بسم اللہ کے جس گنبد میں آج ہم سب
بیٹھے ہیں چند سال پہلے تک یہ کوئی خالہ جی کا باڑا نہ تھا 2013 سے پہلے کے
حالات چنداں بتانے کی ضرورت نہیں سب کو پتہ ہے کہ اس دور میں امن تھا تو
لغت میں ۔۔۔۔ 7 لاکھ 96 ہزار 96 مربع کلومیٹر کے علاقے میں یہ جنسدستیاب
تھی بھی تو کہیں کہیں پے۔۔۔ پھر 29 نومبر 2013 کو فوج کی کمان جنرل راحیل
شریف نے سنبھالی تو حالات نے کروٹ لی اور پھر وقت نے ثا بت کردکھایا کہ
جرنیلی چھڑی تھامنے کا انہوں نے حق ادا کردیا۔۔( پیپلے شاید اس پر بھی پھوں
پھاں کرتے ہوں گے )۔۔
تو بات ہو رہی تھی جرنیلی چھڑی کی ۔۔۔بہت سوں کے نزدیک جرنیلی چھڑی روایتی
مولا بخش قبیل کی کوئی شے ہو گی جو کم سنوں کے کمر پر جب پڑتی ہو تو نیل
چھوڑے بغیر ظلم ڈھانا بند نہ کرتی ہو یاپھر فیکے کوچوان کے اس چابک کی
مانند جس کا کام صبح شام گھوڑے کو پیٹنا لکھا ہے ۔ جرنیلی چھڑی نہ تو طفل
کش ہے نہ ہی اسپ کش بلکہ یہ تو دشمن کش ہے ۔ اس چھڑی کو انگریزی میں بیٹن
یا پھر کمانڈ کین کہتے ہیں انگریز جب برصغیر آئے تو وہ اپنے ساتھ یہ
ڈنڈاصغیر بلکہ ڈنڈی صغیر بھی ساتھ لائے تھے لیکن ہوتا یہ ہر وقت سپہ سالار
کےہاتھ ہی میں ۔۔۔۔ ہم چونکہانگریز کے نقش پا کے مسافر ہیں اسی لئے
انگریزوں کی ہر شے کو مقدس اور محترم تصور کرتے ہیں انگریز کی دیکھا دیکھی
ہم نے بھی اس روایت کو سینے سے لگائے رکھا بلکہ چھڑی کو تو ہم نے بغل میں
دبادیا اور یوں بیٹن کا چلن عام ہو گیا ۔ (واضح رہے کہ پاک بحریہ میں کمانڈ
سکرول اور پاک فضائیہ میں کمانڈ سوارڈ ہوتا ہے جو کمان کی تبدیلی کے وقت
نئے سربراہ کو دی جاتی ہے ) بیٹن ملا کا کین سے تیار ہوتی ہے اور یہ
سنگاپور سے منگوائی جاتی ہے۔ سنگاپور والوں کو ملاکا کی اہمیت کا کیا پتہ
،،وہ ٹھرے فیکٹریوں اور کارخانوں سے دھڑا دھڑ اشیا نکالنے کے ماہر ۔۔۔ چھڑی
کی اہمیت تو کوئی ہم سے پوچھے جو اسی کے سہارے جیتے ہیں ۔جرنیلی چھڑی کی
لمبائی دو فٹ کے لگ بھگ ہوتی ہے اور بانسی لکڑی ہونے کی وجہ سے اس میں کئی
گا نٹھیں ہوتی ہیں جو اس کی خوب صورتی میں اضافے کا باعث بنتی ہیں۔
بیٹن کہلائی تو جاتی ہے کمانڈ کین۔۔۔۔لیکن پاکستان آرمی میں یہ ون اسٹار
افسر یعنی بریگیڈیئر اور اس سے اوپر کے افسروں کو دی جاتی ہے اور یہ کسی
عہد ے کی ذمہ داریوں کی منتقلی کا صرف علامتی نشان ہوتی ہے یہ چھڑی فوجی
افسروں کے یونیفارم کا حصہ ہوتی ہے اور جہاں سے یونیفارم خریدا جاتا ہے
