نواسہ ٔرسول حضرت سیدنا امام حسین رضی اﷲ عنہ

تمام صحابہ کرامؓ حضرت حسینؓ کا احترام پیغمبرؐ کی قرابت رشتہ داری اور نسبت کی بنیاد پر کیا کرتے ۔ ہر صحابیؓ رسول ؐکی یہی کیفیت تھی وہ صرف اس لئے احترام کرتے تھے کہ حسین ؓکا خون ، حسینؓ ابن علیؓ کی نسبت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم سے متعلق ہے ۔ حضرت سیدنا ابوہریرہؓ محدثین کی جماعت میں بہت بڑے حافظ الحدیث ہیں ۔ پانچ ہزار سے زائد حدیثیں اس صحابی رسول صلی اﷲ علیہ و سلم سے نقل ہیں ۔

حضرت حسینؓ ایک دفعہ ایک جنازہ میں تشریف لے گئے واپس تشریف لائے تو جنازہ کی تھکاوٹ کی وجہ سے گردوغبار تھا جسم پر پاؤں پر ۔ آکر بیٹھے تھے کہ حضرت سیدنا ابوہریرہؓ حافظ حدیث نے اپنی چادر جوان کے کندھے پر تھی یا سر کی پگڑی تھی اس کو اتارکر حضرت حسینؓ کے پاؤں کی گرد صاف کرنے لگ گئے تو حضرت حسینؓ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور کہا چچا جان میں آپ کا مقابلہ نہیں کرسکتا ۔آپ میرے ناناصلی اﷲ علیہ وسلم کے صحابیؓ ہیں ۔حافظ الحدیث ہیں امت کے محدث ہیں آپ کا تو یہ مقام ہے اور آپ میرے پاؤں کی دھول اور گرد صاف کررہے ہیں ۔تو حضرت ابوہریرہؓ نے جواب دیا : فرمایا بیٹے ! یہ بات بھی میں نے تیرے نانا محمد صلی اﷲ علیہ و سلم سے سنی تھی کہ اے اﷲ میں حسینؓ سے پیا رکرتاہوں تو بھی اس سے پیار کر اے اﷲ جو حسین ؓ سے محبت کرے اس سے تو محبت کر ۔میں اسلئے تجھ سے محبت کرتا ہوں کہ خدا بھی تجھ سے پیار کرتا ہے اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم بھی تجھ سے پیار کرتے ہیں ۔صرف ایک صحابیؓ جتنے صحابہ کے واقعات آپ لے لیجئے۔

حضرت عبد اﷲ ابن عباسؓ سفر کر رہے تھے حج کا ۔ حضرت حسینؓ نے اپنی زندگی میں پچیس 25حج کئے ھیں ۔اور یہاں حسینؓ کا نام لینے والے کو کعبہ نصیب ہی نہیں ہوا ۔پچیس حج کئے اور ہر حج پیدل کیا ۔پیدل آتے تھے۔پیدل جاتے تھے۔کسی نے کہا ہر حج پیدل فرمایا ۔بھئی اس نسبت سے حج پیدل کرتا ہوں۔کہ جب مکہ کا سفر کرتا ہوں۔تو وہ اﷲ کے گھر کا منظر ہے۔جب واپس مدینے آتا ہوں یہ نانا کا روضۂ اطہر ہے ۔خدا کے دربار میں بھی جی چاہتا ہے کہ پیدل چل کے جاؤں۔واپس آتا ہوں تو پیدل چل کے آنے کو جی چاہتا ہے ۔کہ یہ سفر بڑی نسبت والا ہے اس لیئے پیدل سفر کرتا ہوں۔عبداﷲ بن عباسؓ اونتنی پر سوار تھے۔جب دیکھا کہ حضرت حسینؓ پیدل چل رہے ہیں ۔کہا نواسۂ رسول صلی اﷲ علیہ و سلم آپ سواری پر سوار ہو جائیں ۔میں پیدل چلوں گا ،فرمایا یہ بات نہیں آپ ہی سوار رہئے ۔فرمانے لگے ــ!