شیخ سعدی ؒ کی حکایت ہے کہ بادشاہ اپنے
غلام کے ساتھ ایک دن دریا کی سیر کو نکلا جونہی کشتی نے دریا میں چلنا شروع
کیا تو غلام نے چیخ و پکار شروع کردی جس سے بادشاہ کی سیر کا سارا مزا
کرکرا ہوگیا ۔ وہ پریشان تھا کہ اپنے غلام کو کیسے خاموش کراؤں ۔اسی کشتی
میں سوار ایک دانا شخص نے بادشاہ سے کہا حضور اگر آپ چاہیں تو میں آپ کے
غلام کو خاموش کروا سکتا ہوں ۔ بادشاہ نے کہا اگر واقعی ایسا ہوجائے تو یہ
آپ کی بڑی مہربانی ہوگی ۔اس دانا شخص نے غلام کو اٹھا کر دریا میں پھینک
دیا۔ غلام کو جب غوطے آنے لگے تو وہ ہاتھ پاؤں مارنے لگا ۔ دانا شخص نے اسے
پکڑ کر کشتی میں سوار کرلیا ۔ جونہی غلام کشتی میں پہنچا تو وہ ایک نکرمیں
نہایت خاموشی سے بیٹھ گیا۔شیخ سعدی ؒ اس حکایت کا یہ مطلب اخذ کرتے ہیں کہ
غلام نے دریا میں غوطے کھائے تو اسے کشتی میں حفاظت کااحساس ہوا۔ کچھ ایسی
ہی صورت حال کا سامنا عمران خان کو بھی ہے ۔ کبھی وہ دھرنادے کر اسلام آباد
میں کاروبار زندگی اور انتظامیہ کو مہینوں بند رکھتے ہیں تو کبھی اپنے
غنڈوں کے ذریعے پارلیمنٹ سمیت سرکاری املاک کو نقصان پہنچا کر خود کو فرشتہ
قرار دیتے ہیں ۔ جب پولیس عدالتی حکم پرسرکاری املاک کو نقصان پہچانے کے
جرم میں گرفتار کرنے آتی ہے تو پولیس کی مٹھی گرم کرکے گرفتار ی سے بچ جاتے
ہیں ۔پولیس عدالت میں یہ رپورٹ دیتی ہے کہ ہم تو عمران کو گرفتار کرنے کے
لیے گئے تھے لیکن وہ گھر پرموجود نہیں تھے۔ شاید ہی کوئی دن ایسا جاتا ہوگا
جب عمران صاحب پریس کانفرنس کرکے حکومت اور ریاست کو چیلنج کرتے ہوئے
دکھائی نہ دے رہے ہوں۔ پہلے وہ پارلیمنٹ کو بھی نہیں مانتے تھے پھر اپنا ہی
تھوکا ہوا چاٹ کر اسمبلی میں آپہنچے اور غیر حاضری کی تنخواہ بھی وصول کرلی
۔ یہ وہی عمران ہیں جنہوں نے عوام کو بجلی کے بل ادا نہ کرنے ٗ بیرون ملک
پاکستانیوں کو زرمبادلہ پاکستان نہ بھیجنے کی تلقین کی بھی تھی ۔پھر نے
2013ء کے الیکشن میں دھاندلی کے خلاف عدالتی کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا جب
عدالتی کمیشن نے 2013ء کے الیکشن کو منصفانہ قرار دے دیا تو کمیشن کے فیصلے
کو ماننے سے انکار کردیا ۔ حسن اتفاق سے انہی دنوں پانامہ لیکس کا سیکنڈل
منظر عام پر آگیا ۔یہ دیکھے بغیر کہ اس میں کس کس کے نام شامل ہیں عمران
خان نے نواز شریف کو مستعفی ہونے کا حکم جاری کردیا۔ نواز شریف ڈیڑھ ماہ تک
ہارٹ آپریشن کے لیے ملک سے باہر رہے لیکن عمران کی باہر نکلی ہوئی زبان ایک
لمحے کے لیے بھی واپس اپنی جگہ نہیں گئی ۔وہ کبھی لاہور کو بند کرنے کا
اعلان کرتے ہیں تو کبھی فیصل آباد کو ۔ اﷲ ہی جانتاہے کہ انکی زندگی میں نہ
قرار ہے اور نہ ہی سکون ۔ وہ اپنی زبان سے نکلے ہوئے ہر لفظ کو قانون کا
درجہ دیتے ہیں ۔وزیر اعظم جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں خطاب کرنے کے
لیے گئے تو عمران صاحب نے اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ جاتی عمرہ رائے ونڈجانے کا
اعلان کردیا ۔عمران کی عقل میں یہ بات نہیں آئی کہ اگر وہ پاکستان کے سب سے
