عاشورا کے فضائل و مسائل قرآن و سنت کی روشنی میں

یوں تو سال کے بارہ مہینے اور ہر مہینے کے تیسوں دن اللہ تعالیٰ کے پیدا کیے ہوئے ہیں لیکن اللہ جلِّ شانہٗ نے اپنے فضل وکرم سے پورے سال کے بعض ایام کو خصوصی فضیلت عطا فرمائی ہے اور ان میں کچھ مخصوص احکام مقرر فرمائے ہیں، انھیں میں سے ایک محرم کے مہینہ میں ’عاشورا‘ کا دن ہے، جس کے معنی ہیں ’دسواں دن‘،یہ دن اللہ تعالیٰ کی رحمت وبرکات کا خصوصی طور پر حامل ہے۔ (اصلاحی خطبات)
’عاشورا‘سے مراد محرم کی دسویں تاریخ ہے، یہ الفِ ممدودہ کے ساتھ ہے،اسے ’عاشورہ‘پڑھنا اور لکھنا، جو مروج ہے، درست نہیں۔ (قاموس الفقہ)
عاشورا کا روزہ
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
قریش زمانۂ جاہلیت میں عاشورا کا روزہ رکھتے تھے، پھر رسول اللہﷺ نے بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا، تا آں کہ رمضان کے روزے فرض ہوگئے، (تو یومِ عاشورا کے روزے کی فرضیت منسوخ ہوگئی) اور رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا : (اب) جس کا جی چاہے یومِ عاشورا کا روزہ رکھے اور جس کا جی چاہے نہ رکھے۔ (بخاری، مسلم)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
حضرت نبی کریمﷺ مدینہ تشریف لائے تو آپ نے یہودیوں کو عاشورا کا روزہ رکھتے ہوئے دیکھا۔ آپﷺ نے ان سے اس کا سبب دریافت کیا،تو انھوں نے بتایا کہ یہ ایک نیک اور اچھا دن ہے، اسی دن اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن یعنی فرعون سے نجات دی تھی، اسی لیے موسیٰ علیہ السلام نے اس دن کا روزہ رکھا تھا(اور اسی لیے ہم بھی اس دن روزہ رکھتے ہیں)۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: پھر ہم موسیٰ سے تمھاری بنسبت زیادہ قریب ہیں اور اس کے تم سے زیادہ مستحق ہیں، چناں چہ آپﷺ نے اس دن روزہ رکھا اور صحابۂ کرامؓ کو بھی اس کا حکم دیا۔ (بخاری، مسلم)
اس سے قبل حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی ایک روایت گزر چکی کہ مشرکینِ قریش زمانۂ جاہلیت ہی سے اس دن روزہ رکھتے تھے، غالباً یہ کسی نبی اللہ کی باقیات میں سے ہوگااور رسول اللہﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو آپ نے انصار کو بھی اس کا حکم دیا تھا۔روایتوں میں یہ بھی ہے کہ عیسائی بھی اس دن روزہ رکھتے تھے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ گزشتہ شریعتوں میں اس دن کا روزہ مشروع تھا۔ (تفہیم البخاری)
حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں؛
رسول اللہﷺ سے عاشورا کے روزے کے متعلق دریافت کیا گیا، تو آپ نے ارشاد فرمایا:عاشورا کا روزہ، گذشتہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہوجاتا ہے۔ (مسلم)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:
