تحریر: عمار راجپوت
محرم الحرام کی آمد آمد ہے جس کے لیے صوبائی اور وفاقی حکومت نے سیکورٹی
پلان تشکیل دینا شروع کردیے ہیں تاہم سیکورٹی پلان اس بار کچھ غیر معمولی
ہونا ضروری دیکھائی دے رہا ہے۔ ماضی میں سیکورٹی کے انتظامات کے باوجود بھی
دس محرم الحرام کو ملک کے کسی نا کسی کونے میں قیامت صغری برپا کردی گئی۔
محرم ہم اور ہم سے پہلے آنے والی تمام امتوں کے لیے عزمت و تقدیس کا مہینہ
رہا ہے ۔ تاریخ کے صفحات میں نقش ایسے بہت سارے عظیم ہستیوں سے منسوب
واقعات ہیں جو اسی مہینہ میں وقوع پذیر ہوئے جیسا کے حضرت آدم علیہ السلام
کی توبہ قبول ہونا، کشتی نوح کا محفوظ کنارہ پا لینا، حضرت یوسف کو قید سے
رہائی ملنا، حضرت ایوب کو طویل بیماری کے بعد شفاء ملنا، حضرت یونس کا
مچھلی کے پیٹ سے زندہ واپس آنا، حضرت موسی کا فرعون و زریت فرعون سے نجات
پانا، حضرت عیسی کا زندہ آسمانوں کی طرف اٹھایا جانا اور اس کے بعد اسلامی
دور میں خلافت اسلامیہ کے دوسرے ستون، داماد بتول سیدنا فاروق اعظم رضی اﷲ
تعالی عنہ کا مسجد میں دوران نماز بارگاہ خداوندی میں جان کا نذرانہ پیش
کرنا اور نواسۂ رسول حضرت امام حسین رضی اﷲ عنہ کا نیزوں پر قران پڑھ کے
دین محمد کا علم بلند کرنا وغیرہ۔
غرض یہ سب واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ اسلام سے قبل اور اسلام کے بعد بھی
محرم الحرام کو باقی مہینوں کی نسبت ایک خاص مقام حاصل رہا ہے۔ مگر افسوس
کے ہماری دین سے دوری اور دنیاداری کے سبب ایسے چند فتنہ پرور عناصر وجود
میں آ چکے ہیں جو اس ماہ میں اپنی دکانیں چمکاتے ہیں اور مذہب کے نام پر
خوب مفادات حاصل کرتے ہیں۔
ایسے دوکانداروں کی دو اقسام ہیں۔ جن میں ایک تو وہ لوگ ہیں جو بہت زیادہ
مذہبی بنتے ہوئے اصحاب رسول ﷺو ازواج پیغمبر ﷺکے خلاف زبانیں درازیاں کر کے
اپنی عاقبت کو داؤ پر لگا دیتے ہیں اور دوسرے وہ عناصر ہیں جنہیں ایسے
افراد سے دشمنی صرف محرم میں یاد آتی ہے۔ خنجر برادر ماتمی جلوسوں کو روکنے
کے لیے چند لوگوں کا جھتا لے کر ان کے سامنے آن کھڑے ہوتے ہیں اور پھر
کیمرہ کی آنکھ سے ہم اپنے اپنے گھروں میں ٹی وی کے سامنے بیٹھے اس وقت کے
انتہائی خوفناک اور دلدوز مناظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں جب ان چند
موسمی نوجوانوں کو سینکڑوں افراد پر مشتمل ڈنڈوں اور چھوٹی نوعیت کے اسلحہ
سے لیس خنجر برادر جلوس والے کاٹتے، مارتے اور اپنے ایام مخصوصہ کی وجہ سے
جمع شدہ افرادی اکثریت کے بل بوتے پر مسجد و مدرسے کا تقدس پامال اور حسینی
کاز کو شرمندہ کرتے ہیں۔
ایسے حالات سے فوائد ناجانے کون کون حاصل کرتا ہے۔ سب یہ جانتے ہیں کہ
دونوں مخالفین نے اسی ملک میں ایک ہی جھنڈے تلے ایک ہی گلی محلے میں رہنا
ہے تو پھر یہ سب کر کے بیرونی قوتوں کو شرپھیلانے کا موقع فراہم کیوں کیا
