کل جماعتی رابطہ کونسل کی کشمیر کانفرنس
(Athar Massood Wani, Rawalpindi)
پاکستان کی کشمیریوں کے لئے سیاسی ،سفارتی اور اخلاقی حمایت کو بہتر اور موثر بنانے کی ضرورت ہے یہ تاثر بھی پایا جاتا ہے کہ کشمیر کے حوالے سے محض ہندوستان کی پاکستان میں مداخلت کو '' کائونٹر'' کیا جا رہا ہے۔دنیا اس وقت مسئلہ کشمیر پر توجہ دے گی کہ جب عالمی برادری کو نظر آئے کہ پاکستان کی پالیسی میں کشمیر کاز کو اولین ترجیح دی جا رہی ہے اور عالمی برادری کی طرف سے پاکستان مسئلہ کشمیر کو منصفانہ طور پر حل نہ کئے جانے کی صورت کیا کیا سخت اقدامات اٹھا سکتا ہے۔2012ء میں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ،امریکی حلقے کی طرف سے یہ تجویز پیش کی گئی تھی کہ دنیا کے ایسے دیرینہ سیاسی مسائل جن کے حل میں پیش رفت نہیں ہو رہی،ایسے سیاسی مسائل میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اقدامات سے سیاسی مسئلہ بھی حل ہو سکتا ہے اوراس حوالے سے جرمنی کی مثال دی گئی تھی کہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اقدامات سے سیاسی مسئلہ بھی حل ہو گیا ۔ |
|
کل جماعتی رابطہ کونسل آزاد جموں و کشمیر
کے زیر اہتمام کشمیر کانفرنس آزاد کشمیر حکومت کے تعاون سے 13اکتوبر کو
اسلام آباد میں منعقدہوئی۔کانفرنس کی صدارت وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ
فاروق حیدر خان نے کی جبکہ کل جماعتی رابطہ کونسل کے چیئر مین عبدالرشید
ترابی (ممبر آزاد کشمیر اسمبلی) نے سٹیج سیکرٹری کے فرائض سر انجام
دیئے۔کانفرنس کا آغازچیئر مین رابطہ کونسل اور وزیر اعظم آزاد کشمیر کے
ابتدائی کلمات سے ہوا۔کانفرنس کے موضوع کے حوالے سے شرکاء سے تجاویز طلب کی
گئیں کہ''مقبوضہ جموں وکشمیر میں جاری تحریک آزادی کو تقویت پہنچانے اور
عالمی رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لئے آزاد جموں و کشمیر،پاکستان،سفارتی
محاذ اور میڈیا کے محاذ پر کیا اقدامات کئے جائیں''۔کنوینئر حریت
کانفرنس(گیلانی) غلام محمد صفی نے بالخصوص نوجوانوں میں آگاہی مہم شروع
کرنے اورکنوینئر حریت کانفرنس ( میر واعظ) نے پاکستان میں عوامی مہم اور
بڑا مظاہرے کرنے کی تجویز دی۔لبریشن فرنٹ کے نمائندے رفیق ڈار نے سفارت
خانوں سے رابطے اور حکومت کے زیر انتظام ''ملین مارچ'' کی اورسینئر حریت
رہنمامحمد فاروق رحمانی نے انٹر نیشنل کشمیر کانفرنس منعقد کرانے کی تجویز
دی۔آزاد کشمیر کے سابق صدرسردار محمد انور خان،صحافی حامد میر،مشتاق
ایڈووکیٹ گلگت،سردار عتیق احمد خان،مولانا محمد یوسف،چودھری یاسین،چودھری
عبدالمجید،محترمہ شمیمہ شال،ممبر آزاد کشمیر اسمبلی نسیمہ وانی،محمود احمد
ساغر،سید یوسف نسیم،پاکستانی صحافی افضل بٹ و دیگر چند مقررین نے بھی اظہار