ایسا نہیں ہو سکتا کہ نبی صلی اﷲ علیہ و سلم کا نواسہ پیدل چلے ․․․․․․اور میں عبداﷲؓ بن عباس سواری پر سوار ہوں․․․․․․فرمایا میرا مزاج یہ ہے کہ میں حج پیدل کیا کرتا ہوں۔حضرت عبداﷲ بن عباسؓ فرمانے لگے پھر میں اونٹنی واپس کردیتا ہوں میں بھی آپ کے ساتھ پیدل چلوں گا ایسا کبھی نہیں ہوسکتا کہ میں بھی سفر میں آپ کا رفیق سفر ہوں آپ بھی سفر فرما رہے ہوں میں سواری پر سوار ہوجاؤں آپ پیدل چلیں یہ مجھ سے برداشت نہیں ہوسکتا۔پیغمبر صلی اﷲ علیہ و سلم اتنا برداشت نہیں کرتے تھے کہ آپ سجدے میں ہوتے حسینؓ کندھے پر بیٹھ جاتے اور سر سجدے سے حضور صلی اﷲ علیہ و سلم اٹھالیں ،حسینؓ نیچے زمین پر گر پڑیں ، میں یہ کیسے برداشت کرسکتا ہوں کہ آپؓ پیدل چلتے رہیں اور میں سواری پر سوار ہوجاؤں ۔سارے صحابہؓ کو محبت حسینؓ ابن علیؓ سے تھی ۔

ہر صحابی نواسۂ رسول صلی اﷲ علیہ و سلم سے محبت کرتا تھا ۔تمام کے تمام صحابہ کرامؓ حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ دونوں شہزادوں سے بے انتہا محبت رکھا کرتے تھے ۔ہم حسن اور حسین رضوان اﷲ علیہم اجمعین سے محبت ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں جس کو پیغمبر صلی اﷲ علیہ و سلم کے نواسوں سے محبت نہیں تھی پر لے درجے کا بے دین اور بے ایمان تو ہوسکتا ہے مگر اپنے آپ کو مسلمان نہیں کہلوا سکتا ۔

یزید کا زمامِ اقتدار سنبھالنے کے بعد اقتدار وسلطنت پر براجمان ہونے کے بعد سب سے پہلے فریضہ اس کا یہ تھا کہ باپ کی وصیت کو سامنے رکھتا ۔ نواسۂ رسول صلی اﷲ علیہ و سلم سے جاکر ملتا حسینؓ کے قدموں میں بیٹھتا اور جاکر اپنے حالات سامنے رکھتا ،میرا عقیدہ یہ ہے کہ جیسے حضرت حسنؓ کو کوئی دنیا ودولت کی لالچ نہیں تھی حسنؓ نے اپنی سلطنت چھوڑ کر اگر معاویہؓ سے صلح کرکے ان کے سپرد کردی تھی تو حسینؓبھی اسی حسنؓ کا بھائی ہے اسے بھی حکومت کی ضرورت نہیں ۔یقینا حسینؓ کہہ دیتے اقتدار تو چلا لیکن میری منشاء یہ ہے کہ خلفاء راشدین کے نظام سے نظام نہ ٹکرائے ۔ان کے اصولوں کے مطابق کام کر یں تو حکومت چلا مجھے اقتدار کی کوئی ضرورت نہیں حضرت حسینؓ کی یہ رائے ہوتی ہماراعقیدہ ہے ۔کیونکہ جب حضرت حسنؓ نے حکومت کو قبول نہیں کیا تو حسینؓ بھی حکومت کو قبول کرنے کے حق میں نہیں تھے ۔ اور یہ غلط ہے کہ جو لو گ کہتے ہیں حضرت حسینؓ حکومت لینے کیلئے جارہے تھے حکومت کہاں دولت واقتدار کہاں ؟ کہنے والوں پہ خدا کی کروڑوں لعنتیں ہوں ۔ نواسۂ رسول صلی اﷲ علیہ و سلم جس کے شب وروز عبادت میں گزرے دن رات کے 24گھنٹوں میں ایک ہزار نفل عبادت پڑھتے ۔یومیہ قرآن مجید کا ایک ختم کرتے تھے ۔درہم ودینار اﷲ کے راستے میں صدقہ وخیرات کردیتے تھے ۔