ایک ہاتھ دے …… ایک ہاتھ لے

رات کے ڈھائی تین بجے تھے۔ بچوں نے آکر بتایا کہ باہر بہت رونق ہے۔ میں اور میری بیگم رونق دیکھنے باہر نکلے۔ اڈا پلاٹ رائے ونڈ روڈ پر ایک معمولی سا گاؤں تھا جہاں Y کی شکل بناتی ایک سڑک جاتی عمرہ کو جاتی ہے۔ چھ ماہ پہلے تک صورت حال یہ تھی کہ اگر لاہور سے رائے ونڈ کی طرف جائیں تو ٹھوکر سے تقریباً 12 کلومیٹر پر اڈہ پلاٹ پر دائیں طرف ایک موڑ تھا جس کے دائیں بائیں کھوکھے اور چھوٹی چھوٹی دکانیں تھیں۔ دائیں طرف جاتی عمرہ جانے والی سڑک اور بائیں طرف کھوکھوں اور دکانوں کے پیچھے غریب لوگوں کے چھوٹے چھوٹے مکانات تھے۔ اب اس چوک سے غریبی تقریباًرخصت ہو گئی ہے۔ دائیں طرف تو وہی جاتی عمرہ جانے کا راستہ ہے جو پہلے سے کافی بہترہو چکا اور بائیں طرف ایک نئی سڑک رائے ونڈ لنک روڈ وجود میں آگئی ہے۔ یہ شاندار سڑک شوکت خانم چوک سے توپ باز چوک اور وہاں سے واپڈہ ٹاؤن، طارق گارڈن، ویلنیشیا، DHAرہبر، فضائیہ اور بہت سی جدید آبادیوں کو چھوتی ہوئی اڈہ پلاٹ کے نئے بنے ہوئے شاندار اور بہت بڑے چوک پر پہنچتی ہے۔ رائے ونڈ روڈ پر اڈہ پلاٹ میرے گھر کی سڑک سے ایک ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔

رات کے تین بجے تھے اور میرے گھر سے رائے ونڈ تک بہت سے فارم ہاؤسز میں لوگ خوش گپیوں اور شور و غوغا میں مصروف تھے۔ ہر طرف گاڑیاں پارک تھیں۔ رائے ونڈ روڈ پر بھی اتنی رات گئے بے حد رش تھا۔ اڈہ پلاٹ سے دائیں بائیں خصوصاً لاہور کی طرف رائے ونڈ روڈ پر اور بائیں طرف والی نوتعمیر سڑک پر ایک کلومیٹر تک یوں لگتا تھا جیسے لوگ کسی میلے میں آئے ہیں۔ قلفیاں، گول گپے، برگر اور بہت سی چھوٹی چھوٹی دکانیں سجائے لوگ بیٹھے تھے۔ وہاں چکر لگاتے محسوس ہی نہیں ہو رہا تھا کہ رات کے تین بج چکے ہیں۔ جلسہ شروع ہونے میں ابھی چودہ پندرہ گھنٹے باقی تھے اور رش کا یہ عالم تھا کہ اس وقت بھی لوگوں کی ٹولیاں جلسہ گاہ پہنچ رہی تھیں۔ پتہ نہیں یہ صرف عمران کے چاہنے والے ہی تھے یا احتساب کے دلدادہ بھی ان میں شامل تھے۔ کم از کم میں تو احتساب کے حوالے سے اس جلسے کا ضرور حامی تھا۔ اس ملک کو اگر دنیا میں اپنا ایک مقام بنانا ہے تو یہاں کڑے احتساب کی ضرورت ہے۔ ایسا احتساب کہ جس میں کوئی شخص مقدس نہ سمجھا جائے، جو غلطی کرے اپنے انجام سے دو چار ہو۔

میرے دوست قیوم بٹ صاحب کے بچوں کی شادی تھی۔ بیٹی کی رُخصتی اور بیٹے کا ولیمہ۔ میں شام سات بجے وہاں جانے کے لئے گھر سے نکلا۔ رائے ونڈ روڈ کے دونوں جانب یعنی آنے اور جانے والے دونوں راستوں پر جلسے کی طرف جانے والی گاڑیاں کھڑی تھیں۔ بہت سے لوگ پیدل چل رہے تھے۔ میں نے بہت کوشش کی کہ کہیں سے راستہ مل جائے اور میں شادی میں شریک ہو جاؤں ، مگر ناکام رہا۔ آٹھ ساڑھے آٹھ بجے تھک کر واپس آگیا۔ میرے بچے کہنے لگے اچھا ہوا راستہ نہیں ملا اور واپس آگئے۔ اگر کہیں سے راستہ مل جاتا اور آپ شادی کی تقریب میں پہنچ جاتے تو بٹ صاحب کو رات آپ کے قیام کا بھی بندوبست کرنا پڑتا کیونکہ اس کے بعد تو صبح تک گزرنے کی جگہ کہیں دور دور تک بھی نظر نہیں آنی تھی اور گھر واپس آنا ممکن نہیں تھا۔شادی میں شرکت نہ کرنے کا بہت افسوس ہے اور بٹ صاحب سے شرمندگی بھی مگر لاچار تھا۔قیوم بٹ صاھب سے معذرت کا خواستگار ہوں۔

