تعویز اور ہمارا معاشرہ

جادو اور تعویز کی مزمت پر مبنی کہانی
تعویز کی تاریخ بہت پرانی ہے غالباٰ حضرت داود علیہ السلام ؑ اور حضرت سلیمان علیہ السلام ؑ کے دور میں اس کا باقاعدہ آغاز ہوا تعویز کی اصلی حالت اب بدل چکی ہے تعویز کسی بھی الہامی کتاب ایک یا ایک سےزیادہ آیات پر مشتمل ہوتا تھا لیکن اب یہ بالکل مختلف حالت میں ملتا ہے -

حضرت سلیمان علیہ السلامؑ نے سختی سے منع فرما دیا تھا اس وقت لوگ اسم اعظم کی تلاش میں سالوں کی ریاضت کرتے تھے ان کا علم واقعی بہت تھا مگر اللہ نے اپنے نبی کو حکم دیا کہ یہ قوم بھٹک رہی ہے ان کو ہدایت دیں ساری کتب اور علمی تعویز اور طریقوں کو حضرت سلیمان ؑ نے اپنی کرسی کے نیچے دفن کر دیا تاکہ یہ فتنہ سر نہ اٹھا سکے مگر ان کی وفات کے بعد لوگوں نے پھر سے وہی کام شروع کر دیا یہ تھا -
تاریخی پہلو ۔۔۔۔۔

اب آتے ہیں موجودہ دور میں تعویز کی اہمیت اور ساخت پر کہ یہ کس حد تک ٹھیک ہے اور کس حالت میں پایا جاتا ہے ۔۔۔علم اعدادکے بعد لوگوں نے بے حرمتی سے بچنے کے لیے ایک سہارہ لیا اور قرآنی آیات کو ایک فارمولے کے تحت حروف تہجی کی نمبری تقسیم کر دی اب تعویز ہم کو ان حروف تہجی اور نمبری اعداد دونوں حالتوں میں ملتا ہے آج کل تو فوٹو سٹیٹ تعویذ بھی آپ کو عام ملیں گے جی ہاں بابا جی سرکار کے پاس ایک پرانی سی کتاب ہوتی ہے جس کے شروع اور آخر والے صفحے جان بوجھ کر پھاڑ دئیے جاتے ہیں تاکہ کوئی کتاب کا نام نہ پڑھ سکے اور خود بابا نہ بن جائے آج کل کے بابا جی ہر قسم کا ایک تعویز لکھ کر باقی فوٹو سٹیٹ کروا کر رکھ لیتے ہیں اور ضرورت مندوں کو دیتے رہتے ہیں -

آپ کو کیا لگتا ہے قرآنی علم ان جعلی عاملوں کے پاس ہے کیا ہمارے سب کام تعویزوں سے ٹھیک ہوتے ہیں ایسا ہرگز نہیں ہے ہمارہ عقیدہ کمزور ہو چکا ہے تبھی ہم کو ان سب کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اور جعلی عامل ہماری سادہ سی معصومیت سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور ہم کو بچے کاروبار شادی محبت ہر کام کے لیے وہ تعویز دیتے ہیں اور ہم وہ استعمال کرتے ہیں اور اپنا ایمان کمزور کرتے ہیں ۔

تعویزکرنے والے خود بے نمازی ہوتے ہیں اور ہم ان کی پیروائی کرتے ہیں وہ سب کو یہی کہتے ہیں آپ پر جادو ہے کسی خاتون نے کروایا ہے اور آپ کی رشتے دار ہی ہے اور باقی سب کہانی ہم خود بتا دیتے ہیں ہوتا کچھ بھی نہیں بس ایک زہنی سکون کی خاطر ہم اپنا ایمان خراب کرتے ہیں ۔۔۔۔

قرآن پاک پڑھنے اور عمل کرنے کے لیے اتارا گیا تھا تعویز بنا کر تکیے یا وزن کے نیچے دبانے کے لیے نہیں اور قرآن پاک کو یاد کرنے کا حکم ہے تعویز بناکر جلانے اور قبروں میں دبانے کا کہیں بھی حکم نہیں ملتا پھر کیوں ہم وہ عمل کرتے اور کرواتے ہیں جو ہم سے پہلے والی قوموں کو بھی منع تھا اور ہم تو دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتے ہیں ایسے گناہ کبیرہ کو کرتے ہوئے-

ابھی بھی وقت ہے سمجھ جائیں ورنہ دیر ہو جاے گی پھر بابا فوٹو سٹیٹ بھی آپ کو آپ کی محبت اور شادی میں مدد نہیں کرے گا بورےوالہ ایک چھوٹی سی آبادی والہ شہر ہے اور یہاں ہر محلے میں ایک یا ایک سے زیادہ بابے موجود ہیں جو یہ سب کرتے ہیں اور بدقسمتی دیکھیں لوگ کرواتے ہیں اور تو اور ایک ڈاکٹر صاحب معصوم شاہ روڑ پر اپنی شفاء سے لوگوں کو فیض یاب کرتے ہیں ہم کس طرف جا رہے ہیں کس کی تلاش ہے اگر تعویز سے محبت ملتی تو آج سب کو مل چکی ہوتی اگر تعویز سے مسلے حل ہو سکتے تو آج دنیا میں کوئی مسلہ ہی نہ ہوتا اگر تعویز سے دردکم ہوتے تو ڈاکڑوں کی ضرورت ہی کیا ہے وقت ہے سمجھ جاو ابھی ہم نے اصلی زندگی کی طرف جانا ہے وہاں بابا جی کا تعویز نہیں چلتا وہاں اعمال کا سودا ہو گا وہاں کوئی جادو نہیں کروا سکے گا سو خدا کے لیے جادو اور تعویذ کے چکروں سے نکل آیئں میں کسی بابے سے دشمنی نہیں کر رہا حقیقت بیان کر رہا ہوں ۔۔۔دعا ہے آپ سب کو سمجھ آجاے تو میرے لیے بھی دعا کرنا ۔۔۔۔سلامتی ہو
Ahmar
About the Author: Ahmar Read More Articles by Ahmar: 21 Articles with 14544 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.