سورۃ النصر میں نبی اکرم ﷺ کو اﷲ کے ذکر اور استغفار کرنے کی تعلیم

بسم اﷲ الرحمن الرحیم
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبّ الْعَالَمِیْن، وَالصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِیمِ وَعَلٰی اٰلِہِ وَاَصحَابِہِ اَجْمَعِین۔

سب سے پہلے سورۃ النصر کا آسان ترجمہ پیش خدمت ہے: جب اﷲ کی مدد اور فتح آجائے، اور تم لوگوں کو دیکھ لو کہ وہ فوج در فوج اﷲ کے دین میں داخل ہورہے ہیں، تو اپنے پروردگار کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو اور اس سے مغفرت مانگو۔ یقین جانو وہ بہت معاف کرنے والا ہے۔

تین آیتوں پر مشتمل یہ مختصر سی سورۃ مدینہ منورہ میں نازل ہوئی۔ زیادہ تر مفسرین کے مطابق یہ سورۃ فتح مکہ سے کچھ پہلے نازل ہوئی تھی۔ اس میں یہ خوشخبری دی گئی ہے کہ مکہ مکرمہ فتح ہوجائے گا اور اس کے بعد لوگ جوق در جوق دین اسلام میں داخل ہوں گے۔ بعض مفسرین نے کہا ہے کہ یہ سورۃ حجۃ الوداع کے موقع پر نازل ہوئی، جس کے تین ماہ بعد (ربیع الاول ۱۱ ہجری) آپ ﷺ وفات پاگئے۔ یہ قرآن کریم کی آخری سورۃ ہے یعنی اس کے بعد کوئی مکمل سورۃ نازل نہیں ہوئی، البتہ بعض آیات اس کے بعد بھی نازل ہوئی ہیں۔

متعدد احادیث اور صحابۂ کرام کے اقوال سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سورۃ میں حضور اکرم ﷺ کی وفات کا وقت قریب آجانے کی طرف اشارہ ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے کہ جب یہ سورۃ نازل ہوئی تو آپ ﷺ نے صحابۂ کرام کے مجمع کے سامنے اس کی تلاوت فرمائی جس میں حضرت ابوبکر ، حضرت عمر اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اﷲ عنہم وغیرہ موجود تھے۔ سب اس کو سن کر خوش ہوئے کہ اس میں فتح مکہ کی خوشخبری ہے مگر حضرت عباس رضی اﷲ عنہ رونے لگے۔ رسول اﷲ ﷺ نے پوچھا کہ رونے کا کیا سبب ہے تو حضرت عباس رضی اﷲ عنہ نے عرض کیا کہ اس میں تو آپ کی وفات کی خبر پوشیدہ ہے۔ حضور اکرمﷺ نے اس کی تصدیق فرمائی۔ اس سورۃ میں حضور اکرمﷺ کی وفات قریب ہونے کی طرف اشارہ ہونے کی وجہ سے اس سورۃ کو سورۃ التودیع بھی کہا گیا ہے۔

قرآن کریم کی اس سورۃ میں مذکور اصول وضابطہ سے معلوم ہوا کہ انسان کو اپنی زندگی کے آخری ایام میں تسبیح واستغفار کا خاص اہتمام کرنا چاہئے۔ یعنی ویسے تو ہمیں پوری زندگی ہی اﷲ کے ذکر اور استغفار کے ساتھ گزارنی چاہئے۔ لیکن اگر بعض علامتوں سے محسوس ہو کہ موت کا وقت قریب آگیا ہے تو خاص طور پر استغفار کی کثرت کرنی چاہئے۔

فتح مکہ سے پہلے عربوں کی بہت بڑی تعداد کو حضور اکرم ﷺ کی رسالت اور اسلام کی حقانیت پر یقین تو ہوگیا تھا مگر قریش مکہ کی مخالفت کا خوف ان کے اسلام قبول کرنے سے مانع تھا۔ فتح مکہ کے بعد وہ رکاوٹ دور ہوگئی اور لوگ بڑی تعداد میں اسلام میں داخل ہونے لگے۔ اسی کی پیشن گوئی اس سورۃ میں دی گئی تھی۔ چنانچہ ۹ ہجری میں عرب کے گوشے گوشے سے بے شمار وفد حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر اسلام قبول کرنے لگے۔ اسی لئے اس سال کو سال وفود کہا جاتا ہے۔

