نذیر تبسم گورسی کا نام آتے ہی ایک اور نام
ذہن میں آتا ہے اور وہ نام ہے تحریک پاکستان کے اولیں داعی جناب چودھری
رحمت علی کا جنہیں سب سے پہلے پاکستانی ہونے کااعزاز بھی حاصل ہے۔گورسی
صاحب نے گلہائے عقیدت کے نام سے ایک کتاب مرتب کی ہے جس میں انہوں نے بساط
بھر چودھری صاحب کی یاد میں ہونے والی تقریبات کا ذکر کیا ہے۔دو روز پہلے
ان سے بات ہو رہی تھی اور آج یہ کتاب مل بھی گئی۔ان کا شکریہ ۔ابھی کچھ دیر
پہلے اسے پڑھنا شروع کیا تو صفحہ نمبر ۴۲ پر ایک تحریر نظر سے گزری۔گورسی
صاحب نے بیان کیا کہ ایک نڈر بے باک اور دھبنگ شخص نے اپنے مخصوص انداز میں
خطاب کرتے ہوئے کہا کہ چودھری رحمت علی جیسے بطل حریت اور مجاہد آزادی وطن
کی خدمات کو یاد کرتے رہنا اور ان کا نام زندہ رکھنا پاکستانی قوم کا فرض
ہے۔انہوں نے پاکستان کا نام،تخیلِ، نظریہ،نقشہ اور مطالبہ اس وقت پیش کیا
جب تمام مسلم رہنما اسے ایک دیوانے کا خواب سمجھتے تھے۔مگر اس دیوانے کا
خواب پورا ہوا۔چودھری رحمت علی مرحوم نے نہ صرف تحریک پاکستان کے سابقون
الاولون قافلہ سالاروں میں سے ہیں بلکہ ان کا پاکستان کا خواب ایک عظیم تر
پاکستان کا تھا۔وہ زیادہ وسیع خطہ بر صغیر کو پاکستان کا جزو لاینفک قرار
دیتے اور اسے اپنے نقشے میں شامل کر کے بطور ایک ناقابل دست برداری حق کے
کے مسلمانوں کے لئے اس بے لچک مطالبہ کرتے تھے۔ہمیں اپنے تما ذرائع ابلاغ
قومی میڈیا میں نصابی و تاریخی کتابوں میں سرکاری ایام میں ان سے ادراے
منسوب کرتے اور یادگاریں تعمیر کرتے رہنا چاہئیے۔سب لوگ ان کو شایان شان
مقام دیں بلکہ تعمیر وطن اور استحکام و بقاء پاکستان کے لئے انہی کی طرح
اپنا سب کچھ قربان کرنے کا جذبہ پیدا کریں۔
یہ اس مرد جری کی تقریر کے اقتباس ہیں جنہوں نے ۱۷ اپریل ۱۹۹۲ جناح حال
لاہور میں چودھری رحمت علی نقاش پاکستان کی یاد میں منعقدہ تقریب سے خطاب
کرتے ہوئے کیا۔
یہ ہیں روزنامہ خبریں کے چیف ایڈیٹر جناب ضیاء شاہد۔میں انہیں سلام پیش
کرتا ہوں جنہوں نے اتنی بڑی بات کہہ دی۔در اصل ہم سچ جانتے ہوئے بھی کوئی
سچ سننا نہیں چاہتے۔خطبہ الہ باد ۱۹۳۰ میں سامنے آتا ہے اور اس میں
مسلمانوں کے لئے الگ وطن کا مطالبہ کہیں بھی نہیں دکھائی دیتا اس میں کوئی
شک نہیں کہ وہ امت مسلمہ کی نشاط ثانیہ کے لئے درد رکھتے تھے تڑپتے تھے نیل
کے ساحل سے کاشغر تک مسلمانوں کو یک جا دیکھنا چاہتے تھے مگر کہیں بھی
پاکستان کے حصول کے لئے سرگرم نہیں دکھائی دیتے۔اقبال نے تو دو خطوط علامہ
راغب حسن اور ڈاکٹر تھامپسنمیں اعتراف کیا ہے۔ایک عظیم تاریخ داں اور تحریک
پاکستان کا معتبر نام ڈاکٹر اے کے عزیز نے اسی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا
کہ اقبال کو عظیم ملی شاعر کا درجہ حاصل ہے ایسے میں چودھری رحمت علی کو دو
قومی نظرئے کے تحت تحریک پاکستان کا اولین داعی قرار دینا اقبال سے زیدتی
نہیں بلکہ ان کے حقیقی مقام سے واقفیت ہو گی۔لوگ ڈرتے ہیں اور ڈر کے مارے
بات نہیں کرتے کہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ بات عقیدے میں شامل ہو گئی ہے کہ
اقبال ہی دو قومی نظرئے کہ اولیں خالق ہیں۔بر صغیر میں سچی بات ہے اسلامیہ
کالج لاہور کی بزم شبلی میں یہ بات ایک ایف اے کے طالب علم نے کر دی تھی کہ
شملای ہند کے مسلمانوں اٹھ کھڑے ہو جاؤ اور اپنے آپ کو ہندوؤں سے الگ کر
لو۔یہاں مختلف قسم کی شرلیاں پٹاخے چھوڑے جاتے ہیں کہ ان سے حضرت قائد اعظم
