عمران خان نے سیاست میں نئی طرح ڈالی
ہے۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ نوجوان جو سیاست سے بیزار تھے
انہیں سیاست میں لائے ہیں۔ ایک نیا سیاسی کلچر متعارف کرایا ہے۔ شیخ رشید
جو اپنی بدکلامی اور فحش گوئی میں یکتا تھے ۔ آج وہ عمران خان کی پچھلی سیٹ
پر بیٹھتے ہیں۔نوجوانوں نے جو ـ ؛؛ سیاستـ؛؛ عمران خان سے سیکھی ہے۔شیخ
رشید اپنی پوری سیاسی زندگی میں ایک جوان بھی اپنا پیش رو نہیں بنا سکے ہیں
بلکہ خود انہوں نے عمران خان کو استاد مان لیا ہے۔ عمران خان کے ٹائیگر ز ،سونامی
اور جنون نے اپنے ہی جلسوں میں وہ گل کھلائے ہیں جس سے سیاست کا انداز تو
بدلہ ، نام بھی بدل گیا ہے ۔ اب لوگ جلسے سننے نہیں، دیکھنے جاتے ہیں ۔آج
سے 50 سال قبل بھی سیاست کی نئی طرح ڈالی گئی تھی ۔ جب قائد عوام ذوالفقار
علی بھٹو نوجوانوں کو سیاست میں لائے تھے۔
سیاست میں نوجوان نسل کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔انقلاب ہو یا
انقلابی تحاریک ،کسی قوم کی آزادی کی جدوجہد ہو یا ملکی ترقی اور قومی
بحالی کی تحاریک ہوں ۔ نوجوانوں کا اس میں کرادر ہراول دستے کا ہوتا ہے ۔پچھلے
چند سالوں سے پاکستان کی سیاست میں نوجوان نسل کی بازگشت سنائی دے رہی ہے ۔
اول اول طاہرالقادری نے انقلاب کے نام پر نوجوانوں کو میدان عمل میں اتارا
اور بعدازاں کرکٹ سے فراغت کے بعد یہ شغل عمران خان نے شروع کیا ہے ۔
تبدیلی کے نعرے پر نوجوان نسل عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں ۔ نوجوانوں کا
سیاست کی طرف راغب ہونا مثبت عمل ہے۔ لیکن سیاسی جماعتوں اور سیاسی لیڈروں
کا محض نوجوانوں کو جھنڈے لہرانے ، جلسوں کی رونقیں بڑھانے کیلئے استعمال
کرنا نوجوان نسل کا سیاسی ، تعلیمی اور سماجی استحصال ہے اور نوجوانوں کے
ساتھ غداری ہے۔ اس امر کے مظاہر خفیہ ہاتھوں میں کھیلنے والی جماعتوں میں
نظر آتے ہیں ۔جنہوں نے نوجوانوں کو محض اپنا ایندھن بنایا اور کئی نوجوان
جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ۔جن کی قربانی پر بھی سیاسی مفاد حاصل کرنے
کی مذموم کوشش کی جاتی رہی ہے ۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں عمران خان کی
تحریک انصاف او ر طاہر القادری کی جماعت پاکستان عوامی تحریک کے ساتھ باقی
جماعتوں کی نسبت نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہے۔ بالخصوص تحریک انصاف نوجوان
نسل میں زیادہ مقبول ہے۔ ضیاء مارشل لا اور پرویز مشرف آمریت کے بعد یہ
پہلا موقع تھا کہ نوجوان نسل نے سیاست کی جانب رخ کیا ،عمران خان نے تحریک
انصاف کو نوجوانوں کی جماعت قرار دیکر سبز باغ دکھائے ۔ طاہر القادری نے
بھی انقلاب کا نام لیکر نوجوانوں کے جذبات مجروح کیے ہیں۔ سیاست اور انقلاب
کے نام پر بالعموم عوام اور بالخصوص نوجوانوں میں سیاسی اخلاقیات کو فروغ
دینے اور سیاسی نظام اور سیاسی فلاسفی سکھانے کی بجائے نوجوانوں کو عدم
برداشت ، جذباتیت متشدد بنادیا گیا ہے۔ سیاسی تعلیم و تربیت اور سیاسی رویے