عمران خان کے جلسے پر مسلم لیگ (ن) کے رہنما جناب رانا ثناء اﷲ تبصرہ کر رہے تھے کہ جلسے میں بمشکل پندرہ، بیس ہزار لوگ ہوں گے۔ رانا صاحب وہ ہیں کہ جنہیں چوہدری لوگ بلامعاوضہ داد حاصل کرنے اور مخالفوں کو جُگتیں لگانے کے لئے گھر سے ساتھ لے کر نکلتے ہیں۔ چنانچہ رانا صاحب وفاداری نباہ رہے تھے، ان کو معاف کیا جا سکتا ہے۔ ان کے بارے کچھ کہنے سے ، نہ کہنا بہتر ہے۔ شاید یہ خبر رانا صاحب جیسوں کی اطلاع کے لئے ہی چھپی ہے کہ لاہور ویسٹ مینجمنٹ کمپنی (ایل ڈبلیو ایم سی) کے منیجنگ ڈائریکٹر بلال مصطفی کی ہدایت پر (LWMC) کے عملے نے پی ٹی آئی کے مارچ کے بعد اڈا پلاٹ اور رائے ونڈ روڈ سے ملحقہ سات کلومیٹر ایریا کی صفائی ستھرائی کے لئے علی الصبح خصوصی کلین اپ آپریشن کیا، جس کے نتیجے میں پلاسٹک کی بوتلوں، کھانے پینے کے خالی ڈبوں، کاغذوں پر مشتمل 9 ٹن سے زیادہ کوڑہ کرکٹ ٹھکانے لگایا۔ یہ خبر رانا صاحب نے بھی پڑھی ہوگی، مگر بیان بیان ہوتا ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ورنہ شرم بھی کوئی چیز ہوتی ہے، حیا بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ مگر سیاسی مسخروں کا شرم اور حیا سے کیا تعلق؟

احتساب اس ملک کی بقا کے لئے انتہائی ضروری ہے اور نواز شریف ہوں یا زرداری ہوں یا الطاف بھائی، کسی بھی احتساب سے بچنے کے لئے ان کا اتحاد لازمی ہے۔ باقی سب نورا کشتی ہے۔ میں حیران ہوتا ہوں ان نامور لوگوں پر جو کڑے احتساب کے لئے مسلسل بڑھک بازی کر رہے ہیں، مگر اپنے لیڈروں کے بیان سن کر انہیں سانپ سونگھ جاتا ہے اور لیڈر وہ ہیں جن میں کردار والی کوئی بات نہیں۔ نواز شریف الیکشن کمیشن میں بیان دیتے ہیں کہ بیٹی کی کفالت وہ خود کرتے ہیں۔ ریکارڈ پر یہ بیان ہونے کے باوجود اَب کہتے ہیں کہ میں بیٹی کا کفیل نہیں۔ اب وہ پرانے کاغذات بھی غائب ہو جائیں گے۔ بلاول ایک جلسے میں ببانگ دہل کہتے ہیں کہ نوازشریف غدار ہیں۔ دس دفعہ یہ فقرہ دُہرانے کے باوجود دس دن بعد وہ انکار کر دیتے ہیں کہ میں نے نوازشریف کو غدار کہا ہی نہیں۔ سچ یہ ہے کہ کرپشن، ہیراپھیری اور مکروہ پن ان سیاستدانوں کی نس نس میں بھرا ہے اور ان کی ان سیاہ کاریوں کے سبب پورا معاشرہ کرپٹ ہو چکا ہے۔جب تک یہ کرپٹ لوگ موجود ہیں اصلاح کی کوئی صورت ممکن نہیں۔