مقبول ترین لیڈر کے گھرپر دھاوا بولیں گے تو ڈیڑھ کروڑ لوگ اپنے لیڈر کے
گھرکو جلتا ہوا دیکھ کر سکون سے بیٹھ جائیں گے ۔ انہی ایام میں بھارت نے
اڑی حملے کی آڑ میں اپنی فوجیں سرحد پر لگا دیں اور ایٹمی جنگ کا ماحول بن
گیا ۔ دانشوروں کا خیال تھا کہ قوم کو انتشار سے بچانے اور حالات کی نزاکت
کااحساس کرتے ہوئے عمران رائے ونڈکا پروگرام منسوخ کردیں گے لیکن وہ ضدی
شخص اپنی انا سے ایک انچ بھی پیچھے نہ ہٹا ۔سیاسی ماہرین کے مطابق جنرل
راحیل شریف نے امریکہ میں نواز شریف کو فون کرکے کنٹرول لائن پر بڑھتی ہوئی
کشیدگی پر اعتماد میں لیااور اسی کال میں نواز شریف کو کہا کہ وہ اپنے
قائدین اور کارکنوں کو عمران کے ساتھ تصادم سے روکیں ۔ چنانچہ جنرل راحیل
شریف کے پس پردہ حکم پر منظر ہی بدل گیا ۔جلسہ ہوا اور اسی جلسے میں محرم
کے بعد اسلام آباد بند کرنے کا حکم ایک بار پھر عمران نے جاری کردیا ۔ ایک
عام شخص بھی یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ جب پانامہ لیکس کا مقدمہ سپریم کورٹ
اور لاہور ہائی کورٹ میں بھی زیر سماعت ہے تو پھر عمران کو کیا تکلیف ہے کہ
وہ ملک کوانتشار ٗافراتفری اور مار دھاڑ کا شکار کرنا چاہتے ہیں ۔ کیا اب
راحیل شریف عمران کو روکنے کا حکم جاری نہیں کرسکتے ۔آرمی چیف کو اس بات کا
یقینا احساس ہوگا کہ جب وفاقی دارالحکومت پر عمران کا حملہ ہوگا تو اس کی
بازگشت بھارت سمیت پوری دنیا میں سنی جائے گی ۔ عمران پاکستان سے کتنا
وفادار ہے اس کااظہار گزشتہ دنوں کنٹرول لائن پر جاری کشیدگی پر منعقدہ آل
پارٹیز کانفرنس میں عدم شرکت سے لگ چکا ہے ۔ پھر جب پارلیمنٹ کا مشترکہ
اجلاس بلایاگیا تو اسی شام عمران خان نے اس مشترکہ اجلاس میں شرکت نہ کرکے
یہ ثابت کردیاکہ وہ قومی ایشو پر پاکستان کی بجائے بھارت کے ساتھ کھڑے ہیں
۔ یہ بات ہر شخص کی زبان پر ہے کہ آخر عمران خان چاہتے کیا ہیں ۔کبھی وہ
پارلیمنٹ ٗ سپیکر اور وزیر اعظم کے منکر بنتے ہیں تو کبھی وہ ریاستی اداروں
کو نواز شریف کا زر خرید غلام کا نام دے کر ان کی توہین کرتے ہیں ۔وزیر
اعظم نواز شریف نے تو حد سے زیادہ نرمی کامظاہرہ کرکے عمران کو بے لگام
چھوڑ رکھاہے لیکن آرمی چیف جوقومی سلامتی اور ملکی بقا کے ضامن ہیں انہوں
نے نہ جانے کیوں عمران کو ملک میں انتشار پھیلانے کی کھلی چھٹی دے رکھی ہے
۔ اگر وہ مسلم لیگی کارکنوں کو عمران کے مقابلے میں آنے سے پس پردہ رہ کر
روک سکتے ہیں تو ایک پیغام عمران کونہیں بھجوا سکتے کہ تم اپنی بک بک بند
کروکیوں ملک میں انتشار پیدا کررہے ہو۔اگر عمران کا منہ پھر بھی بند نہیں
ہوتا تو شیخ سعد ی کی حکایت کے مطابق غلام کی طرح انہیں بھی دریا میں پھینک
کر چند غوطے دلانے بہت ضروری ہیں تاکہ انہیں وطن کی عزت ٗ آبرواور قومی
یکجہتی کا احساس ہو۔اس وقت دو ہی لوگ پاکستان میں انتشار کے حامی ہیں ایک
بھارتی وزیر اعظم مودی اور دوسرا یہ چرب زبان عمران خان ۔ کاش ہماری قوم
عمران کے اصل روپ کو پہچان لے اور اس کے بہکاوے میں آنے کی بجائے ریاستی
اداروں کے فیصلوں کا انتظار اور احترام کرے ۔
|