پچھلی چار دہائیوں سے اب تک بھارت نہ صرف
خطے میں بلکہ پوری دنیا میں ایک دہشتگرد ملک کے طور پر سامنے آرہا ہے اور
اسکو اقوام متحدہ کی طرف سے نکیل نہ ڈالے جانے کی وجہ سے دن بہ دن اس کی ہٹ
دھرمیوں میں اضافہ ہو رہا ہے ۔بھارت کی یہ انتہا پسندی صرف اور صرف پورے
خطے میں اپنی چوہدراہٹ قائم کرنے اور ہندو بنیوں کا سبق لے کر مسلمان مخالف
ہے یہی وجہ ہے کہ اس وقت خطے میں موجود تمام اسلامی مخالف بھارتی مظالم اور
شدت پسندی سے محفوظ نہیں ہیں لیکن افسوس ان ممالک پر ہے جو اس وقت ایمان کا
سودا کر کے ضمیر فروش ہوچکے ہیں وقت خود کو دوہرا رہا ہے لیکن یہ عقل کے
دشمن سمجھنے سے قاصر ہیں ۔عصر حاضر میں ایک طرف تو افغانستان اور ایران
ٹیپو سلطان کے میر جعفر اور میر صادق کا کردار ادا کر رہے ہیں جبکہ کچھ
ممالک بھارتی انتہا پسندی اور بڑھکوں سے ڈر کر مسلم ممالک کا ساتھ دینے کی
بجائے اپنا دامن صاف رکھنے کی کوششوں میں لگے ہیں لیکن ان کی یہ کوششیں
رائیگا ں جانے والی ہیں کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ ہندو بنیوں نے کبھی اپنے
معاہدوں کا پالن نہیں کیا بلکہ ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا۔نبی کریم ﷺ کے دور
میں مسلمانوں کیلئے شروع اوقات میں پانی کا بہت زیادہ مسئلہ تھا اس وقت
وہاں ایک ہی کنواں تھا جس کا پانی پینے کے قابل تھا لیکن وہ کنواں ایک
یہودی کی ملکیت تھا اور اسکا پانی وہ قیمتاََ فروخت کیا کرتا تھا لیکن
مسلمانوں کی کثیر تعداد صاحب استطاعت نہیں تھی اس لئے مسلمانوں کیلئے یہ
ایک سنگین مسئلہ بن چکا تھا ۔حضرت عثمان غنی ؓ نے وہ کنواں خریدنا چاہا تو
پہلے یہودی نے انکار کردیا اور اس کنویں کی قیمت کے لحاظ سے کئی گنا قیمت
کا مطالبہ کیا لیکن کچھ دن بعد حضرت عثمان غنی ؓ اور اس یہودی کے مابین
معاہدہ ہوا کنویں کی آدھی قیمت حضرت عثمان ؓ نے اس یہودی کو ادا کی اور
معاہدے میں یہ طے پایا کہ ایک دن حضرت عثمان غنی ؓ کنویں کا پانی استعمال
کر سکیں گے اور ایک دن یہودی ۔حضرت عثمان غنی ؓ نے اپنی باری کے دن پانی
مسلمانوں کیلئے وقف کر رکھا تھا جبکہ یہودی حسب عادت اپنی باری کے دن پانی
فروخت کیا کرتا تھا لیکن بعد میں یہودی کی جانب سے معاہدے کی ہٹ دھرمی ہونے
لگی اور وہ مسلمانوں کی باری کے دن بھی پانی بھرنے اور مسلمانوں کو تنگ
کرنے لگا یہ حالت دیکھ کر حضرت عثمان غنی ؓ نے کنویں کی باقی مالیت دے کر
بارہ ہزار دینار میں سارا کنواں خرید کر مسلمانوں کیلئے وقف کر دیا اسی طرح
صلح حدیبیہ کی تاریخ بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ کس طرح کفار نے اس
معاہدے کی خلاف ورزی کی اور آخر کار مسلمانوں کو جنگ کے راستے پر لے آئے ۔اسلامی
جمہوریہ پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے پہلے برصغیر پاک و ہند کو کل چھ
دریا سیراب کرتے تھے جن میں چناب،جہلم ،راوی، انڈس،ستلج اور بیاس شامل تھے
لیکن آزادی کے بعد آٹھ سال بعد جب بھارت نے کشمیر پر قبضہ کر کے دریائے
نیلم ،چناب اور جہلم پر ڈیم بنانے شروع کئے تو پاکستان کو خطرے کا احساس
ہوا جس کی وجہ سے اقوام متحدہ کے پاس اس مسئلے کو لے جایا گیا اور پھر
اقوام متحدہ کی کوششوں سے پاک بھارت آبی مسئلے پر ایک معاہدہ ’’سندھ طاس
‘‘کے نام سے طے پایا جس کی ایک شق یہ تھی کہ اگر دونوں ممالک میں سے اگر
کوئی چاہے تو وہ اپنی ضرورت کے مطابق پانی ذخیرہ کرنے کیلئے ان دریاؤں پر