محمد علی جناح سے کوئی لڑائی تھی۔بہت سے سوال یہ بھی اٹھاتے ہیں کہ ۲۳ مارچ
۱۹۴۰ کو چودھری رحمت علی لاہور میں کیوں نہیں تھے وہ منٹو پارک کیوں نہیں
آئے۔صاحبو! اس کا بڑا سادہ سا جواب ہے قائد اعظم نے انہیں دعوت دی تھی لیکن
پنجاب کے خضرحیات نے ان کے صوبے میں داخلے پر پابندی لگا دی تھی دوسری بات
سیاسی رقابت تھی قائد اعظم تو ان سے مخاصمت نہیں رکھتے تھے مگر ان کے ارد
گرد کا ٹولہ چودھری رحمت علی کی انگلستان میں پاکستان نیشنل موومنٹ کے پلیٹ
فارم سے کی گئی جدوجہد سے مرعوب تھے۔چودھری صاحب جیسا فصیح و بلیغ شخص جو
بیک وقت انگریزی اور اردو کا بلا کا مقرر تھا اور پاکستان موومنٹ کے پیچھے
وہی شخص تھا۔اس سے بہت سے لوگ دب کے رہ گئے۔انگریز پاکستان کا نام ناؤ آر
نیور ۱۹۳۳ میں سن چکے تھے ہر پارلیمینٹرین ان سے واقف تھا وہ نہیں چاہتے
تھے کہ چودھری رحمت علی جس نے دنیا بھر میں سفر کئے جب وہ ہٹلر سے ملے تو
جرمن لیڈر ان سے متآثر بغیر نہیں رہ سکا چھ فٹ سے نکلتا قد پنجابی کلاہ،اور
لباس میں چودھری رحمت علی سے متآثر بغیر نہ رہ سکا۔چودھری صاحب نے ادیب
خانم جو ایک ترک مصنفہ تھیں پاکستان تھیوری پر ان سے طویل مکالمے کئے۔لوگ
ان کے پاس جاتے ان کے پاس بہت سے نقشے تجاویز ہوتیں۔ایم انور بار ایٹ لاء
جیسے شخص ان کے ارادت مندوں میں تھے۔وہ پاکستان بننے کے بعد یہاں لاہور آئے
۔انہوں نے معروف صحافی م ش کو انٹر ویو دیا انہوں نے ایک اخبار کے
ڈیکلیریشن کوشش کی مگر انہیں تنگ کرنا شروع کر دیا گیا۔ انہیں مختلف مقدمات
میں الجھانے کی کوشش کی گئی۔انہیں ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا وہ لندن
چلے گئے۔
وہیں بیمار ہوئے اور امانتا دفن ہو گئے۔ان کے جسد خاکی کی وطن لانے کی
تحریک پر کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔سینیٹر طارق عظیم اس تحریک کا سرخیل ہیں
وہ پتہ نہیں کہاں ہیں؟میں سمجھتا ہوں گجروں کی تنظیموں کے ذمہ داران جتنا
بھی زور لگا لیں ان کا امانتا دفن جثہ لانا نا ممکن ہو گا۔چودھری صاحب کا
ایک اور بھی المیہ ہے کہ ان کے جثے کو پاکستان لانے کی بات برادری کا ایک
نعرہ بن چکی ہے۔ہمیں جناب ضیاء شاہد،مجیب شامی،تزئین اختر اور دیگر لوگوں
کو آگے لانا ہو گا کہ وہ کم از کم اتنا کام تو کر جائیں کہ ایک امانتا دفن
پاکستانی لیڈر کو پاکستان لایا جائے اگر جمالالدین افغانی کو تیس سال بعد
افغانی افغانستان لا سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں۔
آج مجید نظامی بڑے یاد آ ئے انہیں پتہ نہیں کیا مسئلہ تھا کہ وہ ان کے
راستے کی رکاوٹ بنتے رہے ایک بڑے نامور ادیب کالم نویس اور دانشور نے میرے
اور جناب الطاف حسین اردو ڈائجیسٹ کے سامنے کہا کہ تحریک پاکستان پر
اتھارٹی حمید نظامی ہیں مجید نظامی نہیں۔آج ان کا معاملہ بھی اﷲ کے ہاں
ہیں۔لگتا ہے چودھری رحمت علی یہ گلہ تو کیا ہو گاکہ اپنے بھائی حمید نظامی
کا ۱۶ نومبر ۱۹۵۱ کا اداریہ تو دیکھ لیا ہوتا جس میں انہوں نے مجھے عزت
بخشی تھی۔اﷲ ان دونوں زعماء ملت کو جنت الفردوس میں جگہ دے۔میں ملتمس ہوں
کہ ہمارے بزرگ ہمارے سینئر صحافی اپنے اخبارات میں چودھری صاحب کی یوم
پیدائش اور ان کے یوم وفات پر ضمیمے لکھیں۔پوری قوم ان کے جسد خاکی کو
پاکستان لانے کا مطالبہ کرے۔چینیلز پروگرام کریں۔اﷲ تعالی نذیر تبسم گورسی
اور دیگر بھائیوں کو توفیق دیں کہ وہ اس مقصد عظیم کے لئے کوشش جاری رکھ
سکیں۔آمین |