قیامت تک آنے والے تمام انس وجن کے نبی حضرت محمد مصطفی ﷺ نے نبوت کے بعد صرف ۲۳ سالہ زندگی میں ایسا انقلاب برپا کیا کہ کفر وشرک وجہالت میں ڈوبی ہوئی قوم کے عقائد واعمال واخلاق کو ایسی بلندی پر پہنچادیا کہ وہ پوری دنیا کے لئے نمونہ بن گئے۔ جن حضرات سے بکریاں چرانی نہیں آتی تھیں، انہوں نے دنیا کے ایک بڑے حصہ پر ایسی حکومت پیش کی کہ رہتی دنیا تک ان کی مثال پیش کی جاتی رہے گی۔ ۲۳ سالہ نبوت والی زندگی میں عظیم کامیابی حاصل کرنے والے سارے نبیوں کے سردار کو جشن منانے کا نہیں بلکہ اﷲ تعالیٰ کا ذکر کرنے اور اس سے مغفرت طلب کرنے کا حکم دیا جاتا ہے اور وہ عظیم ہستی پوری عاجزی کے ساتھ اﷲ کے حکم کی تعمیل میں لگ جاتی ہے۔

فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْہ: حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ اس سورۃ کے نازل ہونے کے بعد حضور اکرم ﷺ جب کوئی نماز پڑھتے تو یہ دعا کرتے تھے: سُبْحَانَکَ رَبَّنَا وَبِحَمْدِکَ، اللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِی۔ (صحیح بخاری) حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ اس سورت کے نزول کے بعد آپ اٹھتے بیٹھتے اور آتے جاتے ہر وقت یہ دعا پڑھتے تھے۔ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہِ اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ وَاَتُوْبُ اِلَےْہِ اور فرماتے تھے کہ مجھے اس کا حکم دیا گیا ہے، اور دلیل میں اِذَا جَآءَ نَصْرُ اللّٰہِ کی تلاوت فرماتے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ اس سورت کے نزول کے بعد حضور اکرم ﷺ نے عبادت میں بڑا مجاہدہ فرمایا یہاں تک کہ آپ کے پاؤں مبارک میں ورم آجاتا۔

حضوراکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اﷲ کی قسم! میں اﷲ تعالیٰ سے روزانہ ستر سے زیادہ مرتبہ گناہوں کی معافی طلب کرتا ہوں۔ (صحیح بخاری ۔ باب استغفار النبی فی الیوم واللیلۃ) ہمارے نبی اکرم ﷺ گناہوں سے پاک وصاف اور معصوم ہونے کے باوجود روزانہ ستر سے زیاہ مرتبہ استغفار کیا کرتے تھے، اس میں امت مسلمہ کو تعلیم ہے کہ ہم روزانہ اہتمام کے ساتھ اﷲ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے رہیں، اس میں ہمارا ہی فائدہ ہے، جیسا کہ ہمارے نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص پابندی سے استغفار کرتا رہے (یعنی اپنے گناہوں سے معافی طلب کرتا رہے ) اﷲ تعالیٰ اس کے لئے ہر تنگی سے نکلنے کا راستہ بنادیتے ہیں۔ ہر غم سے اسے نجات عطا فرماتے ہیں۔ اور ایسی جگہ سے روزی عطا فرماتے ہیں کہ جہاں سے اس کو گمان بھی نہیں ہوتا۔ (ابوداود ۔ باب فی الاستغفار)

قرآن وحدیث میں اﷲ تعالیٰ کے ذکر کی متعدد فضیلتیں وارد ہوئی ہیں۔ صرف ایک حدیث پیش خدمت ہے کہ محسن انسانیت ﷺنے ارشاد فرمایا: اﷲ تعالیٰ کے ذکر سے بڑھ کر کسی آدمی کا کوئی عمل عذاب سے نجات دلانے والا نہیں ہے۔ عرض کیا گیا : اﷲ تعالیٰ کے راستے میں جہاد بھی نہیں؟آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جہاد بھی اﷲ تعالیٰ کے عذاب سے بچانے میں اﷲ تعالیٰ کے ذکر سے بڑھ کر نہیں، مگر یہ کہ کوئی ایسی بہادری سے جہاد کرے کہ تلوار چلاتے چلاتے ٹوٹ جائے، پھر تو یہ عمل بھی ذکر کی طرح عذاب سے بچانے والا ہوسکتاہے۔ (طبرانی، مجمع الزوائد) قرآن کی تلاوت اور نماز بھی اﷲ کا ایک ذکر ہے، لیکن قرآن وحدیث کی روشنی میں علماء امت نے تحریر کیا ہے کہ بعض اوقات خاص کر صبح وشام میں ہمارا کچھ وقت ضرور صرف اﷲ کی تسبیح، تحمید اور تکبیر پڑھنے کے ساتھ درود شریف اور استغفار پڑھنے میں لگنا چاہئے۔
 
Najeeb Qasmi
About the Author: Najeeb Qasmi Read More Articles by Najeeb Qasmi: 188 Articles with 164825 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.