیماریاں منتقل
ہوتی ہیں۔مثلاً ہیضہ ،اسہال،،ٹائیفائیڈ،ہیپا ٹائیٹس اور یرقان وغیرہ ۔جب
نمی ہوتی ہے تو مچھر پیدا ہو جاتے ہیں اور وہ بھی مختلف قسم کی بیماریوں کو
منتقل کرتے ہیں مثلا ملیریا اور زرد بخار۔اور اسی طرح کتے ،بلیاں اور چوہے
جب اس آلودہ کوڑے سے متاثر ہوتے ہیں تو ان سے بھی بہت سے بیماریاں منتقل
ہوتی ہیں۔مثلاً طاعون اور پسوں سے پھیلنے والا بخار۔اسی طرح وہ ورکرز جو کہ
آلودہ کوڑے کے جمع کرنے کے لئے کام کرتے ہیں ان میں آنتوں اور جلدی
بیماریاں بڑے پیمانے پہ دیکھی گئی ہیں۔ اس حوالے سے ضروری کہ اسپتال کے
کوڑے کو کم کرنے کے لئے ضروری اقدامات کئے جانے چاہئیں۔ میڈیکل ویسٹ
مینیجمنٹ میں واضح بہتری لائی جا سکتی ہے ،اگر سائنسی اصلاحات کو تسلسل کے
ساتھ نافذ کیا جائے اور اور اس کے ساتھ ساتھ میڈیکل ویسٹ اور اس کے تمام
پہلوؤں کا ادراک اور بنیادی مقاصد کوسمجھا جائے۔
ایسے اقدامات کو یقینی بنایا جائے کہ جس سے بیالیو جیکل اور کیمیکل نقصانات
کا حامل کوڑا عام کوڑے سے الگ رکھا جائے۔جو کہ Recycleآسانی سے ہو سکتا
ہے۔اس بات کا خاص دھیان رکھنا چاہئے کہ کوڑے کی مقدار کم سے کم ہو ،کام
کرنے والے اہلکاروں کی حفاظت تعلیم وتربیت اور مناسب حفاظتی آلات کے ذریعے
یقینی بنانی چاہئے۔
ہسپتال کے کوڑے کو تلف کرنے کے لئے انسینی ریٹر کا استعمال بھی کیا جاتا ہے
،دراصل یہ ایک پلانٹ کی طرح مشینری ہے اسے کوڑے کی Treatmentکے لئے استعمال
میں لایا جاتا ہے۔اس میں آلودہ کوڑے کو سائنسی بنیادوں پہ انتہائی بلند
درجہ حرارت پہ جلایا جاتا ہے۔اس کو میڈیکل ویسٹ کے لئے دو وجوہات کی بناء
پہ استعمال میں لایا جاتا ہے۔پہلا یہ کہ آلودہ کوڑے میں ایسے عناصر جو کہ
انسانی صحت کو متاثر کرتے ہیں کو ختم کرتی ہے۔دوسرا یہ اسپتالوں کے لئے با
کفایت رہی ہے۔کیونکہ اس سے کوڑے کی مقدار میں کافی حد تک کمی واقع ہوتی ہے
اور اسے تلف کرنا نہایت آسان ہو جاتا ہے۔لیکن اس کا مضر پہلو یہ ہے کہ اس
مشینری کے استعمال سے کوڑا جلایا جاتا ہے جس کی گیسیں ماحولیات کو آلودہ
کرتی ہیں۔
کئی ترقی یافتہ ممالک میں انسینی ریٹر ز ایک متروک ٹیکنالوجی کی صورت میں
تیزی سے سامنے آ رہی ہے۔میڈیکل اور میونسپل ویسٹ مینیجمنٹ کے لئے وہ زیادہ
سے زیادہ محفوظ اور باکفایت متبادل کی تلاش میں ہیں۔نتیجہ یہ ہے کہ انسینی
ریٹر ز بنانے والی کمپنیوں کا نشانہ اب وہ سمندر پار کے وہ ممالک یا علاقے
ہیں جہاں انسینی ریٹر ز کے صحت اور ماحولیات پہ پڑنے والے خطرناک اثرات کے
بارے میں آگاہی نہیں ہے۔یا وہ اس کے متبادل ذرائع کے فوائدکا ادراک نہیں
رکھتے۔کمپنیوں کاہدف ایشیاء،افریقہ اور لاطینی امریکہ کے ممالک ہیں جہاں وہ
اپنی زہریلی ٹیکنالوجی بیچتے ہیں۔پاکستان میں یہ انسینی ریٹرز مشینیں موجود
ہیں مثلاً شالامار اسپتال اور یونائیٹڈ کرسچن ہسپتال لاہور میں دو بڑے انسی
ریٹرز لگائے گئے ہیں۔
اس کے علاوہ ترقی یافتہ ممالک میں اسپتالوں کی سطح پہ کئی
متبادلInineration ٹیکنالوجیز موجود ہیں۔اگرچہ کہ یہ تکنیکیں زیادہ مہنگی
