چنڈیا

بھارت میں ایک نئی اصطلاح ’’چنڈیا‘‘کے نام سے زور پکڑ رہی ہے جس کا مطلب ہے کہ ’’ چین بھارت دو اچھے دوست ہیں۔‘‘ کیوں کہ چین ٗ پاکستان کے مقابلہ میں بھارت کے لئے بڑی مارکیٹ ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ ہر ایک ملک اپنے قومی مفادات کے تناظر میں دوسرے ملک کے ساتھ اپنے تعلقات استوار کرتا ہے، لہٰذا اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بھارت میں جنگجو یانہ ماحول بناکر اپنے عوام کو جو مشتعل کر رکھا ہے وہ اب انہیں مطمئن کرنے کے لئے پاکستان کے خلاف سرجیکل اسٹرائیک کرنے کا دعویٰ کر رہے ہیں ۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی طرف سے سندھ طاس معاہدہ ختم کرنے کی دھمکی کے معاملہ کو اگر بروقت عالمی فورم پر اٹھایا جاتا تو دنیا بھر سے بھارت کے خلاف بیانات آسکتے تھے ،تاہم پاکستان کی کمزور خارجہ پالیسی کی وجہ سے ایسا نہیں ہوسکا ۔چنانچہ پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی کے دوران دفتر خارجہ کی کمزوریاں نمایاں طور پر سامنے آئی ہیں ۔علاوہ ازیں سارک کانفرنس میں شرکت سے بھارت کا انکار کرنااگرچہ کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا ، لیکن بنگلہ دیش ، نیپال اور بھوٹان کی جانب سے انکار کیا جاناپاکستانی حکومت کے لئے ایک لمحہ فکریہ ہے ۔

پاکستان کو امریکہ کے بعد چین اور روس سے بھی کسی قسم کی نیک توقعات نہیں رکھنی چاہئیں ، کیوں کہ ایسی خوش گمانیوں کا نتیجہ ہم 1965 ء اور 1971 ء کی جنگ میں بخوبی دیکھ چکے ہیں ۔اورحدیث پاک میں آتا ہے ، نبی پاک صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ : ’’مؤمن کو ایک سوراخ سے دو مرتبہ نہیں ڈسا جاسکتا۔‘‘ یعنی جہاں سے اس نے ایک مرتبہ دھوکا کھایا ہو، دوبارہ وہ وہاں سے دھوکہ نہیں کھاتا ٗ لہٰذا اس تناظر میں اب پاکستان کو خوش گمانی میں رہ کر دوبارہ ان کافر ممالک سے نیک توقعات رکھنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے ۔

چنانچہ آج سے سیکڑوں سال پہلے ہی اﷲ تعالیٰ نے دو ٹوک الفاظ میں مسلمانوں کو اس خوش فہمی سے نکالتے ہوئے فرمادیا تھا کہ’’اے ایمان والو ! یہود اور نصاریٰ کو اپنا دوست مت بناؤ ، وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور جو کوئی تم میں سے ان سے دوستی کرے تو وہ انہیں میں ہے۔‘‘(القرآن )اور اگر اس کے ساتھ نبی پاک صلی اﷲ علیہ کی یہ حدیث مبارکہ بھی ملا لی جائے تو ساری بات ہی صاف ہوجاتی ہے ۔ حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم نے آج سے چودہ سو سال پہلے ہی یہ پیشن گوئی دے دی تھی کہ ’’تمام عالم کفر ایک ہی ملت ہے۔‘‘یعنی دنیا میں جتنے بھی کفارموجود ہیں چاہے ان کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہے درحقیقت وہ سب کے سب ایک ہی ملت ہیں ٗ کسی ایک کو بھی دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔لہٰذا اس تناظر میں پاک بھارت حالیہ کشیدگی میں پاکستان کو چین سے نیک توقعات نہیں رکھنی چاہئیں ، کیوں کہ چین اوربھارت دونوں کافر ممالک ہیں اور یہ دونوں آپس میں ایک ہی قوم اور ایک ہی ملت ہیں یہ آپس میں تو ایک دوسرے کے دوست ہوسکتے ہیں لیکن مسلمانوں کے یہ کبھی بھی دوست نہیں بن سکتے۔لہٰذا چین اپنے قومی مفاد کے برعکس پاکستان کے حق میں کبھی کوئی قدم نہیں اٹھاسکتا۔