وہاں سے یہ چھڑی بھی مل جاتی ہے تاہم فوج میں روایت ہے کہ ایک افسر اپنی
سبکدوشی یا ترقی کی صور ت میں یہ چھڑی آنے والے افسر کو دے دیتے ہیں ۔ چھڑی
کسی وجہ سے اگر ٹوٹ بھی جائے تو عہدے کی اہمیت کم نہیں ہوتی نہ ہی اسے
نحوست خیا ل کیا جاتا ہے بلکہ زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا ہے کہ اردلی کو بجھوا
کو اسٹور سےنئی چھڑی منگوا لی جاتی ہے اس حوالے سے ایک واقعہ بھی مشہور ہے
کہ ایک افسر نے زوجہ محترمہ کے اغوا میں ملوث ملزم کی بیٹن سے پٹائی کردی
جس کی وجہ سے ملزم اور چھڑی دونوں کو نقصان پہنچا جب وہ افسر اس عہدے سے
الگ ہونے لگا تو اس نے انسانی چمڑی کی لذت سے آشنا اس چھڑی کو نئے افسر کو
پیش کردی جو یقیناً چھوٹے افسر کو پسند آئی ہو گی ۔۔۔
مذکورہ واقعے سے سوشل میڈیا کے ایک چلبل پانڈے دانشور کی چند سطریں بھی یاد
آئی ہیں ۔۔۔ موصوف لکھتے ہیں ۔۔۔۔ پاکستان میں صرف ایک قانون سب سے مضبوط
ہے اور اس قانون کا نام ڈنڈا ہے پرانے وقتوں میں ایک محاورہ ہوتا تھا جس کی
لاٹھی اس کی بھینس ۔۔اب جدید دور ہے لاٹھی کا دور ہے نہ کوئی بھینس کو
پوچھتا ہے لوگ نیڈو ملک پر گزارا کرتے ہیں سو محاورے بھی بدل گئے ہیں اب
بھنسیوں کے بجائے (سنڈھوں )سانڈوں کا راج چلتاہے کہیں سرکاری سانڈ ہیں تو
کہیں پرائیویٹ اور لندن والے سانڈ ۔۔ تو کہیں امریکی سانڈ۔۔۔ سو آج کے وقت
کے مطابق محاورہ بھی یہی ہونا چاہئے کہ جس کا ڈنڈا اس کا سنڈھا ۔۔۔ سلامتی
ہو ہمارے چیف آف آرمی اسٹاف پر جس کے ڈنڈے نے سرکاری سانڈوں سے لے کر لندن
والے سانڈوں تک ہر ایک کو رام کرلیا شکریہ چیف صاحب ۔۔ آپ اور آپ کا ڈنڈا
سلامت رہے۔
سلسلہ سوشلیہ کا دانش ور لگتا ہے زیادہ سوشل نہیں ۔۔۔ اسے معلوم ہی نہیں کہ
ڈنڈے کا تو مقام ہی بہت بلند ہے یہاں تو چھڑی کی جتنی تاثیر ہے اس نے تو
بڑے بڑوں کو ناک رگڑنے پر مجبور کردیا ہے تو جناب من آ پ کو پتہ ہونا چاہئے
کہ یہ جرنیلی چھڑی وزن میںجتنی ہلکی ہوتی ہے اس کی تاثیر اتنی ہی زیادہ
ہوتی ہے اور اس کی یہی اثر پذیری ،پائیداری اور مضبوطی سپہ سالار کو مزید
مضبوط بنانے کا باعث بنتی ہے۔ جنرل راحیل نے تو اس چھڑی سے جو دکھانا تھا
وہ دکھا دیا وہ ملازمت میں توسیع کے تصور پر یقین نہیں رکھتے اب اگر دشمن
کی جانب سے کوئی انہونی نہ ہوئی تو وہ آرمیاسٹیڈیم پنڈی میں ایک پروقار
تقریب کے دوران جرنیلی چھڑی نئے فور اسٹار جرنیل کو تھما دیں گے اور وہ نیا
جنرل کون ہو گا ۔۔۔؟ اس کے متعلق بعد میں بتاؤں گا ۔۔۔ |