خیال کیا۔ممبر آزاد کشمیر اسمبلی سید شوکت شاہ نے کہا کہ انہوں نے مقبوضہ
کشمیر کے دورے کے موقع پر اپنے خاندان کی ایک بزرگ خاتون کی تشویش پر کہا
کہ ''دیر ہے اندھیر نہیں''،اس پر بزرگ خاتون نے جواب دیا کہ'' جتنی دیر
ہوتی جائے گی ،اندھیر اتنا ہی بڑہتا جائے گا''۔'پی ٹی آئی '' آزاد کشمیر کے
رہنما خواجہ فاروق نے سیز فائر لائین(لائین آف کنٹرول) عبور کرنے کی اپیل
کی حمایت کی اور کہا کہ اس سلسلے میں اجمتاعی کوشش ہونی چاہئے،مسئلہ کشمیر
کے حوالے سے روس،چین وغیرہ کے دورے بھی کئے جانے چاہئیں۔جسٹس(ر) عبدالمجید
ملک نے کہا کہ '' سٹیٹس کو'' کوقائم رکھا جا رہا ہے،فی الفور ایسے اقدامات
اٹھانے چاہئیں کہ کشمیریوں کی قربانیوں ،جدوجہد کا مداوا ہو سکے،سوال یہ ہے
کہ تجاویز کس کو پیش کرتے ہیں اور ایسا کون کرے گا،وزیر اعظم آزاد کشمیر
راجہ فاروق حیدر خان نے اقوام متحدہ کو خط لکھا ہے اور یہ اچھی ابتداء
ہے،ہم نے اقوام متحدہ میں وزیر اعظم نوازشریف کے بیان کا بھی خیر مقدم کیا
تھا،کشمیر کا مسئلہ سلامتی کونسل میں اٹھایا جانا چاہئے،پاکستان مسئلہ
کشمیر کا ایک فریق ہے وکیل نہیں،کشمیری عوام آزادی کے نام پر مسئلہ کشمیر
کو ہر سطح پر اٹھائیں،آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کو الگ الگ نہ سمجھا
جائے۔
چیئر مین رابطہ کونسل عبدالرشید ترابی نے قرار داد پیش کی جو متفقہ طور پر
منظور کی گئی۔قرار داد میں مقبوضہ کشمیر کے عوام کی بہادری پر سلام پیش کیا
گیا،کشمیری عوام کی تحریک کو اقوام متحدہ کی قراردادوں اور چارٹرکے مطابق
تسلیم شدہ حق خودارادیت کی تحریک قرار دیا گیا،بھارت کی طرف سے جموں و
کشمیر کو اپنا حصہ قرار دینے کو خلاف حقائق و قانون قرار دیتے ہوئے اس کی
مذمت کی گئی اور کہا گیا کہ تمام بین الااقوامی قوانین اورمعاہدوں کے مطابق
کشمیر کسی طور بھی ہندوستان کا حصہ نہیں بلکہ ایک متنازعہ خطہ ہے۔قرار داد
میںبھارت کے خلاف اظہار مذمت کے پانچ نکات،پاکستان کی ستائش کے آٹھ
نکات،ہندوستانی حکومت سے مطالبے کے چار نکات اور بین الاقوامی برادری سے
مطالبات کے چھ نکات شامل کئے گئے۔
وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان نے کہا کہ ایک ورکنگ گروپ قائم کیا جائے گا
کہ کشمیر کاز کے لئے کس کس شعبے میں کیا کیا جا سکتا ہے،اور اس ورکنگ گروپ
کو تمام سہولیات آزاد کشمیر حکومت کی طرف سے مہیا کی جائیں گی۔وزیر اعظم
راجہ فاروق حیدر خان نے اعلان کیا کہ اسمبلی ایکٹ کے ذریعے کشمیر کاز کے
شہداء اور متاثرین کے لئے ایک فنڈ قائم کیا جائے گا۔اس موقع پر وزیر اعظم
نے برجستہ کہا کہ ''تنخواہوں کے پیسے نہیں ہیں اور ہم کشمیر آزاد کرانے
نکلے ہیں''۔انہوں نے کہا کہ طاقت کے مراکز ملکوںمیںتیاری کے ساتھ اہل افراد
