پنجاب حکومت میں رانا برادری کے وزراء کا بہت عمل
دخل ہے۔ سپیکر رانا اقبال ہیں، وہ حکومت میں وراثت کی روایت پر عمل پیرا
ہیں، کہ ان کے والد رانا پھول محمد کے نام پر تو شہر کا نام بھی تبدیل
ہوگیا تھا، کیوں نہ ایسے باپ کے ہونہار بیٹے کو(مستقل) سپیکر بنایا جاتا۔
رانا ثناء اﷲ کی اہمیت پر کوئی بحث نہیں، کہ وزیر قانون اہم تر وزیر ہوتا
ہے، لاہور میں منہاج القرآن کے درجن بھر کارکنوں کے پولیس کے ہاتھوں قتل کے
بعد موصوف کو عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا، شاید مخالفین کے دباؤ کو کم کرنے کے
لئے ایسا کرنا ضروری ہو گیا تھا۔ بعد ازاں اسی آب وتاب کے ساتھ وہ اسی
وزارت کا قلمدان سنبھالے ہوئے ہیں، یہ حکومت کی پسند کا مسئلہ ہے ، یا یہ
اہم فریضہ کوئی اور سرانجام نہیں دے سکتا، اس کا صحیح علم حکومت اور رانا
ثناء اﷲ کو ہی ہوگا۔ رانا صاحب کی ایک اور خوبی یہ بھی ہے کہ وہ حکومت کے (خود
ساختہ) ترجمان بھی ہیں، یعنی مخالفین کے سوالوں کے جواب دینا اور مخالفین
کو سوالوں اور بیانات میں الجھانا رانا صاحب کی اہم ڈیوٹی ہے۔ تیسرے رانا
مشہود ہیں، اگرچہ یہ بھی بعض اوقات الزامات کی زد میں رہتے ہیں، ایک مرتبہ
تو ان پر کسی سے رشوت لینے اور آگے دینے کے الزامات بھی لگے، مگر وہ ایک ہی
جست میں مسائل سے نکل آئے، بحران کے دوران ان کی وزارت کی کشتی بھی ڈولتی
رہی ہے، مگر بالآخر تعلیم جیسی اہم وزارت کا بوجھ انہی کے کندھوں پر ہے۔
اپنے ہاں خبر سازی کا ایک بہت بڑا المیہ یہ ہے کہ تعلیم، صحت اور بنیادی
ضرورتوں جیسے اہم مسائل پس منظر میں چلے جاتے ہیں اور منظر پر گنڈاسے، نعرے،
دھمکیاں، بڑھکیں اور اسی نوع کی دیگر چیزیں رہ جاتی ہیں۔ اگر کسی وزیر نے
کسی علاقہ کا دورہ کیا تو وہاں ان کی وزارت سے متعلق بھی کچھ نہ کچھ سوال
پوچھے جاتے ہیں، مگر جب خبر بنتی ہے تو اس بات کا خاص طور پر خیال رکھا
جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے بیان اور باتوں میں اپنے مخالف سیاستدانوں کے
بارے میں کس لہجے میں بات کی ہے، کس کو للکارا ہے، کس کو چیلنج کیا ہے، کس
کو لتاڑا ہے، کس کی بات کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیا ہے، اپنی باتوں کو کس
طرح حق اور سچ کا اظہار قرار دیا ہے؟ وزیر کے متعلقہ محکمہ کی خبر نیچے
کہیں دب جاتی ہے، بعض اوقات تو خبر کی ذیلی سرخیوں میں بھی ان کی وزارت کی
باتوں کو جگہ نہیں ملتی، البتہ خبر کی تفصیل بیان کرتے ہوئے ان کی وزارت سے
متعلق بھی کچھ باتیں لکھ دی جاتی ہیں۔ اس المیہ نے اس لئے جنم لیا کہ اپنے
ہاں الیکٹرانک میڈیا کی دوڑ کی وجہ سے ریٹنگ کا معاملہ بھی بہت اہمیت
اختیار کر چکا ہے، ریٹنگ کے مقابلے میں بات کہاں سے کہاں پہنچ جاتی ہے، بسا
اوقات ہیجان انگیزی کا ماحول پیدا ہو جاتا ہے، اور بعض اوقات ایسا دکھایا
جاتا ہے کہ سیاسی کارکنوں کی آپس میں خانہ جنگی ہونے کو ہی ہے۔
رانا مشہود خان ملتان گئے تو انہوں نے اپنے دورے کی تمام روایتی کارروائیاں
مکمل کیں، انہوں نے محکمہ تعلیم کے افسران کے اجلاس کی صدارت کی اور
معلومات حاصل کیں، وہ سکولوں میں بھی گئے اور وہاں میڈیا کی ہمراہی میں
دورہ کیا، بچوں اور بچیوں سے سوال پوچھے، یقینا وہ بچوں سے بے تکلف بھی
ہوئے ہونگے۔ انہوں نے واٹر فلٹر پلانٹ کا افتتاح بھی کیا۔ اس تمام کچھ کے
باوجود اُن کی مصروفیات اور باتوں سے جو خبر میڈیا نے برآمد کی وہ اس قسم
کی تھی ’’عمران کو نئی دلہن مل گئی تو مارچ ختم ہو جائے گا ․․․ اپوزیشن
ترقی کا راستہ روکنا چاہتی ہے ․․․ جنگ ہونے پر بھارت ٹوٹ جائے گا․․․‘‘۔ اِن
سرخیوں کے ساتھ خبر کی تفصیل بھی تھی، جس میں مندرجہ بالا جملوں کی تشریح
کے علاوہ یہ بھی بتایا گیا تھا کہ’’․․․ وزیراعلیٰ شہباز شریف کے وژن کے
مطابق تعلیم کے بجٹ میں ریکارڈاضافہ کردیا گیا ہے، تاکہ کوئی بچہ سکول سے
باہر رہ کر تعلیم سے محروم نہ رہ جائے۔ 36ہزار کلاس رومز تعمیر کئے جارہے
ہیں، ستّر ہزار نئے اساتذہ بھرتی کئے جارہے ہیں،تاکہ ہر پرائمری سکول میں
کم از کم چار ٹیچر موجود ہوں۔ پرائمری میں سکول آنے والی بچیوں کو دو سو کی
بجائے ایک ہزار روپیہ ماہانہ دیا جائے گا․․․‘‘۔ ہونا یہ چاہیے کہ وزیر
موصوف اپنے محکمے کی بات کو ترجیح دیں ، نعروں اور دھمکیوں کی سیاست نہ
کریں اور میڈیا کا فرض ہے، کہ وہ تعلیم، صحت اور دیگر اہم ایشوز پر سیاسی
نعروں کو ترجیح نہ دیں، مگر کیا کیجئے کہ ایسا کرنے سے ریٹنگ ڈاؤن ہو جاتی
ہے۔ |