بنیادی طور پرتقسیم ہند ہی ہندوپاک
کے درمیاں نفرت کی بنیاد ہے جس کی کوکھ سے مسئلہ کشمیرنے جنم لیاجس کے وقع
پذیر ہوتے ہی ان کے درمیاں حائل خلیج میں اضافہ ہونے لگا اس وقت اس خطہ میں
مسلح افواج کی تعداد برائے نام ہو اکرتی تھی مگر سالہا سال اس میں بتدریج
اضافہ ہوا 65.71.84میں متعدد جنگیں ہوئیں جن کے بعد آج بھارت کی مسلح افواج
کی کل تعداد 14لاکھ تک پہنچ چکی ہے اور اس کے ریزروآرمی اور پیراملٹری
فورسز کی کل تعداد 34لاکھ کے قریب ہے اس طرح ایک ارب تیس کروڑ آبادی والے
ملک کے پاس کل افواج کی تعداد 48لاکھ ہے دوسری جانب اس ریجن کے دوسرے بڑے
ملک پاکستان کی مسلح افواج کی تعداد 6,44000ہے۔ ریزروآرمی اور پیراملٹری
فورسز کی تعداد 8,17000ہے اور یوں 22کروڑ آبادی والے اس ملک کی آرمڈ فورسز
کی کل تعداد 1461000 ہے ۔اس طرح سارک ریجن کے ان دو ممالک کی کل افواج کی
تعداد 62,61000باسٹھ لاکھ اکسٹھ ہزار پر مشتمل ہے جو کہ یورپی یونین کے کئی
ممالک کی کل آبادی کے برابر ہے بلا شعبہ اتنی بڑی افواج کے اخراجات بھی بیش
بہا ہیں صرف بھارت دفاعی مد میں سالانہ 2.47لاکھ کروڑ bn,$) 40 ) خرچ کرتا
ہے اور پاکستان 8.60bnروپئے سالانہ خرچ کرتا ہے ۔یہ دفاعی اخراجات ان دو
ممالک کے ہیں جن کی کل آبادی ڈیڑھ ارب سے زائدہے جن میں سے ایک اندازے کے
مطابق ساٹھ فیصد یعنی نوے کروڑ لوگ خط غربت سے نیچے کی زندگی گزار رہے ہیں
۔ خط غربت سے نیچے ہونے سے مراد وہ لوگ جنہیں دو وقت کا کھانا دستیاب نہیں
،پینے کے لئے پانی نہیں اور رات سونے کے لئے گھر نہیں یعنی وہ لوگ جو فٹ
پاتھوں مسجدوں ومندروں کے دلانوں اور درگاہوں کے پچھواڑوں میں اور شہر کے
بیچ بہنے والے گندھے نالوں کے کنارے اورٹاون ایریا اور شہر بھرکے کچرے کے
لئے مختص ری سائیکلنگ ایریا کے عقب میں آباد جھونپڑبستیوں دیہاتوں میں رہتے
ہیں ۔ایسے اقوام کی قیادت ،لیڈرشپ ،سیاستدان و حکمراں کی سیاسی بصیرت کا یہ
عالم ہے کہ صرف خود کو مصنعد اقتدار پر قائم رکھنے یا پہنچنے کی خاطرستر
برسوں سے اپنے دودیسوں کی نوے کروڑ عوام کو تباہی وبربادی کے دھانے پر
پہنچا دیا ہے جہاں لوگوں کوروٹی کپڑا ،مکان ، صحت ،تعلیم ،انصاف و امن کے
بجائے آئے روز ایک دوسرے کو تبادہ و برباد کرنے کی دھمکیاں اور بارودکی گن
گرج سننے کو ملتی ہیں اور بارہا لاکھوں کی تعداد میں مسلح افواج کو بین
الاقوامی سرحد پر یوں لا کر کھڑا کر دیا جاتا ہے جیسے بچے ایک دوسرے سے خفا
ہو کراپنے کھلونے گھر کے ایک کونے سے دوسرے کونے میں شفٹ کرتے رہتے ہیں اور
محض اس نفرت کو اقتدار کی سیڑھی کے طور پر استعمال کرتے اور سادہ لوح عوام
کو بے وقوف بناتے ہوئے انہوں نے ایک پہاڑ جتنی آرمی کھڑی کر دی ہے اوردونوں
ممالک کے کل بجٹ کا چالیس فیصدنیوکلیائی ہتھیاروں کی تیاری سمیت بیرون دنیا
سے درآمد کئے گئے جہازوں سمیت دفاعی سامان گولہ بارود وغیرہ کی مدمیں خرچ
کیا جاتا ہے، موجودہ دور میں ہندوپاک دفاعی سازوسامان کے حوالے سے محض
