کون دوست کون دشمن؟
(Muhammad Saghir Qamar, )
کچھ برس پہلے جب ’’ سب سے پہلے پاکستان ‘‘
کا نعرہ ایجاد ہوا تھا تو سید علی گیلانی نے بڑے درد سے پوچھا تھا ’’ پھر
ہم کہاں ہیں ؟‘‘ قوموں کی تاریخ میں پسپائی کا پہلا فیصلہ ہی مسلسل
پسپائیوں کا پیش خیمہ ہوتا ہے اور اس قوم کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ ہم نے
افغانستان کے خلاف نام نہاد اتحادیوں کا ساتھ دیا اور ’’ سب سے پہلے
پاکستان ‘‘ کا نعرہ تخلیق کیا۔ بتایا گیا تھا کہ اس کے نتیجے میں ہم اپنی
ایٹمی صلاحیت کی حفاظت اورکشمیرکی آزادی یقینی بنائیں گے۔ وقت کے ساتھ ساتھ
امریکہ بہادر کی روایتی بے وفائی اور دھونس کے آثار بڑھتے چلے گئے ۔ بالآخر
اس کے اندر کی نفرت ‘ حقارت اور دشمنی کا سارا مواد ابل پڑا ۔کشمیر جو
پاکستان کی بقا کی علامت ہے ‘ اس میں جاری جدوجہد کو نقصان پہنچانے کا عمل
تیز ہو گیا۔ گزشتہ سات دھائیوں کا موقف زمین بوس ہوا ۔ایک کے بعد ایک‘
دسیوں آپشن پیش کر کے ہم نے ساری رات کی محنت سے صبح دم الجھا کر رکھ دی۔
مسئلہ کشمیر پر ہماری پسپائی لمحہ بہ لمحہ واضح ہوتی چلی گئی ۔کشمیر کے
بارے میں اپنے موقف پر ’’قائم ‘‘رہنے کی بات اب سنگین مذاق معلوم ہونے لگی
۔اہل کشمیر پوچھتے رہے لیکن اگر آپ جہاد کو ’’ دہشت گردی ‘‘ قرار دے دیا
گیا ‘حریت پسندوں کے ہاتھ اور پیر باندھ دیے گئے ۔امریکہ کو ہر ممکن تعاون
کی یقین دہانی کرائی گئی تھی ‘ اس کے بعد کشمیر سے ہماری وابستگی کیا حقیقت
رکھتی ؟
مسئلہ کشمیر کو زندہ کرنے اور اسے ساری دنیا کی توجہ کا مرکز بنانے میں
ہماری حکومتوں یا حکمرانوں کا کوئی کردار نہیں رہا ‘اس کارنامے کا سہرا ان
سراپا ایثار اور جرات و شجاعت کے حامل لوگوں کے سر بندھتا ہے جو دہشت گرد
قرار دے کر تاریک راہوں میں مارے گئے ۔مسئلہ کشمیر جب بھی حل ہو گا ان ہی
عظیم سپوتوں کی عظیم قربانیوں کے طفیل ہوگا ‘ جن میں سے ہزاروں کی سر بریدہ
لاشیں جنگلوں میں نامعلوم مقامات پر دفن ہیں یا بغیر کفن دفن کے پڑی رہیں ۔کشمیر
ان معصوم کشمیری بچیوں کے صدقے آزاد ہوگا ‘جن کی عصمتیں ملت بیضا پر نثار
ہو گئیں ۔ہمارے بیس کیمپ کے حکمرانوں کا حال دگر رہاہے کہ انہوں نے کشمیر
کے لیے چند لمحے کی نیند بھی قربان نہیں کی ۔یہ وہ لوگ ہیں جو قبیلوں کے
نام پر سیاست کرتے اور ریاستی وسائل کو شیر مادر سمجھ کر ہڑپ کرتے ہیں۔یہ
کشمیری قوم کی بے مثال قربانیوں کا نتیجہ ہے کہ بھارت بار بار پاکستان اور
کشمیری رہنماؤں سے مذاکرات پر آمادہ ہوتارہا ۔مذاکرات کے لیے آمادگی کبھی
بھی ہمارے دفتر خارجہ کے افسروں کی مرہون منت نہیں رہی،بلکہ ان فدا کاروں
کی قربانیوں کا اعجاز ہے ‘ جنہوں نے بھارتی فوج کے جرنیلوں کو شکست تسلیم
کرنے پر مجبور کیا ۔یہ بھی جاں نثار ان کشمیر تھے جنہوں نے بھارتی فوج میں
بے اطمینانی ‘ نفسیاتی دباؤ اور خود کشی کے رحجان کو پروان چڑھایا ۔اس کا
دباؤ بھارتی حکمرانوں کے دلوں پر ڈالا اور ان میں یہ احساس پیدا کیا کہ محض
قوت کے بل پر کشمیر کو غلام نہیں رکھا جا سکتا ۔اس تناظر میں ہمیں اس بات
کا کوئی حق نہیں پہنچتا کہ جس مسئلے کو ہماری ذات سے کوئی فائدہ نہیں پہنچ
سکا ‘ اسے ایسا ناقابل تلافی نقصان پہنچابیٹھیں جس کی سزا صدیوں تک بے گناہ
نسلوں کو ملتی رہے۔ اگر ہم کشمیر کو مسلح جدوجہد آزادی سے کاٹ کر بھارت کے
شاطر حکمرانوں کی مرضی کے سپرد کر دیتے ہیں ‘ تو آزادی کا یہ سفر صدیوں پر
محیط ہو سکتا ہے ۔لمحوں کی خطا صدیوں کی سزا بن کر آئے گی ۔
پاکستان کی جوہری صلاحیت بھی کشمیر ہی کی طرح پاکستان کا قومی اثاثہ ہے ۔
