بھارتی جنگی جنون کی وجوہات
(Syed Muhammad Ishtiaq, Karachi)
ماضی بعید میں جنگیں نظریاتی اور جغرافیائی
سرحدوں کے دفاع یا پھیلاؤ کے لیے لڑی جاتی تھیں لیکن انگریزوں نے جنگ کو
ایک نئی جہت کاروبار کی شکل میں دی ، اس طرح اس نے دنیا کو فتح بھی کیا،
مقبوضہ ممالک کے وسائل پر قبضہ کرنے کے ساتھ ، مسلمانوں اور دیگر قوموں کے
علمی کارناموں سے بھرپور تصنیف شدہ کتب کے ذخائر پر قبضہ کیا ۔اپنی تہزیب
اور زبان کی ترویج کے ساتھ مقبوضہ ممالک کی ثقافت کو بھی زک پہنچائی ۔انگریزوں
نے دنیا پر اپنے اقتدار کو قائم اور مستحکم رکھنے کے لیے، مقبوضہ ممالک کے
مقامی باشندوں میں مذہب،قومیت،زبان اور ثقافت کے لحاظ سے تفریق پیدا کی اور
نفرت کے بیج بوئے تاکہ مقامی لوگ باہم دست و گریباں رہیں ا ور ہم بآسانی ان
مما لک کے وسائل لوٹتے رہیں۔ انگریز وں کا تسلط برصغیر میں طویل عرصہ رہا۔
انگریزوں سے قبل مسلمان، قریبا ہزار سال برصغیر پر حکمرانی کرتے رہے گو کہ
ہندو اور مسلمان دو الگ مذہب سے تعلق رکھتے ہیں لیکن مسلم حکمرانوں نے کبھی
ہندوؤں پر مذہبی قدغن نہیں لگائی بلکہ نچلی ذات کے ہندوؤں نے صوفیاء کرام
کی تعلیمات سے متاثر ہو کر ازخود اسلام قبول کیا۔مسلمانوں نے بھی برصغیر کی
ثقافت کو دل و جان سے اپنایا ، یوں دو الگ مذہب ہونے کے باوجود ، ہندو اور
مسلمان ثقافتی یگانگت کی وجہ سے ہزار سال تک امن و آشتی کے ساتھ رہتے رہے۔
1857 کی جنگ آزادی کے بعد انگریزوں کو یہ اندازہ لگانے میں دیر نہیں لگی کہ
ہندوؤں اور مسلمانوں میں نسلی و مذہبی منافرت پیدا کیے بغیر، مملکت پر
اقتدار قائم رکھنا مشکل امر ہے ، کیونکہ جنگ آزادی کا آغاز، میرٹھ شہر سے
مسلمان اور ہندو سپاہیوں نے مل کر کیا تھا ، اس لیے جنگ آزادی کو پسپا کرنے
کے بعد ، انگریزوں نے سب سے پہلے مسلمانوں اور ہندوؤں میں پائی جانے والی
الفت ، جو ثقافتی یگانگت کی مرہون منت تھی ، ختم کرنے پر پورا زور لگادیا،
جب انگریز اس کوشش میں کامیاب ہوگیا تو اس نے بآسانی اپنی زبان اور طریقہ
تعلیم برصغیر میں نافذ کردیا ، یوں ہندو اور مسلمان جو انگریزوں کی آمد سے
ایک ملک کے باشندے تھے ، مذہب کی بنیاد پر تقسیم ہوتے ہی دو قوموں میں بٹ
گئے ۔ہندوؤں نے تو انگریزی تعلیم اور ثقافت کو اپنانے میں دیر نہیں لگائی ،
اسی وجہ سے وہ انگریزوں کے مقرّب ٹھیرے اور انگریزوں نے امور مملکت میں ان
کو حصّہ دار بنا لیا۔مسلمان ابتداء میں تو انگریزی تعلیم سے خائف دکھائی
دیے لیکن سر سیّد احمد خان نے تمام تر مخالفتوں کے باوجود ،اینگلو
اوریئنٹل(محمڈن) اسکول و کالج قائم کرکے مسلمانوں کو انگریز اور ہندوؤں سے
مقابلہ کرنے کے لیے انگریزی تعلیم کی طرف راغب کیا۔سرسیّد احمد خان نے ،
ہندوؤں اور مسلمانوں کے دو قوموں میں بٹ جانے کا سب سے پہلے ادراک کیا اور
