تحریر:براء الحلبی(بلاگرہفنگٹن پوسٹ،عربی)
ترجمانی:نایاب حسن
’’میری تین دوستوں میں سے ایک مرچکی ہے،دوسری کاگھربمباری میں تباہ
ہوگیااور تیسری دوست کے والداوربھائی دونوں مرچکے ہیں‘‘ان الم انگیزالفاظ
کے ذریعے ایک شامی بچی’’بانا‘‘ان ہزاروں شامی بچوں پرگزرنے والے مشکل حالات
کی ترجمانی کرنے کی کوشش کررہی تھی،جن کے والدین اور وہ تو کسی طرح شامی
حکومت اورروسی افواج کی بمباری سے بچ گئے؛ لیکن انھوں نے اپنے دوستوں اور
اعزہ و اقرباکوکھودیا۔باناجواس وقت حلب میں سخت روسی و شامی افواج کی
بمباریوں کی زدمیں اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہ رہی ہے،اس نے اِن دنوں اپنے
ٹوئٹس کی وجہ سے لوگوں کی توجہ اپنی جانب کھینچ لی ہے،اس کا ٹوئٹراکاؤنٹ
alabedbanna@کے نام سے ہے،جسے اس نے24؍ستمبرکوشروع کیاتھا، اوراِس وقت اس
کے چار ہزار سے زیادہ فالوورس ہیں۔ اس نے اپنے پہلے ٹوئٹ میں لکھاتھا’’میں
امن چاہتی ہوں‘‘برطانوی اخبار’’دی گارجین‘‘کی ایک رپورٹ کے مطابق اس لڑکی
کی عمرصرف سات سال ہے، ’’ہفنگٹن پوسٹ عربی‘‘سے بات کرتے ہوئے اپنے
ٹوئٹراکاؤنٹ کے بارے میں اس نے مقامی لہجے میں کہا’’مجھے لگاکہ فیس بک کے
مقابلے میں ٹوئٹر کے ذریعے میں اپنی بات دنیاکوبہتر طریقے سے پہنچاسکتی
ہوں‘‘جب ہم نے اس سے پوچھاکہ وہ جنگ کے بارے میں کیاسمجھتی ہے؟تواس نے کہا
’’جنگ بہت بری چیزہے؛کیوں کہ اس کی وجہ سے ہم مارے جارہے
ہیں،میراچھوٹابھائی بہت خوف زدہ رہتاہے،رات کوہم سونہیں پاتے،میرا اسکول بم
سے زمیں دوزکردیاگیاہے، جس کی وجہ سے میں پڑھنے نہیں جاسکتی‘‘۔جب اس سے یہ
پوچھاگیاکہ وہ کیاچاہتی ہے؟تواس نے کہا ’’میں چاہتی ہوں کہ میرے شہرسے
محاصرہ ختم کردیاجائے،بمباریوں کاسلسلہ بندہو اورہم پرامن زندگی
گزارسکیں‘‘۔جب اس سے پوچھاگیاکہ وہ ان مشکل حالات میں میں بھی حلب میں کیوں
قیام پذیرہے؟تواس کاجواب تھا’’مجھے یہ شہربہت محبوب ہے اورمیں اسے
چھوڑکرکہیں نہیں جاناچاہتی‘‘۔یہ سات سالہ بچی جودوسری کلاس کی طالبہ ہے، نہ
صرف طیارہ اور میزائل کے درمیان فرق سے واقف ہے؛بلکہ وہ روسی افواج کے
ذریعے حلب پربرسائے جانے والے مختلف قسم کے ہلاکت ناک بموں کے ناموں سے بھی
واقف ہے،وہ کہتی ہے’’مجھے ڈر لگارہتاہے کہ کہیں یہ لڑاکاطیارے ہمیں مار نہ
دیں،یہ نہایت ہی وحشت انگیزہوتے ہیں‘‘ پھر وہ بچی اپنے معصوم لہجے میں ان
طیاروں کی خوفناک گڑگڑاہٹ کوبیان کرنے کی کوشش کرتی ہے اورکہتی ہے
’’بشارالاسد کو بچوں پر ذرا رحم نہیں آتا؛اس لیے وہ انھیں بموں سے ہلاک
کردیناچاہتاہے‘‘۔
چوں کہ وہ ابھی چھوٹی بچی ہے اورحالات کتنے بھی ناگفتہ بہ ہوں،بچے اپنی
تفریح کاموقع اور وقت نکال ہی لیتے ہیں؛چنانچہ یہ بچی بھی روسی و شامی
بمباریوں کے باوجودکچھ ایسے اوقات نکال لیتی ہے،جن میں وہ اپنی سہیلیوں اور
دوستوں کے ساتھ کھیلتی ہے،کہتی ہے’’جب راہ پرسکون اورمامون ہو،تومیں کبھی
کبھی اپنے والدکے ساتھ باہر نکل جاتی ہوں اور اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلتی
ہوں،جب گھرمیں رہتی ہوں تواس وقت بھی اپنے بھائیوں،چچازادبہن اور دوستوں کے
