اسلام انسانی فطری ترقی کا علمبردار ہے، خالق کائنات نے
اس دین فطرت کو پیغمبر اسلام ﷺ کے ذریعے فکری اور عملی طور پہ انسانی
معاشرے تک پہنچایا۔ زندگی کے ہر شعبے میں ارتقاء کے عمل کو جاری وساری
رکھنے کے حوالے سے رسول اکرم ﷺ نے قیامت تک آنے والے انسانوں کے لئے رہنما
اصول متعین کئے، اور ان پہ اپنے دور میں عمل کر کے دکھایا۔آپ ﷺ نے جہاں
دیگر شعبہ ہائے زندگی میں رہنمائی فرمائی ہے وہاں خاص طور پہ سماجی خدمت کے
حوالے سے آپ ﷺ نے جو عملی کردار ادا کیا وہ رہتی دنیا تک کے انسانوں کے لئے
مشعل راہ رہے گا۔اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے انتہائی درجے کی محبت، ہمدردی اور
مہربانی کا جو سلوک آپ ﷺ نے روا رکھا اس کی مثال تاریخ پیش نہیں کر سکتی۔آپ
ﷺ کا ارشاد ہے:(حضرت ابن مسعودؓ نے روایت کی کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا تمام
مخلوق اللہ کا عیال (کنبہ)ہے سو ان میں سے اللہ کو سب سے زیادہ پیارا وہ
شخص ہے جو اس کے عیال کو زیادہ نفع پہنچانے والا ہے۔)
تاریخ بتاتی ہے کہ پیغمبر اسلام ﷺ نے جب ہوش سنبھالا تو اس وقت سے آپ نے
معاشرے میں انسانوں کی خدمت اور مدد کو اپنا وطیرہ بنا لیا۔ عام زندگی میں
دیگر افراد معاشرہ کے کام کر کے آپ ﷺ خوشی محسوس کرتے، ہمہ وقت دوسروں کی
تکلیفوں اور پریشانیوں کا احسا س کرتے، اور ان کی مدد کے لئے بے چین رہتے۔
بوڑھے، ضعیفوں، کا بوجھ اٹھاتے، ضرورت مندوں کی ضرورتوں کو پورا کرتے،
یتیموں، مسکینوں کی کفالت کا بندو بست کرتے،خود فاقہ برداشت کرتے لیکن کسی
سوالی کو اپنے دروازے سے خالی ہاتھ نہ لٹاتے،اس سلسلے میں ایک واقعہ بھی
مشہور ہے کہ بعثت کے بعد جب آپ ﷺ نے تبلیغ کا آغاز کیا تو اس وقت بھی آپ
سماجی خدمت کے چھوٹے چھوٹے کام انجام دیتے تھے ۔’’ایک دفعہ ایک ضعیف العمر
عورت لکڑیوں کا گٹھا اٹھائے جا رہی تھی کمزوری کی وجہ سے وہ چل نہیں پا رہی
تھی تو آپ ﷺ نے آگے بڑھ اس کا بوجھ خود اٹھا لیا۔وہ حضور کو دعا ئیں دینے
لگی۔چونکہ وہ غیر مسلم تھی اس نے تذکرہ شروع کر دیا کہ بیٹا تجھے پتہ ہے
ایک محمد نام کا ایک شخص ہے جو ہمارے خدا ؤں کو برا بھلا کہتا۔اس طرح وہ
حضور کو برا بھلا کہنے لگی اور آپ ﷺ سے سوال کرنے لگی کہ کیا تم اسے جانتے
ہو،آپ ﷺنے فرمایا کہ ہاں میں ہی وہ محمد ہوں۔لہذا وہ عورت آپ کا جواب سن کر
ششدر رہ گئی اور آپ کے اس طرز عمل سے اتنا متاثر ہوئی کہ اس نے اسلام قبول
کر لیا۔‘‘
رسول اکرم ﷺ ہمیشہ معاشرے کے دکھ درد میں شریک رہتے جب کبھی کوئی بیمار
ہوتا آپ اس کی عیادت کے لئے تشریف لے جاتے۔اس حوالے سے وہ کسی کافر اور
مسلمان میں تمیز نہیں کرتے تھے۔بلکہ یہاں تک ہوا کہ آپ کے اوپر گندگی