چنانچہ 1965 ء کی جنگ میں پاکستان نے جب چین سے جنگی جہاز مانگے تو اس نے یہ بہانہ بناکر صاف انکار کردیا تھا اگر چین نے پاکستان کو اس موقع پر جنگی جہاز دے دیے تو چین تمام دنیا کی نظر میں آجائے گا اور ایسے میں ایک نئی جنگ عظیم کے چھڑ جانے کا قوی خدشہ ہے۔‘‘حالاں کہ اصغر خان خود چین گئے تھے ۔ لہٰذا چین کے پاکستان کے ساتھ مفادات ’’سی پیک‘‘ تک ہی محدود ہیں جس کے ذریعے چین مشرقِ وسطیٰ اور یورپ کی منڈیوں تک اپنے لئے رسائی حاصل کرنا چاہتا ہے ۔

قارئین کرام! آپ چین کی منافقت کا اندازہ اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ پاکستان کی اس نازک صورت حال میں جب کہ پاک بھارت جنگ چھڑنے کا قوی امکان ہمہ وقت موجود ہے اس نے پاکستان سے اس کو 2013ء میں زرِمبادلہ کے ذخائر مستحکم کرنے کے لئے دیے گئے 2.31 ارب ڈالر اچانک واپس مانگ لئے ہیں ۔جس کے مطابق 31 کروڑ ڈالر آئندہ دو روز کے دوران ، جب کہ 2 ارب ڈالر 15 روز میں واپس کرنا ہوں گے ۔ ایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق یکم جولائی سے اب سٹیٹ بینک کے پاس موجود زرمبادلہ کے ذخائر میں 41 کروڑ ڈالر سے زائد کی کمی واقع ہوچکی ہے ، جب کہ 2 ہفتے کی قلیل مدت میں 2 ارب 31 کروڑ ڈالر کے اخراج سے زرِمبادلہ کے ذخائر کو بہت بڑا دھچکا پہنچ سکتا ہے ، جس کے نتیجے میں ملکی کرنسی کے شدید دباؤ میں آنے کا قوی امکان ہے۔

اس وقت پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی کے نتیجہ میں پاکستانی دفتر خارجہ کی کمزوریاں نمایاں طور پر سامنے آئی ہیں لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ اب وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کے دورِ اقتدار کے تین سال مکمل ہونے کو ہیں لیکن ابھی تک انہوں نے وزیر خارجہ تعینات نہیں کیا ، جس کی وجہ سے وزارت خارجہ ایڈ ہاک ازم پر چل رہی ہے ۔

دوسری جانب امریکہ اور بھارت کے درمیان بڑھتی ہوئی دوستی کو ہم نے اس خوش گمانی میں نظر انداز کردیا ہے کہ اب ہمارے تعلقات روس کے ساتھ بہتری کی جانب گامزن ہیں ، لیکن اب روس کی جانب سے بھی یہ بیان آگیا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے واقعات پر قابو پانے کے لئے اپنے ملک میں دہشت کردی کی جڑوں کو ختم کرے ۔

اس وقت مقبوضہ جموں وکشمیر میں اتنی بڑی آزادی کی تحریک چل رہی ہے، لیکن افسوس کہ ہم اسے عالمی سطح پر اس طرح سے اجاگر نہیں کرسکے جیساکہ اسے اجاگر کرنے کا حق تھا ۔ بلاشبہ ہمیں اپنی خارجہ پالیسی کو بہتر بنانے میں بہت زیادہ محنت کرنا ہوگی اور اس کے لئے ایک واضح اور صاف سمت کا تعین کرنا ہوگا۔
Mufti Muhammad Waqas Rafi
About the Author: Mufti Muhammad Waqas Rafi Read More Articles by Mufti Muhammad Waqas Rafi: 188 Articles with 278929 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.