کو بھیجا جائے۔کشمیر کے منقسم خاندانوں کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ''میں
خود بھی منقسم خاندان سے تعلق رکھتا ہوں''۔وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر نے
کہا کہ ہم نے کب کہا تھا کہ' معاہدہ کراچی 'کیا جائے،چودھری غلام عباس نے
اپنے نوٹ میں تحریر کیا تھا کہ انہیں صرف ان امور سے اتفاق ہے جو مسلم
کانفرنس سے متعلق ہیں۔انہوں نے کہا کہ سب سے زیادہ قصور آزاد کشمیر کے
سیاستدانوں کا ہے۔وزیر اعظم آزاد کشمیر نے کہا کہ اس سال 24اکتوبر کو پولیس
پریڈ کی تقریب مظفر آباد کے یونیورسٹی گرائونڈ میں منعقد کی جائے گی،انہوں
نے کہا کہ اس تقریب میں گلگت بلتستان کے وزیر اعلی کو بھی مدعو کرنا چاہتے
تھے لیکن انہوں نے کہا کہ وہ 24اکتوبر کی تقریب گلگت میں بھی منعقد کرنا
چاہتے ہیں۔وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان نے کہا کہ کشمیریوں کی
جدوجہداورقربانیوں کا سلسلہ اشفاق مجید وانی سے برہان وانی تک جاری و ساری
ہے۔مسئلہ کشمیر کے حل میں وقت لگے گا،دیکھنا یہ یہ ہے کہ کیسےsustain رکھنی
ہے۔کشمیریوں کی قربانیاں رائیگاں نہیں جانے دینی چاہئیں۔مقبوضہ کشمیر میں
کشمیری بے دریغ ہلاک کئے جا رہے ہیں،وہاںپانچ سال کا بچہ بھی ماں سے کہتا
ہے کہ ''میں مر جائوں تو رونا نہیں''۔وزیر اعظم نے کہا کہ بھارتی جارحیت سے
اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہونے والے آزاد کشمیر کے متاثرین کے لئے
انتظام کیا جا رہا ہے۔وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان نے کہا کہ تحریک آزادی
کشمیر کے حوالے سے آزاد کشمیر حکومت کا کردار واضح کیا جائے تاکہ پار مثبت
پیغام جائے،جو اس وقت منفی ہے۔آزاد کشمیر تحریک آزادی کشمیر کا بیش کیمپ ہے
تو اس کے لئے اس کا کردار ہونا چاہئے،اگر ہم سب مل کر کوشش کریں تو انشاء
اللہ آزاد کشمیر حکومت کے کردار کا تعین ہو گا۔انہوں نے کہا کہ تحریک آزادی
کشمیر کے لئے آزاد کشمیر حکومت حاضر ہے،جو وسائل ہیں وہ حاضر ہیں۔ورکنگ
گروپ کے ذریعے قابل عمل امور کا جائزہ لیا جائے گا۔راجہ فاروق حیدر خان نے
کہا کہ سیز فائر لائین (لائین آف کنٹرول)تک جاکر مقبوضہ کشمیر کو پیغام
دینا چاہئے،لائین کو عبور کرنا الگ بات ہے،ایسا کام نہ کیا جائے جس سے
پاکستان کو نقصان ہو،ایسی بات نہ کریںجس سے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال سے ہٹ
کر ساری توجہ پاکستان اور بھارت کی کشیدگی کی طرف مبذول ہو جائے۔انہوں نے
واضح کیا کہ میں اس عمل سے پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کرانا نہیں
چاہتا۔انہوں نے کہا کہ سردار عتیق احمد خان کی نیت پر شک نہیں ہے،ہم وہ بات
کریں جو ہم کر سکیں،ہمیں پاکستان اور اس کے عوام کو ساتھ لیکر چلنا