جب آنحضرت ﷺ نے یومِ عاشورا میں روزہ رکھنے کو اپنا اصول ومعمول بنایا اور مسلمانوں کو بھی اس کا حکم دیا، تو بعض صحابہ نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اس دن کو تو یہود ونصاریٰ بڑے دن کی حیثیت سے مناتے ہیں (گویا یہ ان کا قومی ومذہبی شعار ہے) اور خاص اس دن ہمارے روزہ رکھنے سے ان کے ساتھ اشتراک اور تشابہ ہوتا ہے، تو کیا اس میں کوئی ایسی تبدیلی ہوسکتی ہے، جس کے بعد یہ اشتراک اور تشابہ والی بات باقی نہ رہے؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: انشاء اللہ جب آئندہ سال آئے گا تو ہم نویں محرم کو بھی روزہ رکھیں گے۔۔۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ آئندہ سال ماہِ محرم آنے سے قبل ہی رسول اللہﷺ وفات پاگئے۔ (مسلم )
اسی لیے فقہاے کرام نے لکھا ہے کہ محرم کی دسویں تاریخ کا روزہ اور اس کے ساتھ ایک دن پہلے یا بعد یعنی نویں یا گیارھویں تاریخ کا روزہ رکھنا مستحب ہے اور صرف عاشورا کا روزہ رکھنا مکروہِ تنزیہی ہے، اس لیے کہ اس میں یہود کی مشابہت ہے۔(مراقی الفلاح)
البتہ حضرت مولانا محمد منظور نعمانیؒ فرماتے ہیں :
ہمارے زمانہ میں چوں کہ یہود ونصاریٰ وغیرہ یومِ عاشورا کا روزہ نہیں رکھتے بلکہ ان کا کوئی اور کام بھی قمری مہینوں کے حساب سے نہیں ہوتا، اس لیے اب کسی اشتراک اور تشابہ کا سوال ہی نہیں، لہٰذا فی زماننا رفعِ تشابہ کے لیے نویں یا گیارھویں کے روزہ رکھنے کی ضرورت نہ ہونی چاہیے۔ (معارف الحدیث)
یہ بھی خیال رہے کہ ان روایات میں جن گناہوں کی معافی کا ارشاد اور وعدہ ہے اس سے مراد صغائر ہیں، باقی کبیرہ گناہوں کی معافی کی بھی امید رکھنی چاہیے، مگر ان احادیث کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ان کے بھروسے پر گناہ کرنے لگےبلکہ گناہوں پر نادم ہو اور پاک باز رہنے کی کوشش کرتا رہے، تو یہ چیزیں مددگار ثابت ہوںگی۔ ان شاء اللہ
عاشورا کی فضیلت کی وجہ
بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ عاشورا کے دن کی فضیلت کی وجہ یہ ہے کہ اس دن میں حضرت نبی کریم ﷺ کے مقدس نواسے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ پیش آیا، اس شہادت کے پیش آنے کی وجہ سے عاشورا کا دن مقدس اور حرمت والا بن گیا ہے۔ یہ بات بھی صحیح نہیں، اس لیے کہ خود حضور اقدس ﷺ کے عہدِ مبارک میں عاشورا کا دن مقدس سمجھا جاتا تھا اور آپﷺ نے اس کے متعلق احکام بھی بیان فرمائے تھے اور قرآنِ کریم میں بھی اس کی حرمت کا اعلان فرمایا گیا ہے، جب کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ تو حضور اقدس ﷺ کی وفات کے تقریباً ساٹھ سال کے بعد پیش آیا، لہٰذا یہ بات درست نہیں کہ عاشورا کی حرمت اس واقعہ کی وجہ سے ہے بلکہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا اس روز واقع ہونا یہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی مزید فضیلت کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو شہادت کا مرتبہ اس دن عطا فرمایا جو پہلے ہی سے مقدس ومحترم چلا آرہا تھا۔ (اصلاحی خطباتبتغیر)