بعض دفعہ شام کو گھر میں پکانے کو سالن کیلئے پیسے نہیں ہوا کرتے تھے اتنے بڑے توکل والے آدمی سے یہ کہا جائے ۔العیاذباﷲ کہ اس کو دولت کی چاہت تھی اور وہ حکومت اور کرسی لینے کیلئے کوفہ روانہ ہوگیا یہ سب غلط ہے واقعہ دراصل یہ ہے کہ یزیدنے پہلی غلطی یہ کی کہ باپ کی وصیت کو بھلا دیا اور حکومت سنبھالنے کے بعد سب سے پہلے ملنے حضرت حسینؓ سے نہیں گیا ۔اس نے یہ سوچا کہ حکومت میری بن گئی ہے اب میں نے کنٹرول سنبھال لیا ہے لہٰذا اس نے گورنر مدینہ کو خط لکھا کہ سب سے میری بیعت لو بالخصوص جواکابر صحابہؓ وہاں پر ہیں حضرت حسینؓ ہیں ،عبداﷲ بن زبیرؓ ہیں ،عبداﷲ بن عمرؓ ہیں ان حضرات کو کہو کہ یہ بھی میری سلطنت کی بیعت کریں میرے ہاتھ پر یعنی اسی گورنر کے ہاتھ پر بیعت کریں ان سے کہا گیا کچھ لوگوں کواعتراض نہیں تھا ۔بیعت کرلی ۔ ان میں سے حضرت عبداﷲ بن زبیرؓ نے بھی انکار کردیا ۔حضرت حسینؓ نے بھی انکار کردیا صرف اسلیے کیا کہ حکومت وہاں پر سنبھال رہا ہے ہمارے مشورہ کے خلاف ہم پیغمبر صلی اﷲ علیہ و سلم سے مدینے میں بیٹھے ہیں جلیل القدر صحابہؓ ہیں مجلس شوریٰ میں جو علمی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اگر ان سے مشورہ نہ لیا جائے اور اگر صحیح رہنمائی نہ کریں تو نظام حکومت نہیں چل سکتا ۔

یہ یزید کا حق تھا کہ آتاحضرت حسینؓ سے ووٹ مانگتا حسینؓ اس سے جو مطالبہ کرتے اس مطالبہ کو تسلیم کرتا مگر ایسا نہ ہوا۔حضرت حسینؓ مدینہ چھوڑ کر مکہ مکرمہ چلے گئے مکہ آئے تو حضرت معاویہؓ کی پیشگوئی سچی نکلی اہل کوفہ نے خطوط لکھنا شروع کئے ان کو پتہ چل گیا کہ حضرت حسینؓ نے بیعت نہیں کی وہ مدینہ چھوڑ کر مکہ آگئے ۔ جب مکہ مکرمہ میں کافی عرصہ تک ٹھہرے اس دوران خطوط کی کثیر تعداد آگئی جس میں یہ لکھا ہوا تھا کہ نواسۂ رسول صلی اﷲ علیہ و سلم ہم نے گورنر نعمان ابن بشیر کو نہیں مانا ہم نے یزید کو حاکم نہیں مانا ہم ان کے پیچھے نمازیں نہیں پڑھتے آپ ہمارے لیے مقتداء اور پیشواہیں آپ تشریف لایئے ہم آپ کے بغیر مر رہے ہیں ۔آپ کی حکومت کے ہم منتظر ہیں آپ کے دست حق پرست پر ہم بیعت کریں گے اور وہاں کے حالات لکھے ۔ان حالات کا حضرت حسینؓ کو پتہ نہیں تھا یہ صرف کوفیوں نے لکھے سچ ہیں یا غلط ، یہ کوفیوں کی گردن پر کہا گیا کہ ظلم وستم ہورہا ہے مظلوم انسان پسا جارہا ہے اسلام پرظلم وستم ہے فلاں فلاں واقعات ہیں یہ ساری وارداتیں ان کوفیوں نے بناکرحضرت حسینؓ کے سامنے پیش کیں تو حضرت حسینؓ نے صحابہؓ کو کہا جو اکابر صحابہؓ وہاں پر موجود تھے تو انہوں نے کہا کہ نواسۂ رسول