پھینکنے والی اور آپ کے راستے میں کانٹے بچھانے والی عورت جب بیمار ہوئی تو
آپ نے اس کی بھی عیادت کی۔اسی طرح’’ایک یہودی غلام بیمار ہوا تو آپ اس کی
عیادت کے لئے تشریف لے گئے‘‘ آپ ﷺکی درد مندی اور افراد معاشرہ کی دل جوئی
اور خبر گیری کے بے شمار واقعات سیرت طیبہ میں موجود ہیں۔
اس دور میں مکی سوسائٹی کی حالت یہ تھی کہ بااقتدار اہل ثروت طبقہ جو قوت
کا مالک تھا کمزور اور مفلوک الحال افراد ان کے رحم وکرم پر زندگی گذار رہے
تھے۔ مکہ میں سودی کاروبار زوروں پر تھا ۔ امیر طبقہ اپنے مال کی طاقت سے
معاشرے پہ حاوی تھا ۔مال سے وہ لونڈیاں اور غلام خریدتے اور ان پہ مظالم کی
انتہا کر دیتے، اور طرح طرح کی عیاشیوں میں مبتلا تھے۔سرداروں کا یہ طبقہ
کمزوروں کو اپنی طاقت کے بل بوتے پر دبا کر رکھتا اور ان کے حقوق سلب کرتا۔
پیغمبر اسلام ﷺ نے اپنے بچپن اور جوانی کے ایام میں سرداروں کی ان ریشہ
دوانیوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔لہذا آپ ہمیشہ مظلوموں کی مدد کے لئے
بیتاب رہتے،لہذامظلوم افراد کی حمایت اور ان کی مدد کے لئے آپ ﷺ نے درد مند
دل رکھنے والے افراد کے ساتھ مل کر ایک تنظیم قائم کی۔ اور دیگر نوجوانوں
کو بھی اس میں شرکت کے لئے آمادہ کیا۔اس تنظیم کا نام تاریخ ہمیں ’’معاہدہ
حلف الفضول‘‘ کے نام سے یاد کرواتی ہے۔ اس وقت آپ ﷺکی عمر مبارک بیس سال
تھی۔ ’’معاہدہ حلف الفضول‘‘ کی اہم دفعات یہ تھیں۔
’’۱۔۔ہم ملک سے بد امنی کا قلع قمع کریں گے۔
۲۔۔۔ہم مسافروں کی حفاظت کیا کریں گے۔
۳۔۔ہم غریبوں کی امداد کیا کریں گے۔
۴۔۔ہم طاقتوروں کو کمزوروں کا استحصال کرنے سے روکیں گے۔ ’’زبیر بن
عبدالمطلب نے اپنے دو شعروں میں ان دفعات کا یوں ذکر کیا ہے۔
ان الفضول تعاھدو ا وتحافوا الا یقیم ببطن مکۃ ظالم
امر علیہ تعا قد دا و توا ثقوا فا الجار والمعتر فیھم سالم
(فضول فضیلت والے بزرگوں نے عہد کیا اور قسم کھائی کہ مکہ مکرمہ میں کوئی
ظالم نہیں رہ سکے گا۔)
اس معاہدہ کے شرکاء نے کہا
’’لنکونن مع المظلوم حتی یؤدی الیہ حقہ ما بل مجر صوفۃ وفی الناسی فی
المعاش۔
(جب تک دریا میں صوف بھگونے کی صفت باقی ہے(یعنی ہمیشہ ہمیشہ)ہم مظلوم کا
ساتھ دیں گے یہاں تک کہ اس کا حق ادا کیا جائے اور معاش میں ہم خبر گیری
اور مواسات بھی کریں گے۔
مظلوموں کی حمایت کے لئے بعثت سے پہلے آپ ﷺکی سماجی خدمت اور مدد کے حوالے
سے یہ اہم ترین جدو جہد تھی۔اور آپ ﷺ اس کو نہایت اہمیت دیتے تھے۔’’نبوت
ملنے کے بعدبھی فرمایا کرتے تھے کہ اگر مجھے اس قسم کے معاہدہ کی طرف آج
بھی دعوت دی جائے تو میں بخوشی شامل ہونے کو تیار رہوں گا۔