ساتھ کھیلتی ہوں‘‘۔باناکی روزمرہ کی یہ رودادسوشل سائٹ ٹوئٹرکے ذریعے مغربی
ملکوں تک بھی پہنچ چکی ہے،اس میں دراصل اس کے والدین کارول ہے،اس کی والدہ
انگریزی زبان کی معلمہ ہے اوربسااوقات وہی اپنی بیٹی کے احساسات کوانگریزی
زبان میں ٹوئٹرپرلکھتی ہے۔’’دی گارجین‘‘ نے اس بچی کے والدین کے حوالے سے
اس کے نفسیاتی خوف کاایک واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھاہے کہ بسااوقات
اردگردہونے والی بمباریوں اوران کی وجہ سے اچانک گھرکے اندرآنے والی چھماکے
کی روشنی سے گھبراکروہ شام کے وقت بھی نیندسے اٹھ بیٹھتی اورپوچھتی ہے کہ
کیاصبح ہوگئی؟اس کی ماں فاطمہ نے اسکائپ کے ذریعے ہفنگٹن پوسٹ سے بات کرتے
ہوئے کہاکہ اردگردموجودعمارتوں پرگرنے والے بموں سے جتناوہ عمارتیں لرزتی
ہیں،اس سے زیادہ ہمارے اورہمارے بچوں کے دل دہلنے لگتے ہیں۔
’’دی گارجین‘‘ نے لکھاہے کہ حلب میں روسی و شامی افواج کی مشترکہ بمباریوں
سے نہایت ہی بے رحمانہ طریقے پر معصوم بچوں کاقتل ہوا اور ہورہا ہے، اب تک
کم ازکم سوبچے جاں بحق، جبکہ ہزاروں زخمی ہوچکے ہیں،وہاں موجودہسپتال
زخمیوں سے بھرے ہوئے ہیں،یونیسکوکے بیان کے مطابق29؍ستمبرتک سو بچے مارے
جاچکے تھے،جبکہ اس کے بعدسے تاحال بھی جبروتشدداور بمباریوں کاسلسلہ جاری
ہے،کسی طرح بانااوراس کامختصرساخاندان بچاہواہے اوروہ معصوم بچی سوشل سائٹ
کاسہارالے کرعالمی برادری کومتوجہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے،یہ بچی اپنے
خیالات کے اظہار کے لیے عموماً اپنی ٹوٹی پھوٹی انگریزی زبان کاسہارالیتی
ہے اورکبھی کبھی اس کی ماں فصیح انگریزی زبان میں اس کی ترجمانی کرتی ہے۔جب
فاطمہ سے پوچھاگیاکہ انھوں نے اپنے احساسات کے اظہار کے لیے
ٹوئٹرکاسہاراکیوں لیا؟توانھوں نے جواب دیاکہ ایک باران کی بیٹی نے بڑے
معصوم اورپردردلہجے میں پوچھاکہ’’ہماری چیخ پکاردنیاوالے کیوں نہیں سن
رہے؟ہماری مددکے لیے کوئی کیوں نہیں آگے بڑھتا؟‘‘توہم نے ٹوئٹرکوذریعہ
اوروسیلہ کے طورپراختیارکیا؛تاکہ ہم اپنی معصوم بچی کی آواز اور اس کے
پژمردہ معصوم احساسات سے دنیاوالوں کوباخبرکرسکیں۔انھوں نے بتایاکہ چوں کہ
ان کی بچی کااسکول بمباریوں کی نذرہوچکاہے اورایک اسکول ہے بھی، تو وہ کافی
دورہے اورراستہ بھی پرخطرہے؛اس لیے وہ اپنی بیٹی اورپانچ سالہ بیٹے
کوگھرمیں ہی پڑھاتی ہیں۔جب ان سے سوال کیاگیاکہ انھوں نے دوسرے بہت سے
لوگوں کی طرح جنگ شروع ہوتے ہی ہجرت کیوں نہیں کرلی،توان کاجواب تھاکہ ان
کاخیال تھاکہ بس زیادہ سے زیادہ سال دوسال میں یہ خانہ جنگی ختم ہوجائے
گی،مگریہ سلسلہ درازہوتاگیااور اہم مصائب کی دلدل میں پھنستے چلے
گئے،پھرانھوں نے وطن سے بے پناہ محبت کاحوالہ دیتے ہوئے بھی ہجرت نہ کرنے
کی وجہ بتائی۔
حلب کے جنگ زدہ علاقے میں سب سے زیادہ پریشانیاں بچوں اور ان کے والدین
کوجھیلنا پڑرہی ہیں،نہ صرف یہ کہ یہ بچے قلتِ تغذیہ سے دوچار ہیں؛ بلکہ اس
کے ساتھ ساتھ دوسری ضروریاتِ زندگی بھی انھیں میسرنہیں ہیں،روشنی کے لیے
بجلی اور کھانابنانے کے لیے گیس تک مہیانہیں ہے،سبز یاں ، چاول، دال بھی