چاہئے۔وزیر اعظم آزاد کشمیر نے کہا کہ نئی نسل کو کشمیر اشو سے روشناس
کرانے کی ضرورت ہے-
ساڑھے گیارہ بجے شروع ہونے والی کانفرنس تقریبا پانچ گھنٹے مسلسل جاری
رہی۔گول میز کے اطراف میں پچاس سے زائد شرکاء موجود تھے جبکہ بیس سے زائد
شخصیات نے بات کی۔اس کے علاوہ ایک تقریبا ایک سو افراد بھی ہال میں موجود
تھے۔بعض شرکاء نے موضوع سے ہٹ کر طویل اظہار خیال کیا اور' چین پاکستان
اقتصادی راہداری منصوبہ' بھی ان کے اظہار خیال سے باہر نہ رہ سکا۔دو تین
طویل خطابات سے بات کرنے والوں کی 'شارٹ لسٹنگ' کا امکان پیدا ہوا تو مجھے
ہاتھ اٹھا کر عبدالرشید ترابی صاحب کو متوجہ کرنا پڑا کہ مجھے ضرور بات
کرنی ہے۔عبدالرشید ترابی صاحب کی طرف سے مختصر طور پر تجاویز دینے کی ہدایت
کے ساتھ مجھے بھی موقع ملا۔میں نے کل جماعتی رابطہ کونسل کی بحالی کو خوش
آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ پہلے رابطہ کونسل نے اپنی ایک سال کی ورکنگ کا
تعین کیا تھا لیکن کونسل کا دفتر قائم کرنے کے مرحلے میں رابطہ کونسل ہی
جمود کا شکار ہو گئی۔اس وقت معمول کی صورتحال تھی،اب اس کے متحرک اور موثر
کردار کی ضرورت میں اضافہ ہوا ہے،رابطہ کونسل کو باقاعدہ شکل دینے کے لئے
اس کے سیکرٹریٹ کا قیام ضروری ہے۔مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کی سرگرمیاں
درست لیکن اصل ضرورت تقویت پہنچانا ہے، اس کے لئے ہمیں اقدامات متعین اور
ان پر عملدرآمد کرنا ہے۔تحریک آزادی کشمیر کو تقویت پہنچانے کے لئے سب سے
اہم پاکستان کی کشمیر پالیسی کو بہتر اور موثر بنانے کی کوششیں کرنا ہے۔ان
دنوں پاکستان میں یہ بات بھی زیر بحث ہے کہ پاکستان کی عسکری تنظیموں کو
کشمیر کے معاملے سے الگ کیا جائے،پاکستان کے سینئر صحافیوں اور دانشوروں کی
بھی یہی رائے ہے۔جبکہ کشمیری یہ چاہتے ہیں کہ تحریک آزادی کشمیر کے سیاسی
امور کوغیر سیاسی ذرائع سے '' ڈیل'' نہ کیا جائے،اب وقت آ گیا ہے کہ یہ
سلسلہ،طریقہ کار تبدیل کیا جائے،اب وقت آ گیا ہے کہ کشمیر کاز کے سیاسی
امور کو غیر سیاسی طور پر '' ڈیل'' نہ کیا جائے،اس کے شدید نقصانات کشمیر
کاز ہی نہیںپاکستان کو بھی بار بار اٹھانے پڑے ہیں۔
کشمیر کاز کے تمام شعبوں سے متعلق کشمیریوں کی مشاورت بنیادی اہمیت کا حامل
معاملہ ہے اور اس وقت کشمیریوں کی مشاورت پر کسی کی کوئی توجہ نہیں ہے۔اہم
ملکوں میں قائم پاکستانی سفارت خانوں میں کشمیر ڈیسک کا قیام اور اس کے لئے
کشمیر کاز کے لئے متحرک شخصیات کی معاونت حاصل کی جائے۔میڈیا کے شعبے کو
بری طرح نظر انداز کیا جا رہا ہے ،ہندوستانی پروپیگنڈے کا موثرجواب دینے پر
کوئی توجہ نہیں ہے۔ہندوستان اپنی مکاری اور وسائل سے اپنے جھوٹ کو بھی سچ
ظاہر کر دیتا ہے اور ہم اپنی بدانتظامی سے اپنے سچ کو بھی جھوٹ ثابت کر