شیخ الفقہا ومحدثین شیخ شہاب الدین ابن حجر ہیثمی مصری، مفتی مکہ معظمہ نے اپنی تالیف ’صواعق محرقہ‘ میں یومِ عاشورا کے ضمن میں لکھا ہے:
لوگو! اچھی طرح سمجھ لو کہ عاشورا کے دن حضرت حسین رضی اللہ عنہ مصائب سے دوچار ہوئے اور آپ کی شہادت اللہ تعالیٰ کے نزدیک آپ کے مراتب ودرجات کی رفعت کا ثبوت ہے، اس شہادت کے ذریعے اہلِ بیتِ اطہار کے درجات بلند کرنا بھی اللہ کو منظور تھا، اس لیے عاشورا کے دن جو شخص مصائب کا تذکرہ کرے تو اسے لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی بجا آوری میں اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھنے میں مشغول رہے تاکہ اللہ تعالیٰ کے ثواب کا مستحق ہوسکے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اُولٰئِکَ عَلَیْہِمْ صَلَوَاتٌ مِّنْ رَّبِّہِمْ وَرَحْمَۃٌ، وَاُولٰئِکَ ہُمُ الْمُہْتَدُوْنَ۔
یہ وہ لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے رحم وکرم ہوتا ہے اور یہی ہدایت یافتہ ہیں۔
عاشورا کے دن انا للّٰہ الخ پڑھتے رہے، یا بڑی سے بڑی نیکی روزہ رکھنے کے علاوہ کسی اور کام میں مشغول نہ ہو۔ (ما ثبت بالسنۃ)
مشہور مگر غیر صحیح روایات
ابو شیخ نے اپنی کتاب ’الثواب‘میں رسول اللہﷺ کا یہ ارشاد تحریر کیا ہے:
عاشورا کے دن حضرت نوح علیہ السلام جودی پہاڑ پر اپنی کشتی سے اترے اور اس دن روزہ رکھا اور اللہ کا شکر ادا کرنے کے لیے اپنے ساتھیوں کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا، نیز عاشورا کے دن ہی اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی توبہ قبول کی اور حضرت یونس علیہ السلام کے شہر والوں کی بھی اسی دن توبہ قبول کی، اسی دن حضرت ابراہیم علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے۔ (ما ثبت بالسنۃ)
بعض لوگوں میں یہ باتیں مشہور ہیں کہ جب حضرت آدم علیہ السلام دنیا میں اترے تو وہ عاشورا کا دن تھا، جب نوح علیہ السلام کی کشتی طوفان کے بعد خشکی میں اتری تو وہ عاشورا کا دن تھا، حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب آگ میں ڈالا گیا اور اس آگ کو اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے گلزار بنایا تو وہ عاشورا کا دن تھا اور قیامت بھی عاشورا کے دن قائم ہوگی۔ یہ سب باتیں لوگوں میں مشہور ہیں لیکن ان کی کوئی اصل اور بنیاد نہیں، کوئی صحیح روایت ایسی نہیں ہے جو یہ بیان کرتی ہو کہ یہ واقعات عاشورا کے دن پیش آئے تھے۔ (اصلاحی خطبات)
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے ان روایات کو موضوع قرار دیا ہے۔ (انظر ما ثبت بالسنۃ)
ایک عجیب بات
