بیسویں صدی اس قدر ہنگامہ خیز تھی کہ شاید
اس سے پہلے کی انسانی تاریخ میں اتنے پے در پے واقعات کئی صدیوں میں ہوئے
ہوں گے جو صرف بیسویں صدی میں واقع ہوگئے۔گزشتہ صدی پر اگرطائرانہ نظر
دوڑائی جائے تو پہلی عالمی جنگ ، سقوط خلافت عثمانیہ، دوسری عالمی جنگ،
ہمارے خطے یعنی جنوبی ایشیاءکے لئے بہت خاص تقسیم ہندوستان اورپینتالیس سال
پر محیط سردجنگ یہ سب واقعات ایک ہی صدی میں رونما ہوئے۔ان سب واقعات نے
عالمی سیاست اور حالات پر گہرے اثرات مرتب کئے۔چنانچہ دنیا دوسری عالمی جنگ
کے بعددنیا دو قطبی(Bipoler ) شکل اختیار کر گئی۔ ایک سپر پاور امریکہ، جس
کے ساتھ یورپ اور دنیا کے دیگر قابل ذکر ممالک کی تعداد موجود تھی جبکہ
دوسری طرف سوویت یونین جو ایک برتر سپر پاور تھا ، دنیا کے تمام ممالک
بالواسطہ یا بلا واسطہ ان دونوں میں سے کسی ایک کے ساتھ وابستہ تھے۔
افغان جہاد کے نتیجے میں سوویت یونین کا خاتمہ ہواتو1990ءکے بعد دنیایک
قطبی (Unipoler)ہو گئی ۔ امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور کے طور پر ابھر کر
سامنے آیا۔ یہ سلسلہ چلتا رہا اور اکیسویں صدی کا آغاز ہو گیا۔ اکیسویں صدی
کے آغاز میں ہی امریکہ میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر ہونے والے حملوں نے تاریخ کے
دھارے کو ایک بار پھر موڑ دیاہے۔
امریکہ دنیا کی اکلوتی سپر پاورکی حیثیت سے دنیا بھر میں اپنے مفادات کے
لیے سرگرم ہوگیا اور ان مقاصد کے لیے جنگ چھیڑنے اور معصوموں کا خون بہانے
سے بھی گریز نہ کیا۔البتہ آج صورتحال مختلف ہے۔اکیسویں صدی کا پہلا عشرہ تو
امریکی بالا دستی میں گزرا لیکن دوسرا عشرہ امریکی زوال اور دنیا بھر میں
ابھرتے نئے بلاکس کی خبر دے رہا ہے۔
عالمی منظر نامے پراگر نظر دوڑائی جائے تو اس وقت بہت سے نئے بلاک بنائے
جارہے ہیں۔ ماضی میں دشمن ریاستیں باہم متحد اور دوست ریاستیں دشمنی پر اتر
آئیں ہیں۔یہ اس وجہ سے ہے کہ آج دوستی اور دشمنی نام کی قدریں مفقود
ہیں۔بلکہ جدید ریاست کو صرف اپنے مفادات سے غرض ہے۔ چنانچہ مفادات کی تکمیل
کے لیے گدھے کو باپ بنانے میں بھی حرج نہیں۔ آج ہم دیکھ سکتے ہیں کہ
پاکستان جو روس کے ساتھ کبھی بھی اچھے تعلقات کا حامل نہیں رہا،بلکہ شروع
دن سے پاکستان امریکی بلاک میں تھا جبکہ بھارت ،روس سے قربت رکھتا تھا،
لیکن آج صورتحال مختلف ہے۔
اس وقت روس کی قربتیں پاکستان کے ساتھ بڑھ رہی ہیں،جبکہ امریکہ اور بھارت
کی دوستیاں بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔اس عالمی منظر نامے میں تبدیلی
کی وجوہات بہت سی ہیں جن میں سے چند کا ذکر آپ کے سامنے ذیل میں کیا جا رہا
ہے۔
2011 ءمیں سلالہ چیک پوسٹ پر ہونے والے حملے ،اگر قارئین کو یاد ہوں تو، اس
کے بعد پاکستان کے دفتر خارجہ کی طرف سے بیان دیا گیا تھا کہ افغانستان سے
امریکی انخلاءکے بعد ہم اپنی عالمی ترجیحات کا از سرنو متعین کریں گے۔الغرض
اس وقت امریکی رویے نے پاکستان کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا تھا کہ صرف
امریکہ پر انحصار درست نہیں بلکہ دنیا میں اپنی قدر بحال کرنے کے لیے نئے
تعلقات قائم کرنے ہوں گے۔سلالہ چیک پوسٹ ایک اہم واقعہ ثابت ہوا کہ جس کی
بنیاد پر ہم نے علی الاعلان امریکہ سے دوری اختیار کرنے کی بات کی،وگرنہ
روس کے ساتھ قربتیں تو 2006ءسے ہی بڑھنا شروع ہو گئیں تھی۔روس کے علاوہ بھی
امریکہ پر انحصار ختم کرنے کے لئے ہمیں جن ممالک کا سہارا لینا تھا ان میں
چین سر فہرست تھا۔
چین اس وقت دنیاکی تیز ترین ابھرتی ہوئی معیشت ہے ۔ اس کے بڑھتے ہوئے قدموں
کو روکنے کے لئے امریکا سرگرم ہے۔ چنانچہ اس مقصد ہی کے لیے امریکہ اور
بھارت کے درمیان قربتیں بڑھ رہی ہیں کہ بھارت کو چین کے مقابلے میں کھڑا