اڑتیس فیصد خودکفیل ہیں جب کہ باسٹھ فیصد دفاعی سامان یورپ امریکہ کے اسلحہ
ساز کارخانوں سے درآمد کیا جاتا ہے ۔جہاں لاکھوں لوگ شب وروز کام کر کے ان
کی ڈیمانڈ پوری کرتے ہیں یوں سمجھ لیجئے کہ روس یورپ امریکہ جن کی معیشت کا
دارومدار اسلحہ ساز کارخانوں پر ہے اس کی سب سے بڑے خریدار یہ دو ممالک ہیں
اوراس سب خریدوفروخت وبربادی کی وجہ’’ مسئلہ کشمیر ‘‘ہے ۔شروع میں اکھنڈ
بھارت ہندوستانی قیادت کا ایجنڈا تھا لیکن بنگلہ دیش کے وجودمیں آنے سے یہ
سوچ پس منظر میں چلی گئی لیکن پاکستان کو کمزور ولاچارکرنے کی روش میں کوئی
تبدیلی نہ آئی اور 84471مربع میل یہ ریاست چھ ملین افواج کے لئے ٹیسٹ
لیبارٹری بن گئی دوسری جانب ریاست کے دوکروڑ باسیوں کے لئے ان کا وطن ایک
جیل کی شکل اختیار کر گیا اور یہ لوگ ستر برسوں سے ان ممالک کی دوستی اور
تعلقات کے منتظر رہے ہیں اور معصوم لوگ ان طاقتوں سے توقعات وابستہ کئے ہیں
جن کے اسلحہ ساز کارخانوں اور ان کی معیشت کا دارومدار’’ مسئلہ کشمیر ‘‘پر
ٹکا ہے ۔تقسیم ہندوستان کے وقت پروان چڑھنے والی نفرت جنوبی ایشاء کو اس
مقام پر لے آئی ہے کہ آج خطہ کے دو ارب سے زائد انسان بارود کے ڈھیر پر
بیٹھے ہیں جہاں ایک معمولی چنگاری پورے ریجن کو خاکستر کر سکتی ہے ۔ دونوں
ممالک کے حکمرانوں نے خود کو ’’کشمیر‘‘نام کے ایک پنجرے میں بری طرح قید کر
لیا ہے اگر اس ضمن میں کوئی فیصلہ کرنا بھی چاہیں تو لائن آف کنٹرول سے
لیکر روس یورپ امریکہ کے درودیوار ہل جاتے ہیں اس لئے کہ لفظ’’کشمیر‘‘ان سب
کے اسٹاک ایکسچینج کو اپ ڈاون کرنے کی حیثیت اختیار کر چکا ہے ایسے حالات
میں ہم کشمیری جن بڑی طاقتوں سے اور کبھی ہندوپاک کی مذاکرات و دوستی سے
مسئلہ کشمیر کے حل کی امید وابستہ کرلیتے ہیں جو کہ ایک خواب سے زیادہ کچھ
نہیں۔ اور بیشک خودمختار کشمیرمسئلہ کشمیر کاایک آسان ودیرپا حل ہے یہ بھی
درست ہے کہ ریاستی عوام اپنی بے مثال قربانیوں سے اسلام آباد ونیودہلی کو
تو مجبور کر سکتے ہیں لیکن عالمی سامراج سے کشمیر کی نجات۔۔۔کٹھن ۔۔۔اس کے
لئے روائت سے ہٹ کرکچھ کرنا ہو گا اس لئے کہ اگر یہ دیرینہ مسئلہ حل ہو
جائے تو کم از کم صرف روس یورپ امریکہ کے کارخانوں سے دو لاکھ کے قریب لوگ
بے روزگار ہو سکتے ہیں جو وہ ایسا کبھی نہیں چاہیں گے ۔اس لئے اس مسئلہ کا
حل عالمی طاقتوں کے مفاد میں نہیں ہے اور یاد رکھئے مسئلہ کشمیر کے حل ہونے
سے ہندوپاک کے سالانہ دفاعی بجٹ پر خرچ ہونے والے ٹریلینز آف ڈالرز کو ملکی
عوام پر خرچ کر کے غربت کا خاتمہ ممکن بنایا جا سکتا ہے اور وہ سب پیسہ
تعلیم صحت و دوسرے فلاحی کاموں میں خرچ کر کے خوشحالی معاشرے کا قیام عمل
میں لایا جا سکتاہے ۔جس کے لئے ایک بھرپور عوامی تحریک کی اشد ضرورت ہے
ورنہ ریجن کے سیاستدان اپنی عاقبت نا اندیشی کے باعث مذید کئی صدیوں تک
یہاں کے لوگوں کو مشکلات و مسائل سے دوچار کرتے رہے گے ۔
|