کل کو آتی دفع کا ذکر ہے
پچھلی دفعہ کی اہمیت سے مجھ کو انکار نہیں
شخص کا وہ اترن ہے
یہ اترن ہی شخص کی وضاحت ہے
اس پر ناز کیسا غرور کیسا
میں کیسا ہوں یہ ہی اصل حقیقیت ہے
خدارا مورکھ کے پاس نہ جائیے
سچ کم جھوٹ زیادہ بولتا ہے
جو ہوتا نہیں کہتا ہے جو ہوتا ہے کہتا نہیں
شاہ کا چمچہ ہی نہیں
وہ فصلی بٹیرا بھی ہے
چوری خور کب حق سچ کی کہتے ہیں
شخص کا کاتب نہیں
شاہ اور شاہ والوں کی وہ منشی گیری کرتا ہے
شخص کے اس اترن کی کتھا
شاعروں کے ہاں تلاشیے
سچ وہاں مل جائے گا
علامتوں استعاروں میں ہی سہی
سب کچھ وہ کہہ گیے ہیں
اورنگی عہد کا سچ کہیں اور کب ملتا ہے
رحمان بابا کہتا ہے
مجنوں کا کوئی کیا حال پوچھے
ہر گھر صحرا کا نقشا ہے
یہ شاعر ہی تھا جو اشارے میں
بہت کچھ کہہ گیا
مورکھ کو سچ کہنے کی توفیق کہاں
ہاں داستانی ادب ہو کہ مقامی حکائتیں
حق ان بھی بھی کہیں ناکہیں لکا چھپا ہوتا ہے
خیر جو بھی معاملہ رہا ہو
پچھلی دفعہ کا یہ ذکر ہی نہیں
یہ کل کو آتی دفع کا ذکر ہے
شرق کا اک سیانا
ستاروں کے علم سے آگاہ تھا
زمین کا وڈیرا لٹیرا
دھونس سے اسے اپنے پاس لے گیا
پہلے آنکھیں دکھائیں
نہ مانا تو تشدد کیا
بڑا ڈھیٹ نکلا تو بھوک کی چادر اڑھا دی
آخر کب تب تک
زبان اس نے کھول ہی دی
موت سے ڈرا موت صلہ ٹھہری
بھلائی کے بدلے شاباش کم ہی ملتی ہے
خیر اس نے تو مجبوری میں آ کر اپنا سینہ کھولا
پولے پیریں بتا دیتا تو بھی اس کا یہ ہی حشر ہوتا
زمین کے ہر چپے پراس کی حکومت تھی
سورج چاند ستارے سارے کے سارے
تصرف میں اس کے آ چکے تھے
اس حقیقت کے باوجود
کوئی ناکوئی زمین کا سانس لیتا مردہ
کچھ ناکچھ کہیں ناکہیں گڑبڑ کر ہی دیتا
سرکوبی کے جتن میں
گرہ خود سے ہتھیایا سکہ نکل جاتا
ہر جاتا سکہ اس کو ادھ مویا کر دیتا
کل کو آتی دفع کے ذکر میں
اس بات کا باور کرانا ضروری ہے
وہ شرقی جان سے گیا
کسی شریک کا ہونا وڈیرے کو کیسے گوارہ ہوتا
ستاروں کا علم آنے کی دیر تھی کہ حوصلہ اس کا
ہمالہ کی بلندی کو بھی پار کر گیا
ہر چلتا پھرتا بدیسی
اس کو کیڑا مکوڑا لگنے لگا
اس کے کسی دیسی کو
اس کے کسی عمل پر کیوں اعتراض ہوتا
پیٹ بھرے سوتا پیٹ بھرے اٹھتا
جو بولتا اس کے منہ میں زیرہ رکھ دیتا
بدیسی کسکتا بھی تو اس کا ستارہ بدل دیتا
مشتری سے جب وہ زحل میں آتا
وہ جی جان سے جاتا یہ مسکراتا قہقہے لگاتا