جاتا ہے۔ دونوں طرف سے چند معتبر صاحب حکم لوگوں کو اس مسئلہ کے دیر پا حل
کے لیے ایک مذاکراتی میز پر آنا ہوگا اور کوئی ایسا بیچ کا راستہ نکالنا
ہوگا جس سے دونوں فریقین کے لوگ کسی بھی ناگہانی آفت سے محفوظ رہ سکیں
۔دونوں طرف سے اس مسئلے کے حل کے لیے سنجیدگی دکھاناموجودہ حالات کے لیے
ناگزیر ہے۔
اگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوتا تو یقینا پھر قیام امن اور معصوم جانوں کے
تحفظ کے لیے ارباب اقتدار و اختیار کو انتہائی قدم اٹھانا چاہیے۔ ہر دو
فریقوں کے مذہبی جلسے جلوسوں کو پوری قوت سے ان کی چار دیواری ( عبادت
گاہوں) تک محدود کروائیں اور یہ عمل بلاشبہ ہمارے پیارے وطن پاکستان میں
قیام امن کے لیے کی جانے والی کاوشوں کے لیے سنگ میل ثابت ہوگا۔ایسے تمام
افراد جو مذہب کے نام پر بہت خطرناک حد تک چلے جاتے ہیں انہیں بھی معاملات
فہم ہونا چاہیے۔ ایسی بیان بازی اور زبان درازی سے گریز کیا جائے جس سے
شعائر اسلام اور اصحاف رسول ﷺو ازواجہ ؓکی ذات اقدس میں گستاخی ہو۔
ہر ذی شعور اور ذمہ دار انسان کا خواب ہے کہ وہ اک پرامن معاشرے میں ہو۔
جہاں اس کے بچوں اور اس کی فیملی کسی بھی دنگے، فساد اور فرقہ واریت سے
محفوظ رہے۔ اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ کسی ایسی محفوظ کالونی کہ جس کے باہر
سیکورٹی گارڈ ہر لمحہ حفاظت کے لیے موجود ہومیں مکان خرید کر اپنے خوابوں
کی تعمیل پاسکتے ہیں تو یہ محض خام خیالی کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہوگا۔ اس
ناگزیر مسئلے کے حل کے لیے ہمیں خود اپنے آس پاس ایسے اسباب و حالات کا
بغور جائزہ لینا ہوگا ۔جو ہمارے معاشرے کا امن و سکون برباد کرنے کا سبب
بنتے ہیں اور ایسے لوگوں کا بائیکاٹ کرنا ہوگا جو اس سب کارروائی میں کسی
بھی طریقے سے استعمال ہوتے ہیں۔ ہمیں ٹھنڈے دماغ سے سوچ سمجھ کر ایسے گرم
فیصلے کرنا ہوں گے جس سے اس زہر قاتل کا خاتمہ عمل میں لایا جا سکے، جو ہر
سال کئی معصوم جانوں کے ضیاع کی صورت میں ہمیں بھگتا پڑتا ہے۔
یاد رکھیں ملک اس وقت کسی بھی دہشت گردی کا متحمل نہیں ہے۔ اس نازک حالات
میں جب بھارت ہمیں دنیا کے نقشے سے مٹانے کی دھمکیاں دے رہا ہے اور حالیہ
’’ایران و بھارت‘‘ گٹھ جوڑ جو کسی بھی صاحب نظر کی نظروں سے اوجھل نہیں ہے
میں ایک غیرت مند قوم کے ساتھ ساتھ پچاس کے لگ بھگ اسلامی ملکوں میں سے
واحد اسلامی ایٹمی ملک ہونے کی حیثیت سے ہماری ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے
کہ ہم مایوس قوموں کی طرح بعد میں کف افسوس ملنے کی بجائے قبل از وقت ایسے
عملی اقدام اٹھائے کے کسی بھی ایمرجنسی حالت میں ہم دنیا کے سامنے اپنی
ناقابل تسخیر دفاعی پوزیشن واضح کر سکیں۔
خدا کرے میری ارض پاک پر اترے
وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نا ہو |