کہتے ہیں ٹرین چھوٹ جانے کے بعد اس
کے پیچھے بھاگنے سے انسان اپنے بازو اور گھٹنے زخمی تو کر لیتا ہے لیکن اس
ٹرین میں سوار نہیں ہو سکتا ۔مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ہندوپاک کے ماضی کا
طائرانہ جائزہ لیا جائے تو ایک بات دونوں میں مشترک پائی جاتی ہے وہ یہ کہ
دونوں جانب سے مسئلہ کشمیر کو حصول اقتدار اور طوالت اقتدار کے لئے ایک’’
عوامی سپرے ‘‘ کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے لیکن تھوڑا گہرائی سے
سمجھنے کی کوشش کریں تو 47سے 2016تک نیو دہلی سرزمین کشمیر پر ایک تسلسل کے
ساتھ بہتر کھیلتا نظر آرہاہے اس سارے منظرنامے میں مسئلہ کشمیر کو پہلی
باراقوام متحدہ میں لیجانے کی غلطی کے علاوہ بھارتی اس ’’پچ‘‘ پر بہتر
کھیلے ہیں مسئلہ کشمیر کا اقوام متحدہ میں جانا پاکستان کے علاوہ خود
ریاستی عوام کے بہترین حق میں تھا اور بھارت کو بھی بہت جلد اپنی اس غلطی
کا احساس ہوا تب اس نے کمال مہارت سے اوراسلام آباد کی غلط پالیسیوں کے
باعث اس بین الاقوامی مسئلہ کو ایک معمولی سا سرحدی معاملہ بنا ڈالا جو
ریاست جموں کشمیر پر بھارتی قبضے کی طوالت کا باعث بنا جس پر اسلام آباد نے
تاشقند و شملہ میں تصدیق کی مہر ثبت کر دی ۔آج ریاست میں ہونے والے جوروستم
پر پوری دنیا محوحیرت ہے لیکن تاشقند و شملہ معائدات نے دنیا کو’’ شیٹ اپ‘‘
کال دے رکھی ہے جسمیں واضع طور پر کہا گیا کہ اس مسئلہ کو ہم ’’باہمی
مذاکرات‘‘ سے حل کر لیں گے اس لئے ’’کسی کو مداخلت کی ضرورت نہیں ‘‘ہے ۔یہی
وجہ ہے کہ دونوں دیسوں کی کشمیر پالیسی میں چند ایک کے علاوہ واضع فرق ہے ۔نیودہلی
نے حصول ریاست پر تسلسل سے کا م کیا جب کہ دوسری جانب ہزار سالہ جنگوں کی
بھڑکیں اور محض اچھل کود سے کام چلایاجاتا رہا ۔
انسان آج ترقی کی معراج پر ہے دنیا ایک چھوٹے سے گاوں کی مانند ہے جہاں ایک
معمولی واقع کی خبرلمحہ بھر میں دنیا بھرمیں پھیل جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ
منقسم ریاست کے باسی جو عملا ایک بڑی اوپن جیل میں قیدیوں کی مانند زندگی
گزارنے پر مجبور ہیں اس کے باوجود جدیددنیا نے ان کی آواز کو دوردور تک
پہنچانے میں آسانی پیدا کر دی ہے اور بار ہا ریہ جیل باسی وقتا فوقتا اپنی
لازوال قربانیوں سے ظالم قوتوں کو دباو میں لانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں
مگرشومئی قسمت کہ کچھ بھی کر لیں ہم اپنے ’’مقدمہ کشمیر‘‘ کو ابھی تک عالمی
سطح پر 13اگست 48والے مقام پر لانے سے قاصر رہے ہیں ایسا کرنا جوئے شیرلانے
کے مترادف ضرور ہے مگر قومی آزادی کی پہلی ضرورت بھی ہے۔ کیوں کے مسئلہ
کشمیر کی بین الااقوامی سطح پر ہونے والی یہ درگت اسلام آبادی حکمرانوں کی
عاقبت نااندیشانہ پالیسیوں کی بدولت بنائی گئی جس کی ابتداء 13 اگست 1948کو
پاس کیجانے والی عالمی قرارداد کے ساتھ چھیڑچھاڑ سے ہوئی تھی ۔جس کا خمیازہ
آج پورہ جنوبی ایشا ء بھگت رہا ہے ۔آج دنیا کے دوسو سے زائد آزاد ممالک میں
سے پاکستان واحد ایسا ملک ہے جوعالمی سطح پرمسئلہ کشمیر کے حل کا مطالبہ