دیتے ہیں۔آزاد کشمیر ٹیلی وژن اور ریڈیو آزاد کشمیر کا جتنا برا حال کر دیا
گیا ہے،اس سے زیادہ برا نہیں کیا جا سکتا۔میڈیا سے کشمیر کاز کے حوالے سے
پاکستانیوں کی آراء تو سامنے آ رہی ہیں لیکن میڈیا میں کشمیریوں کی رائے
بالکل بھی سامنے نہیں آ رہی،میڈیا سے کشمیریوں کی رائے کو سامنے لانے کی
ضرورت ہے۔قرار داد کے آخر میں11اصحاب کے نام ہیں ،جو میرے خیال میں کل
جماعتی رابطہ کونسل کی ورکنگ کمیٹی ہے( اس پر منتظمین کی طرف سے اثبات کا
اشارہ دیا گیا) اس میں دو چار افراد کا اضافہ کیا جا سکتا ہے،ورکنگ کمیٹی
ٹھوس تجاویز کے ساتھ وفاقی وزارتوں،اداروں کے ساتھ اجلاس کریں،ورکنگ کمیٹی
کے اپنے بھی اجلاس ہوں اور پوری تیاری سے وزیر اعظم پاکستان کے ساتھ مختلف
امور کے بارے میں تفصیلی مشاورتی ملاقات کی جائے۔
پاکستان کی کشمیریوں کے لئے سیاسی ،سفارتی اور اخلاقی حمایت کو بہتر اور
موثر بنانے کی ضرورت ہے یہ تاثر بھی پایا جاتا ہے کہ کشمیر کے حوالے سے محض
ہندوستان کی پاکستان میں مداخلت کو '' کائونٹر'' کیا جا رہا ہے۔دنیا اس وقت
مسئلہ کشمیر پر توجہ دے گی کہ جب عالمی برادری کو نظر آئے کہ پاکستان کی
پالیسی میں کشمیر کاز کو اولین ترجیح دی جا رہی ہے اور عالمی برادری کی طرف
سے پاکستان مسئلہ کشمیر کو منصفانہ طور پر حل نہ کئے جانے کی صورت کیا کیا
سخت اقدامات اٹھا سکتا ہے۔2012ء میں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ،امریکی حلقے
کی طرف سے یہ تجویز پیش کی گئی تھی کہ دنیا کے ایسے دیرینہ سیاسی مسائل جن
کے حل میں پیش رفت نہیں ہو رہی،ایسے سیاسی مسائل میں انسانی ہمدردی کی
بنیاد پر اقدامات سے سیاسی مسئلہ بھی حل ہو سکتا ہے اوراس حوالے سے جرمنی
کی مثال دی گئی تھی کہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اقدامات سے سیاسی مسئلہ
بھی حل ہو گیا ۔میری بات اس جملے پر مکمل ہوئی کہ کشمیر کاز سے متعلق
سرگرمیوں میں نمائشی،بناوٹی انداز نہ اپنایا جائے۔مقبوضہ کشمیر میں بھارت
کے انسانیت سوز بھیانک مظالم کا مردانہ وار مقابلہ کرنے والے مظلوم
کشمیریوں کے حق میں یہاں مختلف تقریبات منعقد ہو رہی ہیں ،ان تقریبات میں
کشمیریوں سے یکجہتی کا اظہار کیا جاتا ہے لیکن کشمیر کے حوالے سے ہونے والی
تقریبات وغیرہ نمایاں طور پر نمائشی ہونے کا تاثر لئے ہوئے ہیں۔کیا ہم
مقبوضہ کشمیر کے عوام سے اخلاص کا اظہار کرنے سے بھی قاصر ہیں؟میری رائے
میں تو معذور ہیں۔ایسے کام کے قریب بھی نہیں جاتے جس سے تحریک آزادی کشمیر
کو حقیقی طور پر تقویت پہنچائی جا سکے۔سب مسئلہ کشمیر اجاگر کرنے میں لگے
ہیں ،تقویت پہنچانے میں کسی کو کوئی دلچسپی نظر نہیں آتی۔ایک تاثر یہ بھی
ملا کہ مقبوضہ کشمیر میں لگی آگ پر ''اپنی اپنی ہانڈی'' پکانے کی سوچ بھی
پائی جاتی ہے۔ |
|