جتنا فاصلہ بانہال سے سرینگر اور سرینگر سے
اوڑی تک کا ہے، تقریباًاتنا ہی فاصلہ مظفر آباد سے تاؤ بٹ تک کا ہے۔ مظفر
آباد سے تاؤ بٹ تقریباً200کلو میٹر دوری پر ہے۔ اس میں پہلے لیپا وادی
نکلتی ہے۔ یہاں بھی بھارتی فوج نے گولہ باری کی۔اس دوران بھارت کی طرف سے
آتش گیر مادہ بھی پھینکا گیا۔ جس سے ایک مسجد کو آگ لگ گئی۔ ٹیٹوال میں بھی
پاک بھارت افواج آمنے سامنے ہیں۔ یہاں گولہ باری نہیں ہوئی۔ آگے اٹھمقام
بگنہ میں بھی دونوں ملکوں کی فوج ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے ہوئے
ہے۔ یہاں بھی گولہ باری نہیں ہوئی۔ کیرن اور بور میں بھی یہی صورتحال ہے۔
تا ہم دودھنیال اور کیل سیکٹروں میں گولہ باری ہوئی۔ چھم سیکٹر بھمبر میں
ہے۔ یہاں بھی گولہ باری کا تبادلہ ہوا۔ یہاں پاک فوج کے دو اہلکار شہید ہو
گئے۔
یہاں کسی مقام سے بھارتی در اندازی یا سرجیکل آپریشن کی کوئی تصدیق نہیں ہو
سکی۔ بھارتی فوج کے چھاتہ بردار کمانڈوز یا گن شپ ہیلی کاپٹر یا کوئی بھی
مہم جوئی ہوتی تو سب کو پتہ چل جاتا۔ یہاں لوگ بھی تیار تھے۔ جگہ جگہ انٹی
ائر کرافٹ نصب ہیں۔انہیں دشمن کے کسی طیارے یا میزائل کا انتظار ہے۔ مگر
ایسا کچھ نہ ہوا۔ 200کلو میٹر پر پھیلی وادی نیلم کی اس پٹی سے یہاں
اطلاعات آ رہی ہیں کہ بھارتی فوج نے فوجی چوکیوں کو نشانہ بنایا۔ جس کا بھر
پور جواب دیا گیا۔
بھارت اگر دانستہ طور پر جنگ بندی لائن پر کشیدگی پیدا کرتا ہے تو وہ کشمیر
میں قتل عام سے دنیا کی توجہ ہٹا دے۔ اس سے پہلے کہا جاتا ہے کہ بھارت نے
ایک بار مریدکے میں جماعت الدعوۃ کے دفاتر کو سرجیکل سٹرائیکس میں تباہ
کرنے کی منصوبہ بندی کی تھی۔ اس کی تصدیق سابق وزیر خارجہ خورشید محمود
قصوری بھی کر رہے ہیں کہ امریکی سفارتکار دہلی سے اسلام آباد آئے اور انہوں
یہ جاننے کی کوشش کی کہ اگر بھارت نے ایسا کیا تو ردعمل کیا ہو گا۔ بھارتی
حکومت کو فیس سیونگ کے لئے کہتے ہیں کہ سیاسی حکومت آمادگی ظاہر کر رہی تھی
لیکن جنرل اشفاق پرویز کیانی نے بھارت کی مہم جوئی کا سخت جواب دینے کا
اعلان کر دیا۔ اس طرح یہ منصوبہ ادھورہ رہ گیا۔
بھارت اگر کوئی مہم جوئی کرتا ہے کہ تو پاکستان کی دفاعی انتطامیہ اسے
باقاعدہ جنگ سمجھے گی۔ کیوں کہ جنگ بندی لائن بھارت کرنا اقوام متحدہ کی
سلامتی کونسل کی قراردادوں کے منافی ہے۔ بھارت جنگ بندی لائن معاہدہ کی
خلاف ورزیاں کر رہا ے۔ اس وقت اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین بھی یہاں موجود
ہیں۔ وہ اس جنگ بندی لائن کی نگرانی کا منڈیٹ رکھتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے
سیکریٹری جنرل کو وہ رپورٹ کرنے کے پابند ہیں۔ ایک انٹرویو میں سابق چیف
فوجی مبصر جنرل جوزف بالی نے صاف کہہ دیا کہ بھارتی خلاف ورزیوں کی شکایات
موصول ہو رہی ہیں۔ لیکن بھارت کوئی شکایت نہیں کرتا۔ بھارت یک طرفہ طور پر
ان مبصرین کے کردار کو تسلیم نہیں کرتا۔ مگر سرینگر میں بھی یہ مبصرین
موجود ہیں۔
اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین کا صدر دفتر مقبوضہ کشمیر کے وزیراعلیٰ کی
سرکاری رہائش گاہ کے قریب گپکار میں واقع ہے۔ یہی نہیں یہ صدر دفتر سردیوں
میں چھ ماہ اسلام آباد اور گرمیوں میں چھ ماہ سرینگر میں کام کرتا ہے ۔
جیسے مقبوضہ ریاست میں دفاتر سردیوں کے چھ ماہ جموں اور گرمیوں کے چھ ماہ