کرتا ہے اور اقوام متحدہ کی پاس کردہ قراردادوں کی بات بھی کرتا ہے جو
ریاستی عوام کے لئے بیشک نیک شگون ہے لیکن اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے
ہونے والی تقریروں میں سال میں ایک مرتبہ مسئلہ کشمیر کے حل کی بات کر لینا
ناکافی ہے اور اقوام متحدہ کی ان قرادادوں کا زکر کرنا اچھی بات ہے لیکن
شملہ معائدہ کے بعد وہ ٹرین چھوٹ چکی ہے اس لئے اب اس کے پیچھے بھاگنے کے
بجائے کسی دوسری ٹرین کا اہتمام کرنا ہوگا کہ جو ہمیں اس مقام پر پہنچا دے
جہاں سے ہم گرائے گئے تھے یعنی اقوام متحدہ عراق و افغانستان کی طرز پر
مسئلہ کشمیر کو اپنے ایجنڈے میں شامل کرلے، جو کم از کم آج کے بین الاقوامی
سیاسی منظرنامے میں مشکل نظر آتا ہے لیکن نا ممکن نہیں ہے ۔اس لئے اسلام
آباد کے تمام پالیسی ساز اداروں اور تھینک ٹینک کاکڑا امتحان ہے اور ایک
موقع بھی ۔۔۔کہ ماضی کی ان غلط پالیسیوں کا ازالہ کریں اور اپنی زمہ داریاں
نبھاتے ہوئے ایسا حل تلاش کریں ایسی کشمیر پالیسی تشکیل دیں کہ یہ مسئلہ
13اگست والے حقیقی مقام پر پہنچ سکے تاکہ صدیوں سے محکوم ومظلوم دوکروڑ
انسانوں کو ان کے جس پیدائشی حق آزادی وخودارادیت سے محروم کیا گیا وہ مل
سکے۔ جسے 13اگست کو بھارت پاکستان سمیت پوری دنیا نے تسلیم کیا تھا لیکن
ماضی کی غلط پالیسیوں و غلط فیصلوں کے باعث مسئلہ کشمیر عالمی توجہ سے
محروم ہوا اور اقوام عالم ہماری چیخ و پکار سے بیگانہ ہو گیا کیوں کہ پاک
بھارت تاشقند و شملہ معائدات نے دنیا سے یہ اختیار چھین لیا تھا ۔
دوسری بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ آج جب بھارت نے آزادتجارتی پالیسی اپنائی اور
ملکی سرحدوں کو بین الاقوامی تجارت کے لئے کھول دیا توعالمی طاقتوں نے ڈیڑھ
ارب لوگوں کی ایک بڑی مارکیٹ کو دیکھا تو کشمیر جیسے مسائل کو نظر انداز کر
گئے اور اپنے قومی مفادات کو ترجیح دی اوربھارت سب کی آنکھ کا تارہ بن گیا
اور کل تک جو ریاست جموں کشمیر میں بھارت کی جانب سے انسانی حقوق کی پامالی
پر دوہائی دیتے نہ تھکتے تھے بھارت کو امن پسند اور کشمیریوں کو دہشت گرد
کہنے لگے اور ریاست میں ہونے والی انڈین دہشت گردی و انسانی حقوق کی بدترین
پامالیوں سے دنیا نے عملاً منہ موڑ لیا یوں ہر آنیوالا نیا دن مسئلہ کشمیر
کو پیچیدہ بناتا گیا اور جنوبی ایشا ء بدستور تباہی کی جانب گامزن ہے جس کی
بنیاد مسئلہ کشمیر ہی ہے جو تین نیوکلیائی طاقتوں کے درمیاں ہے اس سارے
منظرنامے کودیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ صدی کے اس خطرناک ترین مسئلہ
کے حل کی تمام تر ڈوریں اسلام آباد کے ہاتھ میں ہیں وہ یہ کہ وہ مسئلہ
کشمیر کو ایک محکوم ملک کی ’’قومی آزادی،خودمختاری‘‘ کے طور پر دنیا کے
سامنے پیش کرے جس پر دنیا بھرکی حمائت کا ملنا بھی آسان ہے اور اس طرح
’’مسئلہ کشمیر ‘‘ حل ہونے سے سب سے زیادہ فائدہ پاکستان کو ہوگا جب کہ
ریاست جموں کشمیرسمیت باقی تمام ممالک کا نمبر بعد میں آتا ہے اور یوں کہنا
غلط نہ ہوگا کہ سارے جنوبی ایشاء کے عوام کی خوشحالی اس مسئلہ کشمیر سے جڑی
ہے ۔ |