ایم کیو ایم کی اندرونی لڑائی

متحدہ قومی موومنٹ تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزرر ہی ہے اور اب ایم کیو ایم پاکستان اور ایم کیو ایم لندن کے نام سے متحدہ قومی موومنٹ کے دو الگ الگ گروپ وجود میں آ چکے ہیں۔ ایم کیو ایم لند ن نے ڈاکٹر فاروق ستار کی بنیادی رکنیت خارج کرنے کااعلان کر دیاہے جبکہ اسی قسم کا ایک اعلان ایم کیو ایم پاکستان نے کیا تھا کہ جب ایم کی ایم لندن کے ندیم نصرت اور دیگر کی پارٹی کی بنیادی رکنیت ختم کر دی گئی تھی۔ یوں لگتا ہے کہ اب دونوں گروپوں میں اختیارات کی لڑائی کھل کر ہو رہی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں شدت آنے کا بھی امکان بڑھ رہا ہے۔ ایم کیوایم لندن نے ایک مرتبہ پھر سندھ کے شہری علاقوں سے قومی و صوبائی اسمبلی کے منتخب نمائندوں ، بلدیاتی انتخابات میں کامیاب ہونے والے نمائندوں اور سینیٹرز کو ہدایات دیں ہیں کہ وہ فوری طور پر مستعفی ہو جائیں بصورت دیگر ایم کیو ایم لندن نے عوام اور اپنی پارٹی کے کارکنوں سے کہا کہ وہ ایسے منتخب نمائندوں کا سماجی بائیکاٹ کریں جواپنی سیٹوں اور عہدوں سے مستعفی نہیں ہوتے۔ ادھر ایم کیو ایم پاکستان نے موقف اختیار کیا ہے کہ منتخب ہونے والے نمائندوں کا مینڈیٹ عوامی ہے او ر ان کے پاس عوام کی امانت ہے۔ کسی کی خواہش پر عوام کے مینڈیٹ کو قربان نہیں کیا جا سکتا۔ متحدہ قومی موومنٹ کے دونوں گروپوں میں اختیارات کی جنگ جاری ہے جبکہ اس جنگ سے یہ بھی بڑی حد تک یہ بھی واضح ہو چلا ہے کہ اب ایم کیو ایم لندن سے ایم کیو ایم پاکستان کا کوئی تعلق نہیں تاہم اب بھی کچھ حلقے دونوں گروپوں کے درمیان جاری جنگ کو شک کی نظر سے دیکھ رہے اور اسے نورا کشتی قرار دے رہے ہیں۔دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن سمیت پاکستان کی تمام بڑی سیاسی جماعتیں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کو مضبوط رکر رہی ہیں اور ڈاکٹر فاروق ستار کی مکمل حمایت کی بات کی جا رہی ہے ۔ ادھر پاکستان کی اسٹبلشمنٹ بھی ڈاکٹر فاروق ستار کی حامی نظر آ رہی ہے اور انھیں سیاسی طور پر مضبوط کرنے میں پس پردہ اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔ اس صورت حال میں سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ایم کیو ایم کے پاکستان میں موجود کارکن کس گروپ کے ساتھ ہیں۔ ایم کیوایم سمیت تمام ہی سیاسی جماعتوں کی اصل طاقت اس کے کارکن ہوتے ہیں لیکن یہ معاملہ ایم کیو ایم کے حوالے سے اور بھی زیادہ اہم ہو جاتا ہے کیونکہ ایم کیو ایم کے زیادہ تر کارکن ڈائی ہارٹ کارکن سمجھے جاتے ہیں جو موجودہ حالات سے قبل اپنے قائد کی ایک آواز پر اپنی جانیں بھی قربان کرنے کے لئے تیار ہو جاتے تھے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ایم کیو ایم کے زیادہ تر کارکن زیر زمین جاچکے ہیں یا ملک چھوڑ چکے ہیں جبکہ دوسری کیٹگری کے کارکن ، جن میں زیادہ تر مرنے مٹنے والے نہیں، وہ بھی پارٹی سے کنارہ کش نظر آ رہے ہیں۔ایسی صورت حال میں کہ جب ایم کیو ایم کے دونوں گروپوں میں اختیارات کی جنگ جارہی ہے ، ایم کیو ایم پاکستان کی طاقت اور عوام میں مقبولیت کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔ ایم کیو ایم لندن اب بھی الطاف حسین کو اپنا پارٹی کا بانی اور قائد تسلیم کر تی ہے اور ایم کیو ایم کے کارکن براہ راست الطاف حسین سے رابطے میں ہیں۔اگرچہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں اور اسٹبلشمنٹ ایم کیو ایم پاکستان کی حمایت کر رہیں ہیں لیکن اس کے باوجود جب تک ایم کیو ایم پاکستان عوام میں مقبول ہونے کا کوئی ثبوت پیش نہیں کرتی اس وقت تک ایم کیو ایم پاکستان کی پوزیشن طوفان میں ڈولتی ہوئی کشتی سے زیادہ نہیں سمجھی جا سکتی۔ اگر 2018کے الیکشن تک صورت حا ل یہی رہتی ہے اور ایم کیو ایم کے دونوں نئے ڈھڑے اپنی اپنی پوزیشن پر قائم رہتے ہیں تو پھر یہ فیصلہ 2018کے الیکشن ہی کریں گے کہ ایم کیو ایم پاکستان کاپاکستان میں کیا مستقبل ہے؟
Riaz Aajiz
About the Author: Riaz Aajiz Read More Articles by Riaz Aajiz: 95 Articles with 61388 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.