’’ایک دفعہ آ پ ﷺ نے فرمایا’’معاہدہ کے مقابلے میں اگر مجھے سرخ اونٹ بھی
دئیے جاتے تو میں نہ بدلتا۔‘‘اسی سماجی تنظیم کے تحت آپ ﷺ نے کئی مظلوموں
کو حق دلایا اور اسی تنظیم کے دباؤ کی وجہ سے سرداروں کو کسی کمزور کا حق
دبانے کی جرات نہیں ہوتی تھی۔
پیارے حبیب ﷺ کی نظر میں اس سماجی تنظیم کی اہمیت اس حقیقت کو واضح کرتی ہے
کہ ، معاشرے میں ہونے والے ظلم و استحصال کے خلاف جدو جہد کرنا کتنا اہم
کام ہے، مکی زندگی میں نوجوانی کی عمر میں آپ ﷺ کا یہ سماجی خدمت کا کام آج
نوجوانوں کے لئے مشعل راہ ہے۔افسوس یہ ہے کہ آج ہم نے پیارے نبی ﷺ کی سماجی
خدمت کے حوالے سے سنت کو یکسرنظر انداز کیا ہوا ہے، ہمارے ہاں یہ سوچ ہے کہ
شاید سماجی خدمت کے کام کے لئے معاشرے میں تنظیم بنانا، ایسے ادارے بنانا
جو مظلوموں، ضعیفوں، کمزوروں کی کفالت کرتے ہوں، جو مظلوموں کو ظالموں سے
حق دلاتے ہوں، یہ غیر اہم اور ’’دنیاداری ‘‘والا کام ہے،حالانکہ چودہ سو
سال پہلے ہمارے پیارے نبی ﷺ نے ہمیں معاشرتی خدمت کے لئے تنظیم سازی کا درس
دیا اور عملی طور پر اس کا مظاہرہ کیا اور ہمیں یہ سمجھایا کہ یہ دنیا داری
نہیں بلکہ ’’دین داری‘‘ والا کام ہے ۔
عصر حاضر میں مسلمان نوجوانوں کو سیرت رسول ﷺ کے اس پہلو کو اجاگر کرنے کی
ضرورت ہے، اپنے معاشرے میں ہونے والے ظلم و استحصال پہ خاموشی اختیار کرنے
کی بجائے جذبہ خدمت خلق کے تحت ادارے اور تنظیمیں بنا کر اپنے عوام کی مدد
اور خدمت کریں ، لوگوں کے دکھ درد بانٹیں ۔ ان کے حقوق دلانے کے لئے ایک
مؤثر آواز بنیں۔یہی پیارے حبیب ﷺ کی سنت ہے ۔یہی راستہ ہے رضا الہیٰ حاصل
کرنے کا۔ اسی سے ہم معاشرتی استحکام اور ترقی کی طرف گامزن ہو سکتے ہیں۔اس
سلسلے میں معاشرے میں ضرورت مند افراد کی خدمت کے لئے چھوٹی چھوٹی تنظیموں
کی تشکیل کا کام کیا جا سکتا۔مثلا صحت وصفائی کے حوالے سے تنظیمیں جو ماحول
کی صفائی کے حوالے سے کام کریں، غریب اور بے گھر افراد کی مدد کے لئے
تنظیمیں ،معاشرے میں دیگر اجتماعی مسائل کے حل کے لئے اجتماعی جدو جہد کے
لئے پلیٹ فارم کی تشکیل، خاص طور پر وہ لوگ جو اپنے حقوق حاصل نہیں کر سکتے
ان کے لئے عدل وانصاف کے حصول لئے ان کی مدد کی جائے،مزدوروں کی فلاح
وبہبود کے ایسے ادارے قائم کئے جائیں جو ان کی ضروریات ،ان کے بال بچوں کی
دیکھ بھال کا انتظام کریں،اسی طرح معاشرے میں ہونے والی حق تلفی اور مظلوم
طبقات کی حمایت کے لئے اور ان کے حقوق کی آواز بلند کرنے کے لئے تنظیم کی
تشکیل کی جائے۔اس طرح معاشرے کے اندر مل جل کر اپنے مسائل حل کرنے کا شعور
پیدا ہو گا اور آگے چل کر قومی سطح پہ ایک مثبت اجتماعی تبدیلی کا خواب بھی
شرمندہ تعبیر ہو گا۔ |