پاک چائنہ اقتصادی راہداری کی اہمیت سے کونسا پاکستانی
واقف نہیں ہوگا،یہ وہ منصوبہ ہے،جسے خطے میں گیم چینجر منصوبے کا نام دیا
گیا ہے،اس منصوبے کی کامیاب تکمیل کے بعد پاکستان میں ایک نئے دور کا آغاز
ہونے والا ہے۔
پاک چائنہ اکنامک کاریڈوردونوں ممالک کے مفاد میں غیر معمولی اہمیت اور
ترقی کا باعث بن سکتا ہے،دونوں ممالک کی قیادت اس منصوبے کی تکمیل کے لئے
نہایت پر جوش اور پرعزم ہیں،جس سے بظاہر یہی نظر آرہا ہے کہ دونوں ممالک
میں توجہ کا مرکز اور اہم ترین ذمہ داری اس معاہدے کی تکمیل کو سمجھا جا
رہا ہے،یہ معاہدہ جتنا پاکستان کے حق میں بہتر ہے اس سے زیادہ چین کے فائدے
میں بھی ہے،خطیر سرمایہ سے مکمل ہونے والے اس منصوبے پر کام شروع کردیا گیا
ہے۔
پاکستان کی ترقی میں اہم کردار کے حامل اس منصوبے کا آغاز ہی پاکستان کے
اعلانیہ دشمنوں اور دوست نما دشمنوں کی آنکھ میں کھٹکنے لگا تھا،جس میں سب
سے زیادہ اضطراب ہمارے روایتی حریف بھارت کو ہے جبکہ اوپر اوپر سے پاکستان
کے ساتھ دوستی کا دم بھرنے والا دوست نما دشمن ایران بھی اس منصوبے کے
حاسدین میں نمایا ں ہے،بھارت نے اس منصوبے کی ناکامی کے لئے ہر طرح کی
کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں،اس معاہدے کے بعد پاکستان میں بھارت نے پراکسی
وار پہلے سے زیادی تیز کر دی ہے، جس میں ایران نے بھارت کا بھر پور ساتھ
دیا جس کی سب سے بڑی مثال بھارتی ایجنٹ کلبھوشن یادیو کی بلوچستان سے
گرفتاری اور ایرانی سرزمین کی استعمال کا اعتراف ہے،پاکستان دشمن بھارت کو
پاکستان کی ترقی کا باعث بننے والا یہ معاہدہ بھی ایک آنکھ نہ بھایا اور
بھارت نے اس کے مقابل سہ فریقی اتحاد بنا لیا،جس میں بھارت نے پاکستان کے
ساتھ دوستی کے روپ میں دشمنی نبھانے والے ایران کو بھی ساتھ میں ملالیا اور
یہ دونوں انجام سے غافل اور احسان فراموش ہمارے پڑوسی ملک افغانستان کو
استعمال کرنا چاہتے ہیں،سہ فریقی اتحاد نے ٹرانزٹ ٹریڈ اور چاہ بہار کی
بندرگاہ کی تعمیر کا معاہدہ کیا،منصوبے میں ایک خطیر سرمایہ لگانے کا فیصلہ
کیا گیاہے،مگر یہ سی پیک جیسی اہمیت کا حامل ہر گز نہیں ہوسکتا،جس کے واضح
مثال یہ ہے کہ ایرانی صدرنے نیویارک میں وزیراعظم نوازشریف سے سی پیک
منصوبے میں شمولیت کے خواہش کا اظہار کیاہے،ایرانی صدر حسن روغانی نے
نوازشریف کو دورہ ایران کی دعوت بھی دی ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ بھارت اور
ایران کا ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدہ ایران کو مفید نظر نہیں آرہا،اگر وہ مفید ہوتا
اور بہارتی خواہش کے مطابق اس منصوبے سے سی پیک کی اہمیت کم ہوتی تو ایران
ہر گز پاکستان سے سی پیک میں شمولیت کی خواہش کا اظہار نہ کرتا،وزیراعظم
نوزاشریف نے اگرچہ دور ایران کی دعوت کو قبول کرتے ہوئے جلد ایران کے دورے
پر آمادگی ظاہر کی ہے لیکن کیا ایسا ملک جو ہمارے حریف بھارت کا قریبی دوست
ہے،اور بھارت جب بھی پاکستان کے خلاف محاذ آرائی کرنے کی کوشش کرے تو ایران
اور بہارت میں قربتیں مزید بڑھ جاتی ہیں تو کیا کسی ایسے ملک کو اس طرقیاتی
منصوبے میں شامل کیا جا سکتا ہے؟جو ہمارے دشمن کا دوست ہو،جوملک میں فرقہ
وارانہ فسادات نے براہ راست ملوث ہو،کیا پاکستان میں سینکڑوں ایرانی تربیت
یافتہ دہشت گرد اور ایجنٹ گرفتار نہیں ہوئے؟کیا پاکستان میں فرقہ وارانہ
دہشت گردی یا شیعہ سُنی فسادات میں ایران ملوث نہیں رہا؟تو ہم کیسے اس ملک
کو اس منصوبے میں شریک کرسکتے ہیں؟جس کی محبتیں اور مفادات ہم سے زیادہ
ہمارے دشمن ملک سے وابستہ ہیں،اس لئے ہمیں ایران سے اُسی نہج کے تعلقات
استوار رکھنے ہونگے جو ایران ہمارے ساتھ کرتا چلا آیا ہے بظاہر دوستی اور
اندرونِ خانہ دشمنی کی ایرانی روش اب عیاں ہو چکی ہیں،اس لیے تمام فیصلے
ملکی مفادات اور قوم کے فائدوں کو مدنظر رکھ کر کرنے کی ضرورت ہے۔ |