ڈیم تعمیر کر سکتا ہے اس شرط کی پاکستان کو اب سمجھ آئی کہ جب انڈیا اس شق
پر عمل کر چکا تھا اور دوسری بڑی بدقسمتی یہ تھی کہ پاکستان کے حصے میں
جتنے بھی دریا آئے سب بھارت کے راستے ہو کر پاکستان میں داخل ہوتے ہیں اس
شق کے بعد بھارت نے دھڑا دھڑ ڈیم بنانے شروع کئے اور آج ان پر 62سے زائد
ڈیم تعمیر کئے جا چکے ہیں جبکہ اس کے برعکس پاکستان اب تک صرف دو ہی منگلا
اور تربیلا ڈیم بنا سکا ہے اور اگر کسی حکومت نے کوئی ڈیم بنانا چاہا تو وہ
کرپشن یا ذاتی مفادات کے سیلاب میں بہہ کر نا جانے کہاں چلا گیا ہے۔ایک
اندازے کے مطابق پاکستان میں سالانہ اوسط 145ملین ایکڑ فٹ ندی نالوں سے آتا
ہے لیکن اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا اس کے علاوہ بلوچستان کے اکثر علاقے
بنجر پڑے ہیں ۔پاکستان کے مقابلے میں بھارت میں سالانہ اوسط کے حساب سے
750ملین ایکڑ فٹ پانی ریکارڈ کیا گیا ہے اس کے علاوہ جو ندی نالوں سے آتا
ہے وہ الگ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بھار ت کس قدر پاکستان کے ساتھ آبی
جارحیت جاری رکھے ہوئے ہے جس کی وجہ سے پاکستان کو بھارت کے مقابلے میں تین
گنا آبی مسائل کا سامنا ہے ۔حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اور انڈیا کو
پانی کی دستیابی با لکل برابر ہے پھر کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں بھارت کی
نسبت کم مقدار میں پانی سپلائی کیا جاتا ہے اور وہ بھی سیلاب کی صورت میں
؟؟یہ مسئلہ یہیں ختم نہیں ہوتا بلکہ جسطرح بھارت نے دھڑ ا دھڑ ڈیموں کی
تعمیر کی ہے اور اب پاکستان کے ساتھ سندھ طاس معاہدے کو منسوخ کرنے کی
باتیں کر رہا ہے اس سے تو صاف خطرے کی بو آتی ہے کہ پھر سے کفار جنگ کرنا
چاہتے ہیں کیونکہ آبی مسئلے پر معاہدہ طے ہونے کے باوجود انڈیا نے پینسٹھ
کی جنگ میں پاکستان پر تاریک راتوں میں دھاوا بول دیا جس کے جواب میں آخر
بھارت کو پاک فوج کے ہاتھو ں ذلیل ہو کر گھر واپس لوٹنا پڑا ۔اکہتر اور
ننانوے کی جنگ بھی اسی طرح بھارتی ہٹ دھرمی اور شدت پسندی کا نتیجہ تھی اور
اب اچانک سے مقبوضہ کشمیر میں انسانیت سوز واقعات کو جنم دینا اور پاکستان
پر مختلف انداز میں دباؤ ڈالنا بھی حالات کو جنگ کی طرف لے جا رہا ہے اور
پھر بعد میں بھارت معصوم نوزائیدہ بچے بن کے عالمی دنیا کے سامنے پیش ہو گا
کہ پاکستان نے ہمارے ساتھ زیادتی کی ہے ۔سندھ طاس معاہدے میں بھارتی مرضہ
کی شقیں ڈال کر اور مسئلہ کشمیر سمیت دیگر بھارتی دہشتگردیوں کو نظر انداز
کرکے اقوام متحدہ کا صرف و صرف پاکستان پر دباؤ ڈالنا اور دہشتگردی کی جنگ
میں جھونکنا جانبداری کی دلیل دیتا ہے ۔اقوام متحدہ ابھی بھی اپنی آنکھیں
کھول کر دیکھ لے اور ذہن نشین کر لے کہ اس وقت بھارت نہ صرف خطے میں بلکہ
دنیا بھر میں کیا اقدامات کر رہا ہے ۔ پاکستان ایک مسلمان ملک ہے اور دین
اسلام کی تعلیمات کے مطابق کبھی بھی معاہدوں سے ہٹ دھرمی نہیں کرتا اور کسی
کو دکھ پہنچائے بغیر در گزر کرنے والے سبق پر عمل پیرا ہو کر امن کا راستہ
ہموار کر رہا ہے لیکن اگر یہ ہرزہ سرائی اسی طرح جاری رہی تو یاد رہے کہ
پاکستانی افواج اور قوم کا جذبہ ایمانی ہے جسے دنیا کی کوئی طاقت کمزور
نہیں کر سکتی۔اقوام متحدہ کو چاہئے کہ ہندو بنیوں کو امن و سلامتی کا سبق
دیتے ہوئے درندوں سے انسان بنائیں ۔
|