صلی اﷲ علیہ و سلم ہم آپ سے ایک درخواست کرتے ہیں کہ مکہ سے زیادہ امن کی جگہ کوئی نہیں یہ وہی بدمعاش ہیں جنہوں نے آپ کے ابا حضرت علیؓ کو شہید کردیا تھا وہی ہیں جنہو ں نے حضرت حسنؓ کو زہر دیا تھا ہمیں ڈر لگتا ہے کہ کہیں آپؓ کو یہ وہاں لے جاکر تنہا کر کے شہید نہ کردیں اسلئے خدا کیلئے آپ ان کی رائے نہ مانیں اور وہاں تشریف نہ لے جائیں ۔حضرت حسینؓ نے فرمایا تمہاری تجویز میرے سرآنکھوں پر یہ خط مجھے جلاتے ہیں جن خطوط میں یہ لکھا کہ حضرت حسینؓ نہ آئے تو قیامت کے دن خدا کے دربار میں ہمارا ہاتھ تمہارے گریبان میں ہوگا ہم اﷲ کے دربار میں استغاثہ کریں گے ۔ حضرت حسینؓ نے فرمایا میں اﷲ کے دربار سے ڈرتا ہوں اسلئے جانا چاہتا ہوں صحابہؓ نے کہا پھر ایسا کریں کہ پہلے آپ کسی نمائندے کو بھیجیں جوکوفے کے حالات معلوم کرے ۔ چنانچہ آپؓ نے حضرت سیدنا مسلم بن عقیلؓ کو بھیجا حضرت مسلم بن عقیلؓ کے ساتھ دو آدمی اور بھی روانہ ہوئے وہاں سے آپ مدینہ منورہ تشریف لے گئے مدینہ سے جب روانہ ہوئے تو دو اور ساتھی ساتھ ہوگئے ۔اسی طرح دوان کے چھوٹے شہزادے تھے اسی طریقہ سے سات آدمیوں کا قافلہ روانہ ہوا۔جس وقت یہ کوفہ پہنچا کوفہ والوں نے ان کا استقبال کیا اسی ہزار سے زیادہ کوفیوں نے حضرت سیدنا امام مسلمؓ کے ہاتھ پر بیعت کی ۔آپؓ کی امامت اور امارت کا فیصلہ کیا آپؓ کی بیعت کا اعلان کیا ۔حضرت مسلمؓ بن عقیل نے حضرت حسینؓ ابن علی کو خط لکھ دیا کہ حالات موافق ہیں آپ بے شک تشریف لائیے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے یہ لوگ آپ کے حامی ہیں اور آپ کے حق میں ہیں ۔حتیٰ کہ وہاں کا گورنر نعمان بن بشیر اس نے مخالفت چھوڑ دی ۔اور یہ کہا کہ میں نواسۂ رسول کی مخالفت کرکے اپنے آپ کو جہنم میں نہیں لے جانا چاہتا بے شک آپ جو چاہیں مجھ سے اقتدار چھین لیں میں کوئی مخالفت اور مقابلے بازی نہیں کرنا چاہتا ۔جس وقت یہ اطلاع حضرت حسینؓ کو ملی ادھر یزید کو پتہ چل گیا کہ کوفیوں نے حضرت حسینؓ کو میرے خلاف بھڑکایا بہکایا ہے اور میرے خلاف آمادہ کیا ہے ۔اور وہ حضرت حسینؓ کو بلا رہے ہیں مسلم بن عقیلؓ کو لے آئے ہیں اور وہاں پوری بغاوت کھڑی ہوگئی ہے ۔اس نے سب سے پہلا یہ کام کیا کہ گورنر بدلا نعمان ابن بشیر کو ہٹاکر عبیداﷲ بن زیاد جو ایک بدمعاش انسان تھا غلط آدمی تھا لیکن ذہین اور سیاست دان تھا بڑاچالاک وچوبند آدمی تھا اس کو گورنربناکے بھیجا ۔ یہ شخص جب آیا بڑے داؤ سے مدینے کے راستے سے کوفہ میں داخل ہوا لوگوں نے سمجھا حضرت حسینؓ آگئے ۔