ان کے بعد سے لے کر قیام پاکستان تک ، علّامہ اقبال اور قائداعظم جیسے جلیل
القدر رہنماؤں نے دو قومی نظریے کی بنیاد پر ہی مسلمانوں کی علیحدہ مملکت
کے قیام کی تحریک چلائی۔ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد جب انگریزوں کی
حکومت کا سورج غروب ہونے لگاتومقبوضہ ممالک کو بتدریج اس طرح آزاد کرتا گیا
کہ آزادی حاصل کرنے والے مما لک میں بسنے والی قومیں ، مذہب، ثقافت اور
جغرافیائی طور پر ایک دوسرے برسر پیکار رہیں۔ انگریزتقسیم برصغیر بھی
متنازعہ انداز میں کرکے گیا، جس میں کشمیر کا مسئلہ ، قیام پاکستان سے لے
کر اب تک تمام کشمیریوں اور پاکستان میں بسنے والے مسلمانوں کے لیے جان کا
عذاب بنا ہوا ہے ۔ انگریزوں کی مقبوضہ علاقوں کو متنازعہ طور پر تقسیم و
آزادکرنے کی پالیسی کو ، امریکی آشیر باد حاصل تھی ۔اس پالیسی کا مقصد یہ
تھا کہ آزاد ہونے والے ممالک آپس میں برسرپیکاررہیں اور لڑنے کے لیے تو
ظاہر ہے ، اسلحہ درکار ہوگا وہ ہم بآسانی ان کو بیچ کر اپنی اقتصادی حالت
کو بہتر بنائیں گے ۔اسی پالیسی پر اب تک کامیابی سے عمل جاری ہے ۔ امریکا
اوربرطانیہ کی اس پالیسی کا خمیازہ پوری دنیا ابھی تک بھگت رہی ہے۔ فلسطین
،عراق ،شام اور افغانستان میں بھی جنگی محاذ اسی پالیسی کی تحت کھولے گئے
ہیں لیکن کشمیر کا مسئلہ بہت سنگین ہے ، کیونکہ پاکستان اور بھارت دونوں
ممالک ایٹمی طاقت ہیں، اگر ان دونوں ممالک میں جنگ چھڑ جاتی ہے تو ایٹمی
جنگ کی صورت میں پوری دنیا اس کی لپیٹ میں آسکتی ہے۔بھارت کی جانب سے
پاکستان کو دی جانے والی، حالیہ جنگی دھمکی کی بظاہر دو بڑی وجوہات نظر آتی
ہیں۔پہلی وجہ تو 1990 سے جاری کشمیر یوں کی تحریک آزادی کا نقطۂ عروج پر
پہنچنا ہے ۔جنگ کی دھمکی کے ذریعے، وہ اقوام عالم کی توجہ کشمیر کے مسئلے
سے ہٹانا چاہتا ہے ۔دوسری وجہ خالص کاروباری نوعیت کی ہے ۔بھارت سی پیک
منصوبے سے نا خوش ہے ، کیونکہ اس منصوبے سے پاکستان اور عوام کی خوشحالی کا
راز پنہا ہے ، اس لیے یہ منصوبہ بھارت کی آنکھ میں روز اوّل سے کھٹک رہا ہے۔
بھارت کی کوشش ہے کہ پاکستان کو جنگی تیاری میں لگا کر سی پیک منصوبے کو زک
پہنچائی جائے اور اس دوران کشمیر کے حالات پر قابو پالے لیکن یہ بھارت کی
خام خیالی ہے کہ اس طرح وہ پاکستان یا اس کے عوام کی توجہ مسئلہ کشمیر یا
سی پیک منصوبے سے ہٹانے میں کامیاب ہوجائے گا۔پاکستان کی حکومت،تمام سیاسی
جماعتیں ،مسلّح افواج اور عوام مسئلہ کشمیر اور سی پیک منصوبے پر ایک
مشترکہ ٹھوس موقف رکھتے ہیں اور کسی بھی بھارتی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے
لیے متحد ہیں۔لہٰذا بھارت کو چاہئے کہ مسئلہ کشمیر کو فوری طور پر ، کشمیری
عوام کی امنگوں کے مطابق حل کرے اور جنگ سے باز رہے۔ |
|