شہادتِ حسین رضی اللہ عنہ کا حادثہ اگرچہ انتہائی المناک ہے، مگر بعض غلط ذہنیت کے لوگوں نے اسے حد سے زیادہ بڑھادیا ہے۔ عام مسلمانوں کے اذہان میں یہ غلط بات جمادی گئی ہے کہ دنیا میں شہادتِ حسین رضی اللہ عنہ جیسا اور کوئی سانحہ فاجعہ واقع نہیں ہوا، حالاں کہ اس سے بدرجہا زیادہ مظلومیت کے بے شمار اندوہناک واقعات ہیں۔ مثال کے طور پر حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت دیکھیے کہ مدافعت پر پوری قدرت کے باوجود ظلمِ عظیم پر کس قدر صبر واستقامت کے ساتھ جان دے دیتے ہیں، کیا اس کی نظیر کہیں دنیا میں ملتی ہے؟ مگر مسلمان اس خلیفۃ الرسول ﷺ کی اتنی بڑی مظلومیت سے اس قدر بے خبر ہیں کہ گویا یہ فرش وعرش کو لرزا دینے والا سانحہ واقع ہی نہیں ہوا۔ کیا آپ نے کبھی کسی زبان کو اس مظلومیت کی داستان بیان کرتے ہوئے، کسی کان کا اس طرف التفات، کسی قلم کو یہ جان فگاں حادثہ لکھتے ہوئے، اوراقِ تاریخ میں اس کی تفصیل دیکھنے کے لیے کسی نگاہ کی توجہ، اس مظلومیت پر کسی دل میں احساسِ درد اور کسی آنکھ کو کبھی اشک بار دیکھا ہے؟ اس سے بھی بڑھ کر حضورِ اکرم ﷺ کے اقدامِ مبارکہ کا لہولہان ہونا، دانت مبارک کا شہید ہونا، چہرۂ انور کا زخمی ہونا اور اس سے نہ رکنے والا خون جاری ہونا، انگلی سے خون بہنا اور بہت سے انبیائے کرام علیہم السلام کا شہید ہونا، دنیا بھر کے اولیاء اللہ کا خون نبی کے ایک قطرۂ خون کے برابر نہیں مگر یہاں تو زبان، کان، قلم، نگاہ، دل اور آنکھ سب ایک ہی کرشمے میں مست ہیں، نہ کسی دوسرے صحابی کی شہادت کسی شمار میں، نہ کسی نبی کی۔ (احسن الفتاویٰ)
اہل وعیال پر وسعت
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
جو شخص عاشورا کے دن اپنے اہل وعیال پر رزق میں وسعت کرے، اللہ سبحانہ وتعالیٰ پورے سال اس کے رزق میں برکت ووسعت فرمائیں گے۔ (الترغیب، بیہقی)
توسع علی العیال اور استحبابِ صومِ عاشورا میں بعض لوگوں کو تعارض معلوم ہوتا ہے۔ ان کی تشفی کے لیے نوادر الحدیث (ص: ۵۱۹)سے یہ تفصیل ملاحظہ ہو: شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
میرا مقصد تو یہ ہے کہ حدیث التوسعۃ علی العیال اور استحبابِ صومِ عاشورا میں بظاہر تعارض ہے۔
جس پر ان کے شاگرد حضرت مولانا محمد یونس صاحب تحریر فرماتے ہیں:
بندے کے خیال میں کوئی تعارض نہیں ہے، اس لیے کہ توسعۃ فی الرزق علی العیال کا تو یہ بھی مطلب ہوسکتا ہے کہ اس کے اسباب دن میں کرلیے اور اکل وشرب غروب کے بعد ہو اور مسببات کی جگہ اسباب کا اطلاق ہوتا ہی رہتا ہے، نیز یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے مراد غیر مکلف نابالغ بچے وغیرہ ہوں، جیسا کہ لفظ العیال سے معلوم ہوتا ہےالخ۔ واللہ اعلم
اس دن مسلمان کیا کریں؟
متذکرہ بالا تفصیلات سے معلوم ہوا کہ یومِ عاشورا سے متعلق شریعت نے خاص دو چیزیں بتلائی ہیں؛
(۱) روزہ رکھنا
(۲) اہل وعیال پر کھانے پینے وغیرہ میں وسعت کرنا۔
نیز مصیبت کے وقت استرجاع کا حکم ہے اور اس تاریخ میں ایک الم انگیز واقعہ جو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا پیش آیا، اس کی یاد سے صدمہ ضرور ہوگا، لہٰذا انا للّٰہ وانا الیہ راجعون پڑھتے رہیں، اس کے علاوہ اس دن کے لیے کوئی حکم نہیں دیا گیا۔ (فتاویٰ رحیمیہ جدید)
حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت یقینا ایک درد ناک حادثہ ہے اور خاندانِ نبوت سے عقیدت ومؤدت کا تعلق رکھنے والوں کے لیے روح فرسا واقعہ ہے، سب کو اس سے عبرت حاصل کرنا لازم ہے کہ حق پر کس طرح قائم رہنا چاہیے، کسی جابر طاقت کے سامنے جھکنے سے جامِ شہادت نوش کرنے کا مقام بہت بلند ہےلیکن یہ انتہائی بدقسمتی اور حرمان نصیبی ہے کہ جرأت اور حق گوئی کا سبق حاصل کرنے کی جگہ آج جاہلانہ اور زنانہ مراسم نے قبضہ کرلیا ہے اور اب ان ہی کے ذریعے حق وفاداری ادا کیا جاتا ہے، ان کا بند کرنا ضروری ہے۔ (فتاویٰ محمودیہ)
کھچڑا پکانا
بعض حضرات (ان دنوں میں) کھچڑے کی پابندی کرتے ہیں، اصل اس کی صرف وہ (حدیث) تھی جو کہ (اہل وعیال پر وسعت کے عنوان سے) لکھی گئی، شاید کسی نے یہ سمجھ کر کہ کھچڑے میں (بہت سے) اناج آجائیں گے، کھچڑا پکالیا ہوگا، مگر اب اس کو ایسا ضروری سمجھتے ہیں کہ نماز قضا ہوجائے، مگر یہ قضا نہ ہو۔ سو ایسا اصرار بدعت ہے، نیز اکثر ان امور میں خلوص بھی نہیں ہوتا اور یہی نیت ہوتی ہے کہ لوگ کہیں گے کہ ایک سال پکا کر رہ گئے، اس لیے اگر یہ بدعت بھی نہ ہوتا، تب بھی ثواب کچھ نہ ملتا۔ (زوال السنۃ)
شربت پلانا
بعض لوگ ان ایام میں شربت پلاتے ہیں اور اس میں ان کا یہ عقیدہ ہوتا ہے کہ اس سے شہیدوں کی پیاں بجھے گی، کیوں کہ وہ پیاسے شہید ہوئے تھے، تو سمجھنا چاہیے کہ ان کے پاس شربت نہیں پہنچتا بلکہ اگر خلوص سے شرع کے موافق ہوتا تو ثواب پہنچتا اور ثواب گرم اور ٹھنڈی چیز کا یکساں ہے، یہ نہیں کہ گرم شئے کا ثواب گرم ہو اور ٹھنڈی شئے کا ثواب ٹھنڈہ اور پھر طرہ یہ کہ خواہ سردی ہو، خواہ برسات، خواہ گرمی، چاہے کوئی بیمار ہوجائے، مگر شربت ضرور ہو۔ (زوال السنۃ: ۶)یہ شربت نہ وہاں پہنچتا ہے، نہ ان کو شربت کی ضرورت ہے، اللہ پاک نے ان کے لیے جنت میں اعلیٰ سے اعلیٰ نعمتیں عطا کر رکھی ہیں، جن کےمقابلے میں یہاں کا شربت کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔( فتاویٰ محمودیہ)
دسویں محرم کی چُھٹی
بعض افراد و ادارے عاشورا کے دن کام کاج بند رکھتے ہیں، جب کہ اس دن چھٹی کرنے میں کئی قباحتیں ہیں؛
ایک یہ کہ اس میں اہلِ تشیع کے ساتھ تشبہ ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ان کی تائید وتقویت ہے۔
دوسری قباحت یہ کہ اس دن شیعہ اپنے مذہب کے لیے بے پناہ مشقت اور سخت محنت کا مظاہرہ کرتے ہیں، اس کے برعکس مسلمان تمام دینی ودنیوی کاموں کی چھٹی کرکے اپنی بے کاری اور بے ہمتی کا مظاہر کرتے ہیں۔
تیسری قباحت یہ کہ چھٹی کی وجہ سے اکثر مسلمان تعزیہ کے جلوسوں اور ماتم کی مجلسوں میں چلے جاتے ہیں، جس پر کئی گناہوں کا بیان اوپر گذر چکا ہے۔ (احسن الفتاویٰ، اغلاط العوام)
اللّٰہم ارنا الحق حقاً وارزقنا اتباعہ
وارنا الباطل باطلاً وارزقنا اجتنابہ
Maulana Nadeem Ahmed Ansari
About the Author: Maulana Nadeem Ahmed Ansari Read More Articles by Maulana Nadeem Ahmed Ansari: 285 Articles with 347574 views (M.A., Journalist).. View More