مرحبا اھلا وسھلا اور نعرہ تکبیر کی صدائیں بلند ہوئیں لوگوں نے سلام عقیدت اور خراج عقیدت پیش کیا یہ شخص بڑے سہمے سہمے خراماں خراماں چلتے چلتے جس وقت سلطنت دارالخلافہ میں آیا اس نے اپنے چہرے سے کپڑا ہٹاکر کہا خبردار حسینؓ کا نام لینے والو میں حسین نہیں میں عبیداﷲ ابن زیاد ہوں ۔ حضرت مسلم بن عقیلؓ کے ہاتھ پر اسی ہزار80,000/- کوفی بیعت کرچکے تھے ۔ جب عبیداﷲ ابن زیاد آیا توان سب لوگوں نے اسے مرحبا کہا خوش آمدید کہا ۔حضرت مسلم بن عقیلؓ کو بے یار ومددگار چھوڑدیا ہانی ابن عروہ کے گھر میں تشریف لے گئے ۔حضرت ہانی بھی شہید ہوگئے ،حضرت مسلم بن عقیلؓ کو بھی پکڑ لیا گیا مغرب کے وقت حضرت مسلم بن عقیلؓ نے نماز کی امامت کرائی ہزاروں آدمی پیچھے تھے اور جس وقت نماز کا سلام پھیرا اس وقت کیفیت یہ تھی کہ تین آدمی پیچھے موجود تھے باقی سارے کے سارے چلے گئے تھے اور یہ سب سے بڑی عجیب بات ہے کہ مغرب کی نماز کے بعد کوئی آدمی نہیں تھا ۔بالآخر مسلم بن عقیلؓ گرفتار ہوئے عبیداﷲ بن زیاد کے دربار میں لایا گیا جب سامنے آئے تو سلام نہیں کیا اس نے کہا میں سلام کا مستحق نہیں انہوں نے کہا جو نبی صلی اﷲ علیہ و سلم کے خاندان کا دشمن ہے وہ سلام کا مستحق نہیں اس نے کہا تم میرا ادب نہیں بجالائے فرمایا تو اس قابل ہی نہیں ہے پھر اس نے کہا تھا کوئی وصیتیں ہیں تو وہ کرو آپؓ نے کہا مجھے واپس کردیا جائے اس نے کہا میں تجھے اس قابل ہی نہیں سمجھتا آپؓ نے فرمایا میرے بچوں کو واپس روانہ کردیا جائے ۔اس نے کہا تم ہمارے دشمن ہو ہم تم سے پورا انتقام لیں گے بالآخر حضرت مسلم بن عقیلؓ کو مکان کی چھت پر کھڑا کرکے شہید کردیا گیا قتل کرنے کے بعد آپ کی لاش کو اوپر سے پھینک دیا گیا اور ایک بہت بڑا ظلم ہوا ۔فرزدق نامی ایک شاعر ہے یہ اس سارے واقعے کو دیکھنے کے بعد چھپ کر مکہ کی طر ف جاتا ہے ۔

حضرت حسینؓ مکہ مکرمہ سے روانہ ہوچکے تھے عبداﷲ بن مطیع نامی ایک بڑا عظیم آدمی ہے تاریخ میں ایک بڑامؤرخ اور محدث ہے وہ حضر ت حسینؓ کو ملا اس نے کہا آپ نہ جائیں کوفے کے حالات خراب ہیں ۔ ہانی بن عروہ شہید کردیئے گئے ،مسلم بن عقیلؓ شہید کردیئے گئے ۔ عبیداﷲ بن زیاد گورنر بن چکا ہے اس فرزدق شاعر نے حضرت حسینؓ کو روکا رشتہ داروں کو روکا ۔ بالآخر حضرت حسینؓ کوفہ کیلئے روانہ ہوئے ۔ کوفہ پہنچنے کے بعد عبیداﷲ بن زیاد کے ساتھ مذاکرات ہوئے جوکہ شمر ذی الجوشن بدمعاش کی وجہ سے ناکا م ہوئے ۔وہاں حضرت حسینؓ نے تین شرائط رکھیں پہلی بات تو یہ ہے کہ ظالمو دھوکے سے تم مجھے یہاں لے آئے ہو حضرت حسینؓ نے خطوط پیش کیے جوبارہ ہزار تھے بعض علماء نے بارہ ٹوکریاں لکھیں ۔یا صندوقیں تھیں ۔دیکھو میں پھر بھی تم سے لڑنا نہیں چاہتا میری تین شرائط میں سے کوئی ایک قبول کرو
