مدھیہ پردیش میں مسلم خاتون کے ساتھ حیوانیت کے سلوک پر خاموشی

رام راجیہ مدھیہ پردیش میں ایک بار پھر ایک روح فرسا، دل دہلادینے والا، ملک کی گرد شرم سے جھکا دینے والا، عدالت کو منہ چڑھانے اور ٹھینگا دکھانے والا، انتظامیہ ، مقننہ کی بے شرمی ثابت کرنے والا، مسلمانوں کے ساتھ امتیاز اور تعصب کو حتمی طور پر مہر ثبت کرنے والا شرمناک، المناک،وحشیانہ، جانوروں سے بھی بدتر،پوری دنیا میں درندگی کا انوکھا اور نادرمثال اور انسانی حقوق کمیشن کی بے حسی ،بے غیرتی، امتیازی سلوک اور صرف ہندؤں کیلئے کام کرنے کے الزام کو ثابت کرنے والا واقعہ پیش آیا ہے۔ جسے سن کر روح تک کانپ اٹھتی ہے۔ یہ سانحہ وزیر اعلی شیو راج سنگھ کے آبائی ضلع سیہور کا ہے۔ ایک تھانے دار نے ایک مسلم خاندان کے ساتھ ایسا گھناؤنا کام کیا ہے جس کی نظیر مشکل سے ملے گی۔ بھوپال سے تقریباً 80 کلو میٹر دور مدھیہ پردیش پولیس نے ایک خاندان کو بہو کے قتل کے جرم میں گھر سے اٹھایا۔ خاندان میں ماں، باپ، بیٹا اور 4 نابالغ بچے شامل ہیں۔ انہیں کئی دن تک تھانے میں بند رکھا۔بیٹے کو اس کی ماں کی پیشاب پلایا۔ پھر بیٹے کو ماں کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنے پر مجبور کیا۔اتنا ہی نہیں باپ کو بیٹے کا پیشاب پینے پر مجبور کیا اور غیر فطری عمل کرنے پر بھی مجبور کیا۔یہ گھناؤنا کام ان کے بچوں کے سامنے کروایا گیا۔

میڈیا اور دیگر باوثوق ذرائع سے ملنے والی اطلاع کے مطابق کے مطابق سیہور کے صدیق گنج میں رہنے والی خاتون کے بیٹے کی شادی تین سال پہلے بھوپال کی رہنے والی ایک لڑکی سے ہوئی تھی۔ شادی کے دو سال بعد لڑکی اچانک گھر سے غائب ہوگئی۔ اس پرلڑکی والوں نے لڑکی کے غائب ہونے کی رپورٹ صدیق گنج گج تھانے میں درج کرائی تھی۔ ایک دن اچانک سیہور پولیس لڑکی کے سسرال کے تمام لوگوں کو اٹھا کر تھانے لے آئی۔ ان میں لڑکی کی ساس ،شوہر اور سسر کے علاوہ چار نابالغ بچے بھی شامل تھے۔ معلومات کرنے پر پتہ چلا کہ لڑکی کے بھائی نے اس کے اہل خانہ پر قتل کا الزام لگایا ہے۔ اس پر متاثرہ خاندان نے بھی قانون کا سہارا لیا اور ایک وکیل کیا۔متاثرہ خاندان کے وکیل وریندر پرمار نے بتایا کہ پولیس نے اس کے اہل خانہ کے ساتھ 15 دنوں تک مار پیٹ کی اور انہیں بہوکے قتل کا جرم قبول کرنے کے لئے کہتے رہے۔ جب خاندان کے ارکان نے جرم کا اعتراف نہیں کیا تو پولیس نے لڑکے کو ماں کا پیشاب پلایااور دونوں کو تھانے میں جنسی تعلقات قائم کرنے کے لئے مجبور کر دیا۔ جبکہ، لاپتہ بہوکو بھوپال میں ہی ڈھونڈ لیا گیا ہے اور وہ زندہ ہے۔متاثرہ خاندان کی خاتون نے بتایا کہ ہم سب کہتے رہے کہ ہم نے قتل نہیں کیا۔ لیکن، پولیس اہلکار ہماری بات سننے کو تیار نہیں تھی۔ میرے پورے خاندان کو بری طرح سے مارا۔ ایک پولیس والے میرے بیٹے کو پیشاب پلایا اور میرے ساتھ تعلقات بنانے کے لئے مجبور کر دیا۔ میرے چار چھوٹے بچوں کے سامنے تھانے میں ہم سب کے ساتھ مار پیٹ کی گئی اور گندی گندی گالیاں دی گئی۔ ہمیں انصاف چاہئے، اس کے لئے ہم نے کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔جس عورت کے قتل کا الزام لگا وو خواتین بعد میں کسی دوسرے علاقے سے ڈھونڈ نکالی گئی جب متاثرہ خاندان نے اپنے اوپر ہونے والے جرم کی داستاں کی رپورٹ تھانے میں درج کرانی چاہی تو وہاں تعینات پولیس اہلکاروں نے انہیں تھانے سے ہی بھگا دیا۔ جس کے بعد متاثرہ خاندان کو عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا۔ متاثرہ کے وکیل وریندر پرمار کا کہنا ہے کہ انہوں نے ملزم پولیس اہلکاروں پر کارروائی کو لے کر وزیر اعلی شیوراج سنگھ چوہان، پولیس ڈی جی پی اور ہوم منسٹر کے آگے بھی فریاد ہے لیکن کسی کی طرف سے ابھی تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے۔

اس شرمناک واقعہ کے بارے میں نہ تو ٹی وی چینل اور نہ ہی قومی میڈیامیں اس خبر کو جگہ دی گئی۔ جب کہ یہ ایسا واقعہ ہے اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے اور پولیس اہلکاروں کو جتنی سخت سزا دی جائے کم ہے۔ لیکن خاموشی سے واقعہ کو پوری طرح دبا دیا گیا۔مدھیہ پردیش کے ہی مندسور اور رتلام مسلم خواتین کے ساتھ پٹائی کا معاملہ پیش آیا تھا اور گورکشک دل کے غنڈوں نے پولیس اور عوام نے سامنے نہ صرف پٹائی کی تھی بلکہ دست درازی بھی کی تھی۔ اس کے ملزم بھی آزاد گھوم رہے ہیں۔ توہین رسول کے ملزم اکھلیش تیواری پر اترپردیش حکومت قومی سلامتی ایکٹ ہٹادیا ہے جس کی وجہ سے اس کی ضمانت کا راستہ صاف ہوگیا ہے۔جھارکھنڈ میں مسلم نوجوانوں کو درخت پر لٹکا پھانسی دے دی گئی اس کے ملزمین کو بی جے پی حکومت نے ضمانت دے دی۔ جھارکھنڈ کے ہی منہاج انصاری کو گائے کے گوشت کے الزام میں تھانے میں قتل کردیا گیا۔اس کے ہر سال درجنوں مسلم نوجوانوں کو تھانے اور جیل میں اذیت دیکر قتل کردیا جاتا ہے۔ گجرات میں گورکشک کے پیٹنے سے محمد ایوب کی موت ہوگئی۔ بجنور میں ہندوؤں نے مسلم لڑکی کو چھیڑا اور مخالفت کرنے پر پانچ مسلمانوں کو قتل کردیا۔ ہریانہ گورکشک دل اور آر ایس ایس کے غنڈوں نے دو نابالغ لڑکیوں کی اجتماعی آبروریزی کی اور مردہ سمجھ کر چھوڑ گئے۔ اس سے پہلے دو مردوں قتل کردیا۔کشمیر میں مسلم خواتین کی آبرویزی کے واقعات ہوتے ہیں لیکن میڈیا میں سرخی نہیں بنتی،معصوم بچوں کاقتل اور انہیں جیل میں ٹھونسا جاتا ہے لیکن انسانی حقوق کمیشن کے سرجوں تک نہیں رینگتی۔پلیٹ گن کا استعمال سے درجنوں بچے ، عوتیں مرچکی ہیں لیکن ہائی کورٹ کو بھی یہ غلط نظر نہیں آتا۔کشمیر میں کرفیو کو تین ماہ سے زائد ہوگئے ہیں لیکن انتظامیہ معمول کی صورت حال بحال کرنے میں ناکام رہی ہے۔کشمیر میں عملاً مرکز کی حکومت ہوتی ہے اوروہاں کی منتخب حکومت کو محض پیادہ درجہ حاصل ہوتا ہے۔ اس لئے مظالم کا سلسلہ دراز سے درازتر ہوتا جارہا ہے۔اس طرح کے واقعات ہندوستان میں روز مرہ کی زندگی کا حصہ بن گئے ہیں ۔کسی میں کسی کو سزا نہیں ملتی، اگر کوئی کارروائی ہوتی ہے تو صرف خانہ پری کے لئے۔یہ ساری چیزیں بتاتی ہیں کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ ظلم و زیادتی روا رکھی جائے گی اور ظلم کرنے والے جج، رکن اسمبلی، رکن پارلیمنٹ سے لیکر وزیر اور وزیر اعظم تک بنیں گے۔

تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ ظلم کرنے والوں کی ہندوستان میں کس قدر عزت افزائی کی جارہی ہے ۔ اس کی تازہ مثال دادری کے اخلاق کے قاتل کا ہے۔ دادری میں اخلاق کے وحشیانہ قتل کے ملزم22 سالہ رون عرف روی کی گردے کی خرابی کی وجہ سے موت ہوگئی۔بساہڑامیں ٹھیک ایک سال پہلے ہجوم نے محمد اخلاق کو پیٹ پیٹ قتل کر دیا تھا اور اخلاق کے خاندان پر حملہ کردیا تھا۔ ٹھیک ایک سال بعد بساہڑا میں پھر ایک موت ہوئی ہے اور یہ موت چکن گنیا سے ہوئی ہے جیسا کہ دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے۔ لیکن اس بار مرنے والا کسی بھیڑ کا شکار نہیں ہوا ہے اور نہ ہی کسی حادثے میں موت ہوئی ہے بلکہ اخلاق کی ہی موت کے معاملے میں ملزم تھا اس پر قتل کا الزام تھا جس کی عدالتی حراست میں 4 اکتوبر کو موت ہو گئی تھی اور موت کے بعد بھی کئی روز تک اس کی آخری رسم ادا نہیں کی گئی تھی ۔ اس لاش پر سیاست شروع ہو گئی تھی اور اس ترنگے میں لپیٹ گاؤں میں رکھا گیا ہے۔لاش کے ارد گرد گاؤں والوں کا مجمع تھا اور ان کا مطالبہ تھا کہ رون کو شہید کا درجہ دیا جائے۔ اس مطالبے کے پیچھے کتنی سیاست ہے کتنی حقیقت اس کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ نام نہاد ہندو لیڈر مسلسل بساہڑا پہنچ گئے۔ مرکزی وزیر سیاحت ایک قتل کے ملزم کو جاکر سلام پیش اور خراج عقیدت پیش کر رہے تھے۔کئی لیڈر اپنے اشتعال انگیز تقریر سے ماحول کو دوبارہ ایک سال پہلے جیسے فرقہ وارانہ رنگ میں رنگنا چاہتے تھے۔سیاست کی بات چھوڑ بھی دی جائے تو کیا کسی ایسے شخص کے لاش کو ترنگے میں لپیٹنا جانا جس پر کسی کے قتل کا الزام لگا ہوکتنا درست ہے؟ ترنگا ملک کے لئے مرنے والے لوگوں کی لاش پر رکھا جاتا ہے۔تشویشناک بات یہ ہے کہ وہی لیڈر جو قوم پرستی اور مذہب کی بات کرتے ہیں انہیں ہی یہ سب دکھائی نہیں دے رہا ہے جو ترنگے میں لپیٹ ہوئے لاش پر اپنی سیاسی روٹیاں سینک رہے ہیں۔ چند ماہ بعد یوپی میں اسمبلی انتخابات ہونے کو ہیں اور اس کے فوائد کے لئے ایسے تنازعات کو ہوا دینا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہندوستان میں ہر سال لاکھوں لوگ گردے کی بیماری سے مرتے ہیں۔ ان میں بچے سے لیکر عمر دراز کے لوگ شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق روی کی موت گردے فیل ہونے کی وجہ سے لوک نائک جے پرکاش اسپتال میں ہوئی۔ اس پر انسانی حقوق کمیشن نے از خود نوٹس لیکر چار ہفتے کے اندر یوپی حکومت سے جواب طلب کیا ہے۔ بھگوا پارٹی کے لیڈر اور اس سے وابستہ تنظیموں کے رہنما روی کو شہیدی درجہ دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔دادری میں کئی دنوں حالات کشیدہ ہیں۔ وہاں سے مسلم نوجوان خوف و دہشت کی وجہ سے چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ مسلمانوں کے خلاف زہر اگلا جارہا ہے۔ یہ زہر افشانی، گالی گلوچ اور مسلمانوں کو سبق سکھانے کی باتیں پولیس انتظامیہ کے سامنے ہوتی ہے۔ بھگوا نظریہ کے علمبردار لیڈروں کا بساہڑا آنا جانا ہے۔ وہ جلسہ عام کرکے مسلمانوں کو سبق سکھانے کی بات کر ہے ہیں۔ ایک ماروگے ہم چار ماریں گے کا نعرہ لگار ہے ہیں۔سرے عام مسلمانوں کو دھمکیاں دی جارہ ہیں۔ بساہڑو ں سے ہجرت کرنے پر مجبور ہیں۔ حالات اس قدر کشیدہ ہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہاں انتظامیہ نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ ہندو انتہا پسندوں کے مطالبہ پر اترپردیش حکومت نے جیل سپرنٹنڈنٹ کو ہٹادیا ہے۔ ایسا محسوس کرایا جارہا ہے کہ روی کوئی محاذ جنگ جیت کر آیا ہے یا وہ پاکستانی فوج کا چھکے چھڑا کر آیا ہے۔ انہوں نے ہندوستان کا بہت بڑا معرکہ سرکیا ہے۔ ترنگا میں کسی ملزم یا مجرم کو لپیٹا نہیں جاتا ہے۔ یہ ترنگا کی توہین نہیں ہے۔ یہ ایسی توہین ہے اس کی کی سزا خواہ کتنے لوگ کیوں نہ ہو سزا دی جانی چاہئے۔ قانون امن اور انصاف کے قیام کے لئے اگر ایک بھیڑ کو سزا دی جاسکتی ہے۔ کیوں کہ انہوں نے ہندوستان کے آئین کے کھیلواڑ کیا ہے۔ لیکن حکومت انتظامیہ، عدلیہ، میڈیا، انسانی حقوق کمیشن اور دوسری ساری ایجنسیاں خاموش ہیں۔ کیوں کہ ایسا کرنے والا کوئی مسلمان نہیں ہے۔ اگر خدا نہ نخواستہ کوئی مسلمان اس طرح کی حرکت کرتا تو اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جاتی ۔ پورے گاؤں کا محاصرہ کرکے سب کی گرفتاری کی جاتی ہے۔ مسلم خواتین کے آبروریز کا سانحہ پیش آتا۔ عدلیہ، مقننہ، انتظامیہ، میڈیا کو جوش آگیا ہوتا ہے۔ ترنگا کی توہین کے سلسلے میں رات دن بے تکی اسٹوری چلاتے۔ عدالت از خود نوٹس لیتی، انسانی حقوق کمیشن کو چین نہیں آتا۔ لیڈروں گلا پھا ڑ پھاڑ کر چلاتے، ٹی وی اینکرکا بھونکتے بھونکتے گلا سوکھ جاتا۔ ہندی اخبارات صفحات کا صفحات سیاہ کردیتے لیکن چوں کہ روی اخلاق کا مبینہ قاتل ہے اور عدالت میں قتل کے الزام میں اس پر مقدمہ چل رہا تھا۔اس لئے جمہوریت کے سارے ستون خاموش ہیں۔پولیس ان کے لوگوں کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کی ہمت نہیں کر پارہی ہے۔ کوئی لیڈر ترنگا کی توہین پر منہ نہیں کھول رہا ہے۔ٹی وی پر ڈیبٹ نہیں ہورہا ہے۔حب الوطنی کا کوئی جنبش نہیں ہے۔ کیا ہندوستانی جمہوریت کو یہ دن بھی دیکھنا تھا جب قاتل شہید ہونے کا مطالبہ کر رہا ہے۔اترپردیش کی سماج وادی حکومت نے ہندو انتہا پسندوں کے گردن جھکاتے ہوئے قتل کے ملزم کو 25لاکھ روپے کا معاوضہ ، بیوی کو نوکری وغیرہ دیکر نہ صرف ایک غلط نظیر قائم کی ہے بلکہ انتہا پسندوں کی حوصلہ افزائی کی ہے اور یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ مسلمانوں کو قتل کرنے کے عوض معاوضہ دیا جائے گا۔ مظفرنگر اور یوپی کے دیگر حصوں میں فساد کرنے والوں کو اعزاز دینے والی اکھلیش یادو حکومت کا نظریہ صاف ہوگیا ہے اور اس میں کسی شک و شبہہ کی گنجائش نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوانتہا پسند بغیر کسی خوف کے مسلمانوں کاقتل کرتے ہیں اور حکومت سے انعام پاتے ہیں۔یہاں کے عوام انہیں ہیرو بناتے ہیں اور کارپوریشن، اسمبلی سے لیکر پارلیمنٹ تک پہنچاتے ہیں۔