پیدا کرنے کی بجائے نوجوانوں کو جذباتیت سے ایسے بھر دیا گیا ہے کہ ان میں
برداشت ۔تحمل اور اخلاقیات جاتی رہی ہیں ۔ مجالس میں دم سادھے بیٹھے رہنا
یا جلسے و جلوس میں گملہ تک نہ گرانا ،سیاسی قابلیت نہیں ہے ۔ سیاسی کارکن
مظاہروں اور احتجاج میں گملے گراتے بھی ہیں اور توڑتے بھی ہیں ۔ مگر تنظیمی
پروگرام اور جلسوں میں خواتین سے بدسلوکی نہیں کرتے ہیں ۔ جلسوں کی رونق
بڑھانے کے چکر میں نوجوانوں کو سیاسی بے راہ روی کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے
افسوس ناک امر ہے ۔ عمران خان خود اپنی تقریروں میں سیاسی محالفین کی تضحیک
کرتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن ، نواز شریف اور دیگر سیاسی حریفوں کے خلاف
تحریک انصاف کے جلسوں میں توہین آمیز نعرے بازی کی جاتی ہے۔ سیاست میں
دشنام ترازی کا رجحان عمران خان لیکر آئے ہیں۔ سیاست کے نام پر عمران خان
اور طاہر القادری جو کچھ کر رہے ہیں یہ سیاسی بے راہ روی ہے۔ جس نے ملکی
سیاست میں نوجوانوں کے کردار کو دھندلا دیا ہے ۔ نوجوان جس امید اور جذبے
کے ساتھ میدان سیاست میں اترے تھے۔ جنہیں وہ راہبر و راہنما کر بیٹھے تھے۔
انہوں نے مال مفت ، دل بے رحم کے مصداق نوجوانوں کے جذبات کو اپنے سیاسی
مفادات کی بھینٹ چڑایا اور ان کی امیدوں سے ہولی کھیلی ہے۔ ہونا تو یہ
چاہیے تھا کہ نوجوانوں کو کردار سونپا جاتا اور ایک ذمہ دار سیاسی قیادت کے
طور پر ابھارا جاتا تاکہ پاکستان کو ایک صالح اور نوجوان قیادت ملتی ۔ جو
تبدیلی یا انقلاب کا خواب شرمندہ تعبیر کرتی ۔ مگر افسوس صد افسوس کہ
نوجوانوں کو ورغلا کر ان کے ساتھ کھلواڑ کیا گیا ۔ لینڈمافیا ، کرپٹ اور
رسہ گیروں کو قیادت کا نام دیکر چرب زبانی کا سہارہ لیکر ، گالم گلوچ سے
نوجوانوں کو باغی بنانے کی ناشائستہ سیاسی حرکت سے انتخابی نتائج حاصل کرنے
پر زور دیا گیا۔ اب یہ ذمہ داری نوجوان نسل کی ہے کہ وہ خود احتسابی کا
رویہ اپنائیں ۔ خود کو ضائع نہ کریں۔ خود دیکھیں کہ موجودہ سیاسی ماحول میں
ان کا کردار کیا بنتا ہے۔ وہ کہاں کھڑے ہو سکتے ہیں۔جہاں انہیں درست
رہنمائی میسر آ سکتی ہے اور وہ اپنا مستقبل واضع دیکھ سکتے ہیں۔ درست راستے
کا انتخاب کریں ۔جذباتی وابستگیوں سے بالا تر ہو کر تقلید کی بجائے عقل ،درست
خیالی اور تحقیق کا راستہ اختیار کریں ۔ سیاسی نظام ، سیاسی نظریات کا
مطالعہ کریں ۔جب نوجوانوں کے پاس آگاہی ، فہم ۔ادراک کی دولت ہوگی تو کوئی
نوجوانوں کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال نہیں کر سکے گا ۔ نوجوان حقیقی
قیادت بن کر ابھریں گے۔ نوجوانوں سے یہی کہنا ہے کہ وہ آنکھیں کھلی رکھیں ،دیکھیں
، پرکھیں ، جانچیں ،اپنے فہم و ادارک کو کام میں لیکر چلیں ۔ عشق نہیں عقل
سے کام لیں ۔ آپ کا تعلق کسی بھی سیاسی ،مذہبی پارٹی یا گروپ سے ہے ۔ اندھی
تقلید مت کریں ۔ خود کو ضائع ہونے سے بچائیں ۔ خود کو ضائع مت کریں ۔
پاکستان تم ہو اور تم سے پاکستان ہے- |