(1)مجھے واپس مدینہ منورہ جانے دیا جائے ، میں نانا کے شہر سے باہر نہیں رہنا چاہتا میں تو اسلئے آیا تھا کہ مجھے تو تم نے اسلام کے نام پر بلایا تھا ۔
(2)اگر مجھے واپس نہیں جانے دیتے تو میری ایک رائے اور قبول کرلو اور وہ یہ کہ مجھے کسی بھی اسلامی سرحد کے کنارے پر چھوڑدیا جائے ۔
(3)مجھے یزید کے پاس لے چلو

مختصراًیہ کہ انہوں نے تینوں شرائط میں سے ایک بھی ماننے سے انکار کردیا ۔چنانچہ شمر ذی الجوشن کے مشورہ پر یہ فیصلہ ہوا کہ حضرت حسینؓ سے لڑائی کرو ۔حضرت حسینؓ کا پانی بند کردو اس سب کے باوجود حضرت حسینؓ نے ایک بھی نماز قضا نہ کی تلاوت کا اہتمام کیا پوری پوری رات عبادت وریاضت میں گزاری اندر گھر والوں کے ہاں تشریف لے گئے بچوں کو اکٹھا کرکے اہل خانہ کو جمع کرکے یہ وصیت کی کہ کل صبح یقینا ہماری آخری صبح ہوگی ہم نے اس دنیا سے چلے جانا ہے وہ ہم سے بدلہ لینا چاہتے ہیں ہمیں ختم کرنا چاہتے ہیں تمہارے ساتھ کیا بنے گی ؟ وہ میرے مالک کو پتہ ہے لیکن میں تمہیں اتناضرور کہتا ہوں کہ ہمارے مر جانے کے بعد ہماری لاشوں پہ ماتم نہ کرنا واویلا نہ کرنا سمعت جدی رسول اﷲﷺ میں نے نانا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم سے سنا تھا ۔میرے آقا صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا تھا جو سینہ پیٹے منہ ماتھاپیٹے سینہ کوبی کرے اپنے آپ کو چھلنی کرے یہ شخص میری امت سے خارج ہے ۔صبح آپؓ باہر تشریف لائے تاریخ اس بات پر گواہ ہے حضرت سیدنا حسین ابن علیؓ نے کھڑے ہوکر تین بددعائیں دی جو تاریخ کے اوراق پر نقش ہیں اور وہ تینوں بددعائیں حسینؓ کے دشمنوں کے چہرے پر آج بھی لعنت ہے۔
(1)……ظالمو! تم نے مجھے نانا صلی اﷲ علیہ وسلم کے مدینہ سے جدا کیا ہے میرے قاتلو خدا کرے قیامت تک تم مدینہ منورہ سے محروم رہو ۔
(2)……ظالمو! تم نے مجھے مسجد سے دور کیا ہے ۔آج جمعہ کا دن ہے ہر واعظ ممبر پر کھڑا ہوکر میرے نانا محمد صلی اﷲ علیہ و سلم پر درود پڑھ رہا ہوگا ۔خدا تمہیں مسجد اور جماعت کی نماز سے محروم کردے ۔
(3)……ظالمو! میں د ن رات کے چوبیس گھنٹوں میں ایک قرآن کا ختم کیا کرتا تھا تم نے مجھے قرآن کی تلاوت سے محروم کیا ۔اﷲ تعالیٰ تمہارے سینے سے قرآن چھین لے اور اﷲ تعالیٰ تمہیں قیامت تک قرآن سے محروم رکھے۔

Shabbir Ahmed Usmani
About the Author: Shabbir Ahmed Usmani Read More Articles by Shabbir Ahmed Usmani: 10 Articles with 8505 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.