دستیاب نہیں ہیں،جب کبھی بمباری کاسلسلہ کم ہوتاہے اورراستے پرلوگوں کی
آمدورفت شروع ہوتی ہے،وکانیں اور بازارکچھ دیرکوکھلتے ہیں، توبہت سے لوگ اس
وقت بھی اس خوف سے اپنے بچوں کولے کرباہر نہیں جاتے کہ مباداوہ کوئی ایسی
چیزنہ مانگ بیٹھیں ،جس کاحصول ان کی استطاعت سے باہر ہو۔ حلب ایک مکمل
محصورآبادی میں تبدیل ہوچکاہے ،جہاں باہرسے کوئی امدادوفریادرسی کی توقع
تونہیں کی جاسکتی،البتہ شامی حکومت یاروسی افواج کی ہلاکت ناک بمباری کبھی
بھی کسی بھی محلے کونیست و نابودکرسکتی ہے۔بانا،اس کی والدہ اوراس کے
والدغسان العبدجوپیشے سے ایک وکیل اورہیومن رائٹس ایکٹیوسٹ ہیں،انھوں نے
ٹوئٹرکے ذریعے صرف اپنی بچی اوراس کودرپیش مشکلات ہی سے عالم کوآگاہ نہیں
کیاہے؛بلکہ یہ اندوہ ناک صورتِ حال پورے حلب کی ہے اوراس کی زدمیں وہاں کے
سیکڑوں ہزاروں بچے ،بچیاں ہیں۔
اِس وقت شام ایک ایسا اسٹیج بناہواہے،جس پر عالمی طاقتیں اپناخونیں ڈرامہ
کھیل رہی ہیں اورمواقع فراہم کرنے والاوہاں کاغیر قانونی،ظالم وسفاک حکمراں
بشارالاسداوراس کے حواری ہیں۔یورپ و امریکہ اپنی اپنی برتری کے ثبوت کی
خاطر شام اورشامی شہریوں کوخاک و خون میں تڑپارہے ہیں،وہ ملک جوپانچ چھ سال
قبل اچھاخاصاآبادوشاداب تھا،آج وہاں خاک اڑرہی ہے،اس کی ساری خوبصورتیوں
کوبارودنے چاٹ لیاہے اورساری جغرافیائی،عمرانی و سیاحتی خوبیاں اب ماضی کے
پیکر میں ڈھل چکی ہیں۔موجودہ صورتِ حال یہ ہے کہ گزشتہ بیس دنوں سے حلب میں
باہرسے کوئی غذائی اجناس نہیں جارہا ہے، چوں کہ شہرکے 75فیصدعلاقوں
پرمزاحمتی جماعتوں کاقبضہ ہے؛اس لیے شامی فوج اوراس کی حلیف فوجیں شہرکی
مکمل ناکہ بندی کیے ہوئی ہیں اور مختلف حصوں پر لگاتاربمباری کررہی
ہیں۔وقتاً فوقتاً ان حالات پر قابوپانے کے لیے معاہدے بھی ہوئے ہیں،مگر
مسئلہ یہ ہے کہ ان کی اساس نیک نیتی پر ہو، تبھی توان کاکوئی مثبت نتیجہ
نکلے،اِس وقت روس کوبوجوہ یورپ اور پوری دنیامیں اپنی برتری ثابت کرنے
کابھوت سوارہے،سووہ کسی بھی معاہدے کی پاسداری سے اپنے آپ کوبالاتر سمجھ
رہاہے،شامی خانہ جنگی میں روس کی شمولیت کے بعدحالات مزیددگرگوں ہوئے
ہیں،دوسری جانب امریکہ ،فرانس وغیرہ ہیں جو بظاہر توشام کی موجودہ غیر
قانونی حکومت کی مخالفت کرتے ہیں،مگر خداجانے درونِ پردہ کیاگل کھلارہے ہیں
کہ خود ان کی کوششوں کے باوجود بھی شام کے حالات ہیں کہ پرامن ہوکے نہیں دے
رہے۔
بہر کیف شامی خانہ جنگی(جوعالمی طاقتوں کے لیے جنگی تجربہ گاہ بن چکی
ہے)کاخاتمہ کب ہوگااور اس کی صورت کیا ہوسکتی ہے،اس سے قطعِ نظرکرتے ہوئے
بانااوراس جیسے دوسرے ہزارہاشامی بچوں کی معصوم فریادوں نے عالمی سطح پر
لوگوں کے دلوں کومتاثرکیاہے،جس طرح گزشتہ سال دورانِ ہجرت ڈوب جانے والے
ایلان کردی اورکچھ دنوں پہلے حلب ہی کے عمران مقدونیش کی تصویروں نے عالمی
برادری کی اجتماعی حس پر کچوکہ لگایاتھا،اسی طرح بانا کے ٹوئٹس بھی عالمی
سطح پرانسانی حقوق کے لیے سرگرم افراد،اداروں کواپنی جانب متوجہ کررہے ہیں
اوروہ ان بچوں کی راحت رسانی،ان تک غذائی اجناس اور ضروریاتِ زندگی کی
ترسیل کے لیے تدبیریں کرنے میں جٹ گئے ہیں۔
|