کچھ عرصہ پہلے میرے ایک دوست نے کسی محکمے سے اپنی کچھ رقم لینی تھی۔ انہوں نے رقم کم بنائی ہوئی تھی، اس نے احتجاج کیا اور لکھ کر دیا۔ مگر کوئی سنتا نہیں تھا۔ وہ جب بھی رقم لینا چاہتا کوئی نہ کوئی اعتراض لگ جاتا۔اس نے پنجاب کے ایک انتہائی سینئر بیوروکریٹ سے بات کی۔ جنہوں نے محکمے کے دوسرے سینئر ترین افسر سے اس کا تعارف اپنے دوست کے طور پر کرایا اور کہا کہ یہ میرا ذاتی کام سجھ کر فوری طور پر کرو۔ محکمے کے افسر نے متعلقہ لوگوں کو بہت اچھی طرح کہا اور پنجاب کے اس بیوروکریٹ کا حوالہ بھی دیا۔ فائدہ یہ ہوا کہ اب جب بھی وہ اُس دفتر جاتا تو دفتر کے تمام لوگ بڑے احترام سے پیش آتے۔ مگراس کا بل اسے دینے کو کوئی تیار نہ تھا۔ ایک دن ایک چھوٹے اہلکار نے اسے پریشان دیکھ کر کہا کہ جناب آپ کی سفارش بہت بڑی ہے، مانتا ہوں، مگر یہاں جتنے لوگ بھی کام کر رہے ہیں ان کا براہ راست رابطہ شہباز شریف یا کسی بڑے سیاستدان سے ہے، اسی لئے اس اہم جگہ پر کام کر رہے ہیں۔آپ کچھ جوڑ توڑ کریں، مجھے امید ہے آپ کا کام بن جائے گا۔ پوچھنے پر اس نے ایک شخص کا پتہ بھی دیا جو اس کے خیال میں سب سے زیادہ مددگار ثابت ہو سکتا تھا۔ میرا دوست اس شخص کے پاس گیا تو اس نے پہلے تو صاف انکار کیا کہ کام ہو ہی نہیں سکتا۔ کیوں نہیں ہو سکتا؟ کوئی ہیراپھیری کی ہے کیا، جائز رقم ہے تو پھر کیوں نہیں مل سکتی ہے؟ اس نے جواب دیا مانتا ہوں کہ جائز ہے، مگر قانونی طور پر ہم مجبور ہیں۔ فلاں وجہ سے یہ نہیں ہو سکتا، فلاں قانون بہت بڑی رکاوٹ ہے۔

میرے دوست کو تین ماہ سے خراب کیا جا رہا تھا، متعلقہ افسرسے اس نے کہا کہ بتاؤ میری رقم دینے کے کتنے پیسے لوگے؟ یہ سودا میرے اور تمہارے درمیان ہے۔ اس نے بہت بڑی رقم مانگی۔ میرے دوست نے کہا بھائی چوری کا مال نہیں، میری ذاتی رقم ہے، میرا جائز حق ہے۔ خیر بحث کے بعد ایک بڑی معقول رقم طے ہو گئی مجبوری تھی۔متعلقہ افسر نے کہا کہ وہ دیکھتا ہے۔ اسے کیس میرے دوست کے حق میں بنانے پر ایک ہفتہ لگ جائے گا۔ وہ پیسے ایڈوانس مانگ رہا تھا مگر میرے دوست نے کہا کہ جب وہ اس کی رقم کا چیک دے گا، اس کا حصہ اسی وقت ادا کر دوں گا۔ ہنس کر کہنے لگا یعنی ایک ہاتھ دے، ایک ہاتھ لے۔ میرے دوست نے پھر بتایا کہ رقم کا اندراج غلط ہے، میں نے تصحیح کی درخواست بھی دی ہے۔ جواب ملا وہ بھی کرا دوں گا اور اسی شرح سے میرا حصہ آپ مجھے دیں گے۔ میرے دوست نے جاتے ہوئے اسے درخواست کی کہ اسے اس کے حصے کی رقم دینے کے لئے کچھ وقت درکار ہوگا۔ وعدے کے مطابق وہ جب آٹھ، دس دن میں وہ چیک تیار کروا لے گا تو ایک دن پہلے بتا دے تا کہ اس کی رقم کا بندوبست کر لوں۔ اگلے دن میرا دوست گھر بیٹھا تھا تو اس افسر کا فون آیا کہ رقم تیار ہے، ہم نے تصحیح بھی کر دی ہے۔ اب آپ میرے حصے کی کل اتنی رقم لے کر آدھے گھنٹے میں آجائیں اور اپنا چیک لے جائیں۔یہ کرپشن کا کمال تھا کہ دس دنوں کا کام ایک دن میں ہی ہو گیا۔ پیسوں کا بندوبست کرتے میرے دوست کو ڈیڑھ گھنٹہ لگا۔ اور جب وہاں پہنچا اور ایک ہاتھ دے، ایک ہاتھ لے، فوراًچیک لے کر آگیا۔ کرپشن زندہ باد۔ واقعی اب تو ایمانداری اور سفارش میں خواری ہی رہ گئی ہے۔ یہ ہمارے سیاستدانوں کا دیا ہوا عظیم کلچر ہے۔اور اس کے خاتمے کے لئے عظیم ترین قربانیوں کی ضرورت۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 501841 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More