دل کی صحت سے آگاہی کا عالمی دن

 دل جسم کا اہم ترین عضو ہے، پٹھوں کا مجموعہ ہے جس کا کام گردشی نظام کے ذریعے انسانی بدن کے ہر حصے تک خون اور آکسیجن پہنچانا ہے ۔ انسان کا دل حجم میں تو محض تقریباً مٹھی کے برابر ہوتا ہے، لیکن یہ ایک منٹ میں ستر مرتبہ اور ایک دن میں تقریباً ایک لاکھ ایک ہزار مرتبہ دھڑکتا ہے اور ہر دھڑکن کے دوران سکڑتا اور پھیلتا ہے۔ دل شکم مادر میں ہی زندگی کے تیسرے ہفتے سے ہی دھڑکنا شروع ہوجاتا ہے اورپھر دھڑکن کا یہ سلسلہ تاحیات بغیر کسی تعطل کے جاری رہتا ہے ، غرضیکہ انسانی جسم میں یہ واحد عضو ہے جس کی حرکت پر انسانی زندگی کی بقاء ہے ۔ دل بظاہر تو ایک چھوٹا سا عضو ہے لیکن اسے جس قدر اور جس نوعیت کا کام کرنا پڑتا ہے اس پر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ سائنس کی اتنی ترقی کے باوجود کوئی بھی اس کی صحیح نقل تیار نہیں کرسکا۔ اس چھوٹی سی مشین میں ہنگامی حالت سے نمٹنے کی صلاحیت بھی موجود ہے۔ یعنی اگر کسی وجہ سے اس میں کوئی معمولی نقص پیدا ہوجائے تو یہ آپ ہی آپ اپنی مرمت بھی کرلیتا ہے۔ تمام انسان دل کی کارکردگی پر محو حیرت ہیں کہ یہ چھوٹا سا عضو کس قدر اور کتنے کام سرانجام دیتا ہے لیکن اس کے باوجود نہیں تھکتا ، یہی قدرت الٰہی ہے کہ اﷲ تبارک و تعالیٰ نے اس چھوٹی سی شے میں اتنی زیادہ صلاحیتیں جمع کررکھی ہیں، اور دل کی خصوصی اہمیت کے پیش نظر اسے ایک مخصوص غلاف میں لپیٹا ہوا ہے جسے PERICARDIUM کہتے ہیں۔ یہ ایک خاص رطوبت سے بھرا ہوتا ہے جو دل کی حرکت کے درمیان مزاحمت کو کم کرنے کے علاوہ اس کے سکڑنے اور پھیلنے میں بھی مدد دیتاہے۔ عموماً دل کی بیماریاں اس وقت شروع ہوتی ہیں جب کولیسٹرول، چربی، اور چونا (کیلشیم) خون کی نالیوں (شریانوں) میں جمنا شروع ہو جاتا ہے۔ کولیسٹرول، چربی اور کیلشیم کے جمنے کے اس عمل کو (آتھیروس کلیروسس) کہتے ہیں،جس کی وجہ سے دل کو خون فراہم کرنے والی شریانوں میں خون کے گزرنے کا راستہ تنگ ہوجاتا ہے ، اور دل کو مناسب مقدار میں آکسیجن نہیں مل پاتی۔ دل کو آکسیجن کی یہ کمی سینے میں درد ، ہارٹ اٹیک اور انجائنا کے مرض کا باعث بنتی ہے۔ عالمی سطح پر یوم قلب منانے کا مقصد لوگوں میں دل کی روز بروز بڑھتی بیماریوں سے مکمل آگاہی اور امراض قلب سے تحفظ کے لئے شعور بیدار کرنا ہے ۔ دنیا بھر میں لاکھوں افراد ہر سال دل کی بیماریوں کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ پاکستان میں ہر پانچواں شخص دل کے کسی نہ کسی عارضہ میں مبتلا ہے اور پاکستان میں ہر سال تقریباً دو لاکھ افراد دل کے امراض کے باعث ہلاک ہوجاتے ہیں۔ عالمی ادارہ برائے صحت (World Health Organisazion ) نے خبردار کیا ہے کہ دل کے عارضے میں روز بروز تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، اور سن دو ہزار تیس تک دنیا بھر میں دل کے امراض کے سبب اموات کی شرح سترہ اعشاریہ تین ملین سے بڑھ کر تئیس اعشاریہ چھ ملین تک پہنچ سکتی ہے۔دل کے امراض کی بڑی وجوہات میں تمباکو نوشی، غیر صحت مند غذا ، جسمانی سرگرمیوں کا فقدان اور باقاعدگی کے ساتھ ورزش نہ کرنا ہے۔ دل کے امراض سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ معیاری غذا کا استعمال کیا جائے، کھانے پینے کے معاملے میں اعتدال سے کام لیا جائے، تمباکو نوشی ترک کی جائے، روزانہ پھل اورسبزیوں کا استعمال کیا جائے اور دن بھر کی خوراک میں ایک چائے کے چمچ سے زیادہ نمک کے استعمال سے پرہیز کیا جائے۔ دل کی بیماریوں سے بچنے کے لیے روزانہ کم از کم آدھا گھنٹہ جسمانی سرگرمیوں میں گزارا جائے یا ورزش کی جائے ، اور دل کا سالانہ معائنہ ضرورکروایا جائے۔ دل کے ظاہری امراض کی طرح دل کے باطنی امراض بھی بہت سے ہیں، مثلاً کینہ، بغض، عداوت، دشمنی، حسد اور تکبر وغیرہ، جن میں آج ہر آدمی مبتلا نظر آ تا ہے۔یہ ایسے امراض ہیں جو بغیر توبہ اور اصلاح کے ختم نہیں ہوسکتے، ان کا علاج بھی بہت ضروری ہے۔ آج انسان بیہودہ گانوں میں دل کا سکون تلاش کر رہے ہیں، حالانکہ قدرت الٰہی نے اس میں سکون رکھاہی نہیں۔ حقیقی سکون اور اطمینان قلب صرف ذکر الٰہی میں ہے ۔قرآن مجید میں اﷲ تبارک وتعالیٰ فرماتے ہیں’’خبردار! ( سن لو) اﷲ کے ذکر ہی سے دل سکون و اطمینان پاتے ہیں۔‘‘ دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ہمارے دلوں کو ظاہری اور باطنی امراض سے محفوظ رکھے اور حقیقی راحت ، اطمنان قلب نصیب فرمائے۔ آمین۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Rana Aijaz Hussain
About the Author: Rana Aijaz Hussain Read More Articles by Rana Aijaz Hussain: 1004 Articles with 817389 views Journalist and Columnist.. View More