سرینگر میں کام کرتے ہیں۔ آج یہ دفاتر جموں منتقل ہونے کی تیاریاں ہو رہی
ہیں۔ یہ شاہی سٹائل ہے۔ جسے’’ دربار مو‘‘کے نام سے جانا جاتا ہے۔ دربار مو
دفاتر آج کشمیر میں کرفیوں اور پابندیوں کی وجہ سے مسلسل بند ہیں۔
بھارت جنگ بندی لائن کو اگر پامال کرتا ہے تو اس کی شکایت اقوام متحدہ کی
سلامتی کونسل کے سامنے پیش کی جا سکتی ہے۔ اگر بھارت خود سرجیکل سٹرائک کا
دعویٰ کرتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ خود اپنا جرم تسلیم کر رہا ہے۔
اعتراف جرم پر بھی بھارت کے خلاف کیس سلامتی کونسل کے سامنے پیش ہو سکتا ہے۔
بھارت کی جنگ بندی لائن پر بلا اشتعال گولہ باری اور فائرنگ کا اعتراف
بھارتی ڈی جی ایم اوجنرل رنبیر سنگھ کر رہے ہیں۔ اس نام نہاد سرجیکل
سٹرائیک کا اعتراف کرنے اور اس کا چرچہ کرنے کے لئے بھارت کی وزارت خارجہ
اور وزارت دفاع نے مشترکہ پریس کانفرنس طلب کی۔ جس سے بھارتی فوج کے
ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز نے کہا کہ بدھ کی رات سرجیکل آپریشن کیا گیا
جو صبح تک جاری رہا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ دہشت گرد در اندازی کے لئے جمع تھے۔
جن کو ہلاک کیا گیا۔ آزاد کشمیر میں سرجیکل سٹرائکس کے احکامات نریند مودی
نے دیئے تھے۔ ایک ملک کا وزیرا عظم ایک متنازعہ علاقے میں سلامتی کونسل کی
قراردادوں کی پامالی کر رہا ہے۔ جو سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت حاصل کرنے
کا حق جتلا رہا ہے۔
اوڑی حملے کے بعد بھارت میں میڈیا نے جنگی جنون پیدا کر دیا ہے۔
سب سے بڑی ریاست اتر پردیش میں تین ماہ بعد جنوری 2017کو اسمبلی انتخابات
ہو رہے ہیں۔ بی جے پی نے پاکستان اور مسلم دشمنی میں عوام کو پھنسا کر
اقتدار حاصل کیا ہے۔ گجرات کے بعد کشمیر میں مودی کا کردار ایک قسائی جیسا
ہے۔ تا ہم وہ جنونی اور انتہا پسند ہندوؤں کا ہیرو ہے۔ انہیں گمراہ کر کے
ووٹ بٹورنے میں ماہر نریندر مودی ایک بار پھر سرجیکل سٹرائیکس کی آڑ میں
ووٹ بینک کے لئے سیاست کر رہے ہیں۔ آئیندہ تین ماہ تک بھارت کی جانب سے کسی
بات چیت یا امن یا جنگی ماحول کی کمی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ اگر یو پی
کے عوام کو کسی طرح بھارتی حکمرانوں کا اصلی چہرہ دکھایاجائے تو مودی کی
جنگی سیاست ناکام ہو سکتی ہے۔ کیوں کہ تعلیم یافتہ ووٹر زات پات اور فرقہ
بندی کے بجائے ترقی کی سوچ رکھتا ہے۔
بھارتی خوفزہ ہیں ۔ اس لئے وہ واہگہ سرحد میں پرچم اتارنے کی تقریب میں
شرکت کرنے سے ڈرتے ہیں۔ مگر پاکستانیوں کا جوش و خروش بڑھ رہاہے۔ جنگ بندی
لائن پر آبادی کے حوصلے بہٹ بلند ہیں۔ انہیں بھارتی کمانڈوز کا انتظار ہے۔
اس دن کا وہ برسوں سے انتظار کر رہے ہیں۔ مگر بھارت جھوٹ بول کر آزاد کشمیر
میں مہم جوئی کرنے سے گریز کر رہا ہے۔ بھارت پاک فوج کو نشانہ بنا رہا ہے۔
تا کہ اسے مشتعل کر کے جنگ کی طرف لے آئے۔ کشمیریوں کو پاکستان کے جوابی
حملوں کا انتظار ہے۔ اس کا جواز بھارت نے خود پیدا کیا ہے۔ تا ہم اس بارے
میں کوئی فیصلہ سفارتی اور دفاعی حکمت عملی کے بعد ہی ہو سکتا ہے۔
چھم سیکٹر بھارتی فوج کی 37آر آر کا ایک فوجی جو بھارت نے مہم جوئی کی کوشش
کرتے ہوئے گرفتار کر لیا ہے، اسے بچانے کے لئے بھارت نے پاکستان سے رابطہ
کیا ہے۔ تا ہم یہ جنگی قیدی ہے۔ کسی پاکستانی فوجی کے تبادلے میں ہی اسے
رہا کیا جاسکتا ہے۔ |