قوم ایٹم بم کی امین ہے تو یہی بم قوم کی بقا اور کشمیر کی آزادی کا امین
ہے ۔حالات نے ثابت کیا ہے کہ ایٹمی صلاحیت کے شعبے میں دشمن سے برابری
زبردست سد جارحیت ثابت ہوئی۔ دنیا کا ضمیر کبھی بیدار نہ ہوتا اگر پاکستان
کی طرف سے نیو کلیئر استعداد ظاہر نہ ہوتی ۔یہ ایٹم بم ہی ہے جس نے بھارت
کی آٹھ گنا بڑی فوج اور سامان جنگ کو نکیل ڈال کر رکھ دی۔ آج بھارت اپنی دس
لاکھ فوج پاکستان کی سرحدوں پر تو چڑھا سکتا ہے ‘ لیکن اس پر حملے کی جرات
نہیں کر سکتا۔ جوہری برابری کے اس تناظر میں انصاف کا راستہ تو یہ تھا کہ
عالمی طاقتیں بھارت پر دباؤ ڈال کر مسئلہ کشمیر حل کراتیں‘ تا کہ نیو کلیئر
جنگ کا خطرہ ٹلتا ۔مسئلہ کشمیرکشمیری عوام کی مرضی کے مطابق حل کیا جاتا
‘جو اقوام متحدہ کی قرار دادوں اور چارٹر کا تقاضا ہے ‘ لیکن عالمی استعمار
کو انصاف سے کیا کام ؟ انہیں مسلم وسائل پر قبضے کا نشہ ہے ۔ کسی مسلم ملک
کی جمہوریت ناگوار ہے تو کہیں مسلم فوجی آمریت پسندیدہ ۔سوڈان کا فوجی برا
لگتا ہے تو ترکی اور مصر کی جمہوریت بری ‘ عرب ملکوں کی شہنشایت اچھی لگتی
ہے تو الجزائر کی جمہوریت ناپسند۔لینے کی باٹ اور دینے کے باٹ اور ہیں ۔
امریکہ ایک تیر سے دو شکار کرنے کی فکر میں ہے ۔ایک طرف وہ مسئلہ کشمیر کو
اپنے ایجنڈے کے مطابق اور بھارت کے لیے قابل قبول حل تلاش کر رہا ہے اور
دوسری طرف پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے درپے آزار ہے ۔ اس مقصد کے لیے
پاکستان پر دباؤ بڑھاتے ہوئے نوبت پاکستانی علاقوں میں مداخلت کی نوبت آ
چکی ہے ۔اس کی ضد کبھی ختم نہیں ہوگی ۔ وہ ہمارے ایٹمی اثاثوں کو گھور رہا
ہے ‘ بھارت سے جوہری معاہدے کر کے جموں و کشمیر کے مسئلے کو بھی بھارت کی
مرضی سے حل کرنا چاہتا ہے۔ مسلسل پسپائی ہمارے وجود کے لیے خطرہ ہے۔ ہماری
آزادی بے معنی ہو چکی ہے۔اس عظیم خطرے کے سر پر پہنچ جانے کے بعد بحیثیت
قوم بیدار ہو ناناگزیر ہے ۔ یہ سنبھلنے کا آخری موقع ہے۔افغانستان اور
ہمسائیہ ممالک سے برادرانہ تعلقات ہم گنوا چکے ہیں ‘ لیکن کشمیر اور ایٹمی
قوت ابھی باقی ہیں ۔ کشمیر جو ہمارے لیے شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے اور ایٹم
بم جو ہماری بقا اور آزادی کا مضبوط ترین مادی سہارا ہے ‘ان دونوں سے
محرومی پاکستان کی خدانخواستہ آزادی سے محرومی کے مترادف ہے ۔اس مرحلے پر
کشمیر اور جوہری طاقت کی حفاظت آزادی کی حفاظت کی طرح ہی اہم اور مقدس ہے ۔یہ
عظیم کام اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب قوم متحد ہو جائے‘سیسہ پلائی ہوئی
دیوار بن جائے ۔قوم تب متحد ہو تی ہے جب حکمران اپنی قوم کے جذبات کے
ترجمان ہوں۔
مملکت خداداد اپنی تاریخ کے سنگین ترین دور میں ہے اور ہم سب پسندیدہ
فیصلوں پر مصر ہیں ۔ قوم کی سوچوں کا دھارا واضح طور پر کسی اور سمت گامزن
ہے اور صاحبان اقتدار کی سوچیں کسی اور جانب…… تیل دیکھو ، تیل کی دھار
دیکھو۔ طویل تجربوں ، لاتعداد دھوکوں ، بے شمار فراڈوں ، ان گنت زخموں کے
بعد بھی ہمیں ہوش نہیں آیا ۔ ساری رات سوت سلجھانے صبح دم الجھا بیٹھنے سے
اب گریز کرنا ہے ۔سات دہائیوں کے بعد اب تو ہمیں اپنے دوستوں اور دشمنوں کی
پہچان ہو جانی چاہیے ۔ بھارت کتنا بڑا ملک سہی، اس کی نام نہاد جمہوریت
کتنی ہی عظیم ہو اس کے پیچھے بے شک امریکا جیسی سپر طاقت ہی کیوں نہ ہو ۔
وہ ہمیں ڈرا نہیں سکتا، وہ ہم پر جنگ مسلط کر کے اپنا اتنا بڑا نقصان کبھی
نہیں کرے گا ۔ ایسا نقصان جو بھارت یا بھارتی ہمنواؤں کے گمان میں بھی نہیں
ہوگا۔
|
|