اس وحشیانہ قاتل کے تئیں اس قدر ہمدردی سے ہم ملک کے بارے میں دوسرے ممالک کو کیا پیغام دینا چاہئے ہیں۔ کیا ہم دنیا کو بتانا چاہتے ہیں کہ یہ اس ملک میں امن و قانون نہیں ہے۔ اکثریتی طبقہ کو آزادی ہے کہ وہ اقلیتی طبقہ کے ساتھ جس طرح چاہے سلوک کرے۔ پولیس اور انتظامیہ اس کا کچھ نہیں بگاڑے گی۔ مسلمانوں کے ساتھ ہر طرح کے ناجائز سلوک روا رکھا جاسکتا ہے۔ان واقعات سے یہی پیغام پوری دنیا میں گیا ہے۔ہندوستانی میڈیا یہ سمجھتا ہے کہ وہ اگر اس طرح کے دلدوز سانحہ کو نظر انداز کرے گا تو یہ بات لوگوں تک نہیں پہنچے گی۔پوری دنیا کے میڈیا ہندوستانی میڈیا کی کرتوت کو دیکھ رہا ہے۔ مدھیہ پردیش میں جو کچھ ہوا ہے اس کا حساب چکانا پڑے گا۔ اس نا انصافی کی گونج پوری دنیا میں سنی جائے گی۔ حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ پولیس اہلکار کے خلاف اب تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے اور نہ ہی حقوق کے علمبردار تنظیم کا کوئی بیان آیا ہے۔ رون کی موت پر انسانی حقوق کمیشن از خود نوٹس لیتا ہے لیکن مسلم خاتون کی زیادتی پر انسانی حقوق کمیشن کو سانپ سونگھ جاتا ہے یا وہ ہندوتوا کا لبادہ اوڑھ کر سو جاتا ہے۔ دراصل اس طرح کے واقعات حکومت کی مرضی کے بغیر نہیں ہوسکتے۔ اس میں حکومت کے تمام عناصر شامل ہوتے ہیں۔ ایک ملزم کو نہیں پکڑتا، دوسرا سزا نہیں دیتا، تیسرا اس معاملہ کو نہیں اٹھاتا چوتھا اس طرح کے جرائم کی ہمت افزائی کرتا ہے۔اس طرح کے حالات پیدا کرکے مسلما نوں کے صبر و تحمل کا امتحان لینا چاہتے ہیں۔ یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ مسلمان کب تک برداشت کرتے ہیں۔مسلمانوں کی غیرت کب جاگتی ہے۔مسلمان کب ان واقعات کے خلاف سڑکوں پر اترتے ہیں یا پرتشدد واقعات انجام دیتے ہیں۔ وہ تاک میں ہیں کہ کب مسلمان تشدد کا راستہ اختیار کریں اور مسلمانوں کا قتل عام کرنے کا بہانہ مل جائے۔ انہوں نے سب سے زیادہ سبق اسرائیل سے سیکھا ہے ۔ وہ دیکھتے ہیں کہ اسرائیل روز فلسطینیوں کو مارتا ہے اور اس کا کچھ نہیں بگڑتا ۔ ہم بھی کیوں نہ مسلمانوں کو بڑے پیمانے پر تہ تیغ کریں۔دنیا ہمارا کیا بگاڑ لے گی۔لیکن ان فسطائی طاقتوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ہندوستان اسرائیل نہیں ہے اور نہ ہی یہاں کے مسلمان فلسطین کی طرح ہیں۔
Abid Anwar
About the Author: Abid Anwar Read More Articles by Abid Anwar: 132 Articles with 87183 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.