اسے کوئی پوچھنے والا نہ رہا
ہر سو خوف و ہراس کا پہرا ہوا
ہر بدیسی کے زحل میں آنے سے
قتل و غارت کی دنیا شاد و شاداب تھی
اک بے سہارا وچارے سے لڑکے کا
بھوک کے سبب میٹر گھوم گیا
زحل میں آئے اس کے ستارے کی
یہ بددیسی چال تھی
کسی میاں میٹھو نے اسے خبر کر دی
اس نے فورا سے پہلے اس کا ستارہ بدل دیا
جلدی میں اس سے چوک ہو گئی
درمیاں زحل کے جانے کی بجائے
ستارہ مشتری میں جا بسا
پھر کیا تھا
دیکھتے ہی دیکھتے کچھ کا کچھ ہو گیا
اس کے اقتدار کا گراف نیچے گرنے لگا
وہ بوکھلا گیا
بوکھلاہٹ میں ہر صحیح بھی غلط ہونے لگا
پھر کیا تھا
آتے کل کی دفع میں وڈیرے کا اپنا ستارہ
کہیں گم ہو گیا
سب سے پہلی دفعہ میں بھی ایسا ہی ہوا تھا
ابلیس کی گڈی چڑھی ہوئی تھی
فرشتہ ہو کہ جن اس کے قدم لیتا تھا
تکبر زہریلا لاوا اگلنے لگا
اس کے سب کے خالق نے
پہلا آدم تخلیق کیا
اسے ہی نہیں
سب کو سجدہ کا حکم دیا
اس کا قیاس تھا کہ آدم زحل ًمیں وجود پایا ہے
اس کی یہ ہی بھول تھی
غصہ و قہر میں لمحوں کی گنتی بھول گیا
آدم تو مشتری کی بہترین ساعت کی تخلیق تھا
اللہ کی حکمت اگر کھل جائے تو وہ اللہ تو نہ ہوا
اللہ کے آنے کے ان حد رستے ہیں
قہر کے رستے سے آئے یا عطا کے رستے سے
کون جان سکا ہے
آتے کل کی دفع میں
شکست آخر ابلیس کے پیرو کا مقدر ٹھہری
ویدی کا ویدان تو اپنی ذات میں اٹل ہے
دیو ہو کہ جن شخص ہو کہ ملک
اس کے سامنے بےبس ہے
اس کی ہونی میں کب کسی کا کوئی دخل ہے
دجال آئے کہ اس کا پیو آئے
اس کی خدائی نہیں چل سکتی
حسین کے پیرو اس کی راہ میں آتے رہیں گے
وہ آگ میں پڑنے سے زہر پینے سے
سر کٹوانے سے کب ڈرتے ہیں
دجال عصر سن لو!
تمہیں میں یہ کہے دیتا ہوں
تمہارا ستارہ زحل میں آنے کو ہے
یہ ہی ہوتا آیا ہے یہ ہی ہوتا رہے گا
کہاں ہیں یونانی کہاں ہیں رومی
بس ان کی کہانیاں باقی ہیں
ہاں وہ سب تکبر کی آگ کا ایندھن بنے
جل بھن گئے راکھ تک باقی نہ رہی
سکندر ہو کہ قاسم محمود ہو کہ چرچل
بابر بھی عیش کوشی کے سامان کرتا رہا
کچھ کھا پی گئے
کچھ جمع آوری میں مشغول رہے
کسی نے تاج محل تعمیر کیا
عورت کے تھلے کی خوشنودی کی خاطر
کئی نور محل تعمیر ہوئے
کوئی اپنے ساتھ کب کچھ لے گیا
نام اللہ کا باقی ہے نام اللہ کا باقی رہے گا
گزری دفعہ کی یہ ہی کتھا تھی
آتی دفع کی بھی یہ ہی کتھا ہوگی
|