اور پیچیدہ ہیں۔یہ پاکستان میں استعمال نہیں ہورہی ہیں۔بہر حال یہ تکنیکیں
کوڑے کو مناسب انداز سے تلف کرنے کے لئے استعمال ہونی چاہئیں۔جن میں (
Steam Autoclaving)بھاپ کی مدد سے جراثیم کشی۔ ایک مؤثر اور بہترین متبادل
ٹیکنالوجی کے طور پہ بڑے پیمانے پہ استعمال ہو رہی ہے۔زیادہ تر بھاپ کے
پلانٹ ( Autoclaves)مضر حیات اور عام اسپتالوں کے کوڑے کے لئے ایک ساتھ
استعمال میں لانے کے لئے بنائے گئے ہیں۔تاہم یہ جانوروں کے پتھالوجیکل ویسٹ
،کیمو تھراپی ویسٹ اور کم درجے کے تابکاری شدہ کوڑے کو Treat نہیں کر
سکتے۔یہ تمام ویسٹ علیحدہ سے Treatکئے جاتے ہیں۔
اس کے علاوہ کیمیائی علاج(Chemical Treatment) بھی ہے۔Chemical Treatmentکے
نظام میں ،ایک Anti-microbialکیمیکل،جیسا کہ ہائیپو
کلورائیٹ(Hypochlorite)،کلورین ڈائی آکسائیڈ یا Peraceticایسڈ میڈیکل کوڑے
کو آلودگی سے پاک کرتے ہیں۔موجودہ دور میں زیادہ تر کیمیائی طریقے عام درجہ
حرارت پہ استعمال کئے جاتے ہیں۔اس کے علاوہ مائیکرو ویو ریڈی ایشن(Micro
wave Radiation) ہے ۔اس طریقہ کار میں میڈیکل کوڑا ایک مسلسل عمل کے نظام
سے بھاپ یا پانی سے گیلا کیا جاتا ہے اور پھر اسے مائیکرو ویو کی شعاعوں سے
اتنی حرارت پہنچائی جاتی ہے کہ اس کی آلودگی ختم ہو جاتی ہے۔
دوسرے طریقوں میں Infraredشعاعوں اور قوت سے بھر پور گرم ہوا کے پھیلاؤ سے
بھی کوڑا کرکٹ کو Treat کیا جاتا ہے۔اس طرح کوڑا حجم میں کم ہو جاتا ہے اور
اسے پھر زمین میں دفن کے لئے تیار کر لیا جاتا ہے۔دوسرے نظاموں میں گیما
شعاعوں کے ذریعے سے بھی اتنا درجہ حرارت دیا جاتا ہے کہ اس میں سے مضر
اثرات ختم ہو جاتے ہیں۔اس میں سے کچھ حصہ کوڑے کا Recycleکر دیا جاتا ہے
اور باقی کو تلف کیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ کئی تھرمل نظام ترقی کے مراحل میں
جن میں تیل،بجلی اور شعاعیں جو کہ درجہ حرارت کا زریعہ ہیں۔ اس کے علاوہ
پتھالو جیکل کوڑا جس میں انسانی اور حیوانی اعضاء شامل ہوتے ہیں کو
Autoclavingکے ذریعے تلف نہیں کیا جا سکتا۔لہذا اس کے تلف کرنے کے لئے یا
تو اسے جلایا جائے،یا اس دفن کر دینا چاہئے۔یہ تمام طریقے ایک تو ہسپتال کے
خطرناک کوڑے کو کم کرنے اور اسے بہتر طریقے سے تلف کرنے میں معاون ہیں نیز
ان کے استعمال سے ماحول آلودہ نہیں ہوتا جس سے عام شہریوں کی صحت محفوظ
رہتی ہیں۔
اس مقصد کے حصول کے لئے متعلقہ اداروں کا کردار نہایت اہم ہے،انہیں ایسی
حکمت عملی بنانے اور اسے نافذ کرنے کی ضرورت ہے جس سے صرف ہسپتال کا کوڑا
درست طریقے سے تلف ہو،اس کے لئے اہم اقدام ضروری مشینری اور تلف کرنے کا
نظام ہر ہسپتال یا میونسپلٹی میں ہونا چاہئے، اور اس کے ساتھ ساتھ متعلقہ
عملے کے لئے خصوصی ٹریننگ کا انتظام کرنا بھی انتہائی ضروری ہےَ اس کے ساتھ
ساتھ عوام کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے گرود پیش کو صاف کرنے کے حوالے
سے متعلقہ اداروں سے تعاون کریں ۔ |
|
Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.