تم ہی کہو یہ انداز گفتگو کیا ہے؟
سیاسی شطرنج پہ بچھی بساط پہ برسوں سے وہی قدیم مہرے چالیں چلتے آئے۔پی پی
پی۔مسلم لیگ۔۔پھر جماعت اسلامی۔کچھ بات آگے بڑھی توایم کیو ایم ایک محدود
علاقے کی جماعت کے طور پہ سامنے آئی اور جو گل کھلائے سب کے سامنے
آگئے۔مسلم لیگ بھی 1906 والی مسلم لیگ نہ تھی کہ اصولوں اور سچائی کی سیاست
ہوتی۔سو اس کے بھی ف۔ن۔ق۔ہوگئے۔وقت اور حالات کے ساتھ اندرونی خلفشار نے
جماعتوں کی مضبوطی کو گھن ذدہ کر دیا۔بی بی کے جانے کے بعد پی پی پی کا
گراف بھی نیچے آگیا۔زرداری صاحب بھی اس گراف کو اوپر نہ لا سکے۔اب اس میدان
میں ایک نئی جماعت کے طور پہ سامنیآئی جسکا ایک نیا چارا تھا نیا
پاکستان۔پرانی سیاست سے بیزارلوگوں کوایک ایسا انوکھا پلیٹ فارم لگا جو
قدرت نے ان کو فراہم کر دیا ہو اور اس پہ مستہزاز یہ کہ ہماری نوجوان نسل
اس کھلاڑی کی مداح تھی۔سو راگ رنگ کی محفل لیے جب وہ سامنے آیا تو اسے عوام
کی بہت پذیرائی ملی۔شاید تھکے ذہنوں کو آسودگی درکار تھی۔الیکشن ہوئے
تو۔حکومت بھی تین دوراہوں میں بٹ گئی۔پی ٹی آئی دوسری بڑی جماعت کے طور پہ
سامنے آئی مگر دو تہائی اکثریت حاصل نہ کر سکی۔سو اپوزیشن میں جا
بیٹھی۔پنجاب میی۔ن لیگ کا دما دم مست قلندر ہوا تو سندھ میں پی پی پی اور
سرحد میں پی ٹی آئی۔نے اپنی حکومت کا سنگ بنیاد رکھا۔خادم خلق نے ہمیشہ کی
طرح اہل لاہور کو نوازا اور اقربا پروری کی اعلی مثالیں قائم کیں جو ان کا
خاصہ ہیں۔پی پی پی حسب سابق وڈیرا شاہی سے باہر ہی نہ آئی اور قائم علی شاہ
بس دعوے ہی کرتے رہے۔بنیادی طور پہ پی پی پی کو اب نوجوان قیادت کی ضرورت
ہے کیونکہ کہنہ سال سیاست اب سال خوردہ ہو چکی ہے۔رہی پی ٹی آئی تو قول و
فعل کے تضاد۔اور دھرنا سیاست نے اس کی مقبولیت میی پہلے کی سی بات نہ
رکھی۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جب کے پی کے میں وہ ایسی تبدیلی لاتی کہ وہ
نئے پاکستان کی بجنگ آمد قرار پاتی۔مگر ایسا نہ ہوا خاں صاحب نے میدان
کارزار ہی اپنائے رکھا اور عوامی خدمت کے بجائے دھرنا سیاست میں سڑکوں پہ
پچ بنائے کرکٹ کھیلتے رہے۔شاہقین نے پہلے پہل تو بہت داد دی اور کپتان کا
ساتھ دیا کیونکہ عوام سسٹم سے نک و نک ہو چکی تھی۔یہاں خاں صاحب کی متحدہ
شخصیت شیخ السلام بھی اپنی ٹیم کے ہمراہی میں میدان میں اترے۔بڑے سادہ دل
ہیں ہم عوام ریاکاری اور منافقت ہمیں آتی نہیں اور پنجابی کا ایک محاورہ
بڑا صادق ہے ہم پہ کہ۔جنے لایا گلی اودے نال چلی۔سو عوام نے دھرنا سیاست
میں بھی ثابت قدمی دکھائی۔لیڈران فول پروف کنٹینروں میں اور عوام سڑکوں پہ
تبدیلی کے چاؤ میں موسم کی صعوبتوں سے لڑتے رہے۔بالآخر خاں صاحب کی شادی کی
صورت میں تبدیلی آئی اور وہ بنی گالہ سدھارے۔شیخ صاحب بھی قصاص لے کے اگلی
قسط ہم پھر آئینگے کہتے کینیڈا روانہ ہوئے اور عوام اپنا منہ لے کہ رہ گئی۔
بلاشبہ انگور کھٹے ہیں۔اب خان صاحب اور شیخ صاحب پھر آئے مگر اس عاشقی عزت
سادات بھی گئی۔کے مطابق ان کو قصاص قسط ? دے دی گئی۔جبکہ خاں صاحب کو
پانامہ لیگ استعفی اور کرسی کا بخاروقتا فوقتا چڑھتا رہتا۔مگر اب شاید عوام
ان ے ماتھے پہ پٹیاں رکھنے نہ آئے۔آثار بتاتے ہیں کہ کپتان کی جماعت بھی اب
سونے کی تیاری میں ہے۔بحر کیف اگر عوامی خدمت اور اصولوں کی سیاست کو منشور
بنا کے چلا جاتا تو پوہ بارہ تھے۔مگر ایسا نہیں ہوا۔جب وزراء کرسیاں چھوڑ
کے سڑکوں پہ رہنے لگیں اور محمد شاہ رنگیلا بن کر اپنے فرائض کو فراموش کر
دیں تو ملکی تقدیر نہیں بدل سکتے ساری کی چاہ میں آدھی بھی گنوانا کہاں کی
عقلمندی ہے۔ خاں صاحب کو اگر اپنا معیار قائم رکھنا ہے تو ایک رہنما کی
صورت میں آئیں کرسی کے بجائے عوام کے دلدار بنیں عوام ریلیف چاہتی ہے۔دھرنے
نہیں کاروبار زندگی روکنا سیاست نہیں بلکہ عوام کے منھ کا رزق چھیننے کے
مترادف ہے۔پاکستان بنانے کے بجائے اس کو سنواریں اور ان ناسوروں کا خاتمہ
کریں جو اسے چاٹ رہے۔تبدیلی کا آغاز خود سے کریں۔رشوت۔سفارش اقربا
پروری۔چور بازاری ان سماجی برائیوں کا قلعہ قمع کریں۔تبھی وطن کا قرض اتارا
جائیگا ورنہ مٹ جائیگا نام و نشاں ہمارا۔ |