کیا جائے۔ جبکہ پاکستان اور چین کے اتحاد کو روس نے مفید سمجھتے ہوئے ا س
میں شمولیت اختیار کی ہے ۔ روس کے نزدیک اقتصادی راہداری اور اس اتحاد میں
شمولیت سے نہ صرف امریکہ کی بالا دستی کو ختم کرنا ممکن ہے بلکہ روس
اپناانتقام بھی لے سکتا ہے۔اسی باعث کل تک سوویت یونین کے انہدام کے ذمہ
دار پاکستان کے ساتھ روس آج جنگی مشقیں کر رہا ہے۔ جس ملک کےخلاف بلواسطہ
جنگ لڑی گئی آج اسی کے ساتھ اتحادکی باتیں منظر عام پر ہیں اور وہ دن دور
نہیں کہ جب روسی صدر ولادی میر پیوٹن بھی پاکستان کا دورہ کریں گے۔ مزید یہ
شنید بھی مل رہی ہے کہ پاک بھارت حالیہ کشیدگی میں جنگ کی صورت میں روس
اپنے ازلی دوست بھارت کو چھوڑکر پاکستان کا ساتھ دے گا۔
پاکستان کی جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے اس کا کردار نہایت اہم ہے۔ چین کی
معیشت کے لئے پاکستان کا استحکام ناگزیر ہے۔یہی وجہ ہے کہ چین بھر پور
خطرات کے باوجود اقتصادی راہداری کی تعمیر پر نہ صرف آمادہ ہوا ہے،بلکہ اب
اس کی تعمیربھی تیزی سے جاری ہے۔
یوں عالمی منظر نامے کو بغور دیکھا جائے تو امریکہ اور بھارت کے ساتھ
اتحادی برطانیہ بھی شامل ہے۔ یہ ایک بلاک بنتا دکھائی دیتا ہے۔جبکہ دوسری
طرف پاکستان، چین اورروس یہ دوسرا بلاک ہے،جو اپنی حدود واضح کررہا ہے۔اس
بلاک کی خاصیت یہ ہے کہ معیشت اور دنیا کی اہم ترین گزرگاہیں ان کے قبضے
میں ہیں ۔ دنیا کی آبادی کا ایک بڑاحصہ بھی انہی علاقوں میں رہائش پذیر ہے۔
چنانچہ اس بات میں کوئی تامل نہیں ہے کہ اکیسویں صدی ایشیا کی ہے اور
ایشیاءمیں اس بلاک کی ہے کہ جو پاکستان ،چین اور روس پر مشتمل ہے۔ اس بلاک
میں ترکی بھی ایک اہم رکن کی حیثیت سے شمولیت اختیارکر رہا ہے۔ ترکی کے
پاکستان اور روس کے ساتھ پہلے سے ہی اچھے تعلقات ہیں اور امریکہ کے ساتھ
حالیہ ناکام بغاوت کے بعد کشیدگی کی صورتحال ہے ۔ چنانچہ ایسے حالات میں
ترکی کا پاکستان اور روس کے ساتھ اس بلاک میں شمولیت اختیار کرنا یقینی امر
ہے۔
جنوبی ایشیاءمیں ایران اس وقت گومگو میں ہے۔ ایران کا ماضی اور دیگر عوامل
اسے بھارت اور روس کے ساتھ متحد رہنے پر زور دیتے ہیں ۔ ماضی میں جب تک
بھارت اور روس ایک بلاک میں تھے ۔ ایران انہی کے ساتھ تھا،لیکن اس وقت
ایران کو ان دو میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہے۔ چنانچہ ایران کے صدر حسن
روحانی کی جانب سے اقتصادی راہداری میں شمولیت کی خواہش کرنا یہ ظاہرکرتا
ہے کہ ایران بھی اس بلاک میں شامل ہونا چاہتا ہے۔لیکن اس معاملے میں ابھی
کوئی حتمی بات قبل از وقت ہو گی۔البتہ یمن اور شام میں ایران کا موقف اس کی
پوزیشن متعین کرنے میں اہم کردار کا حامل ہے۔
دوسری طرف یورپی ممالک کی اگر بات کی جائے تو تازہ ترین اطلاعات کے مطابق
برطانیہ کے یورپی یونین سے نکلنے کے بعد دیگر ممالک ایک نیا اتحاد بنانے پر
زور دے رہے ہیں کہ جس کے تحت تمام یورپی ممالک کی مشترکہ دفاعی فوج بنائی
جائے گی۔
الغرض عالمی منظر نامہ تیزی سے تبدیل ہورہا ہے، لیکن ان بنتے بگڑتے اتحادوں
میں سب سے اہم عالمی اسلامی اتحاد ہے جس کی قیادت سعودی عرب کر رہا ہے۔34
مسلمان ممالک پر مشتمل یہ اتحاد یقینا امت مسلمہ کے لئے ایک خیر کا پیغام
ہے۔پاکستان کے سیکرٹری خارجہ کی طرف سے رواں سال انڈونیشیا میں ہونے والی
کانفرنس میں مشترکہ اسلامی دفاع اور کرنسی کا عندیہ بھی دیا گیا جونہایت
خوش آئند امر ہے۔چنانچہ ان حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان اپنی
اسلامی اساس اور مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے نئی عالمی صف بندیوں میںاپنا
کردار متعین کرے اور امت مسلمہ کی عزت اور سرخروئی کے لیے بھر پور کردار
ادا کرے۔ |