قومی سلامتی امور اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ

قارئین کرام ! دنیا بھر میں جمہوری حکومتیں بل خصوص ایٹمی قوت کی حامل ریاستیں مملکت کی خودمختاری اور قومی نظریات کے تحفظ کیلئے اپنے قومی اہداف کا نہ صرف تعین کرتی ہیں بلکہ قومی سلامتی امور کے حوالے سے ریاست کی سیاسی ، معاشرتی اور نظریاتی اقدار کے تحفظ کیلئے قومی وسائل کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایک مضبوط و مربوط قومی سلامتی پالیسی کا تعین کرتی ہیں تاکہ اندرونی و بیرونی خطرات کا بخوبی مقابلہ کیا جا سکے۔پاکستان میں قومی سلامتی امورکے حوالے سے چوکس رہنا اِسلئے بھی انتہائی ضروری ہے کیونکہ پاکستان کو بھارت کی شکل میں ایک ازلی اور مکار دشمن کا سامنا ہے جو وعدوں اور معاہدوں کی پاسداری سے بالکل ہی نا آشنا ہے اور بانیانِ پاکستان کے دو قومی نظرئیے کے تحت تقسیم ہندوستان کے فوراً بعد ہی پاکستان کو اکھنڈ بھارت کی سیاسی وفوجی جدوجہد کے تسلسل سے نچوڑنے میں لگا ہوا ہے۔ پاکستان نے 1962 میں چین بھارت نیفا کی جنگ میں اصولی موقف اختیار کرتے ہوئے کشمیر میں فوج کشی سے پرہیز کیا لیکن بھارت نے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ کی قرارداوں کو شرف قبولیت بخشنے کے باوجود کشمیری عوام کی اُمنگوں کے مطابق رائے شماری کے ذریعے مسئلہ کشمیر کا حل نکالنے سے گریز کیا۔ 1965 کی پاک بھارت جنگ کے بعد بھارت نے سوویت یونین کی حمایت سے 1966 میں تاشقند معاہدے پر دستخط کئے جس میں یہ وعدہ کیا گیا کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے لیکن دو برس کے بعد ہی1968 میں اگرتلہ سازش کیس سامنے آگیا، بھارت نے مشرقی پاکستان میں اندرونی خلفشار کو ہوا دی ، مکتی باہنی بنائی جسے دیرہ دون چکراتہ کمانڈو بیس میں تربیت دی گئی اور 1971 میں بھارتی فوج کی مسلح مداخلت سے بنگلہ دیش بنا کر تاشقند معاہدے کی دھجیاں اُڑادیں ۔ بھارت کے موجودہ وزیراعظم نریندر مودی نے چند ماہ قبل بنگلہ دیش کے دورے میں اِس اَمر کا کھلم کھلا اعلان کیا کہ بنگلہ دیش بھارت نے اپنے زور بازو سے بنایا ہے۔اِس سے قبل آنجہانی بھارتی وزیراعظم مسز اندرا گاندہی کا یہ کہنا بھی ریکارڈ پر ہے کہ اُنہوں نے دو قومی نظرئیے کو خلیج بنگال میں ڈبو کر ہندوستان پر مسلمانوں کی ایک ہزار سالہ حکمرانی کا بدلہ لے لیا ہے۔

معزز قارائین ، پاکستان میں قومی سلامتی ڈاکٹرائین پر عمل درامد کی اہمیت اِس لئے بھی بڑھ جاتی ہے کہ موجودہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی جن کا تعلق ہندو دہشت گرد تنظیم RSS سے ہے جسے عرف عام میں بھارتیہ جنتا پارٹی کا دہشت گرد عسکری ونگ کہا جاتا ہے اور جس کے بارے میں بھارت کے سابق مقبول عام سماجی لیڈر آنجہانی جے پرکاش نرائین نے 1972 میں RSS کے مسلح تربیتی کمپ کے دورے کے بعد کہا تھا کہ بھارت ، بنگلہ دیش اور پاکستان کو ملا کر اگر کوئی اکھنڈ بھارت بنا سکتا ہے تو وہ RSS کی انتہا پسند ہندو تنظیم ہے۔ چنانچہ آج کے بھارت میں اِسی دہشت گرد ہندو تنظیم کے ہاتھ مسلمانوں ، عیسائیوں اور ادنیٰ ذات کے ہندوؤں کے قتل عام سے رنگے ہوئے ہیں اور جو آج کے جدید دور میں بھی بھارت میں گائے کا گوشت کھانے کے نام پر مسلمانوں پر ظلم و ستم کا بازار گرم کئے ہوئے ہے۔ بہرحالRSS تنظیم اکھنڈ بھارت کے شیطانی منصوبے میں پاکستانی افواج اور آئی ایس آئی کے چوکس رہنے کی وجہ سے کامیاب نہیں ہو سکی ہے لیکن اِس تنظیم کے چیف ڈاکٹر موہن بھگوت بھارتیہ جنتا پارٹی کے سینئر رہنماؤں بشمول واجپائی ، ایل کے ایڈوانی اور جسونت سنگھ کو پارٹی کے اہم عہدوں سے علیحدہ کرکے بھارتی حکومت کی باگ دوڑ RSS کے فدائی نریندرا مودی اور راج ناتھ سنگھ کو سونپنے کے بعد اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کرنے میں ضرور کامیاب ہو گئے ہے۔ ڈاکٹر بھگوت اور نریندر مودی یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ امریکہ اور اسرائیل کا دفاعی اتحادی بننے اور بنگلہ دیش ، نیپال اور افغانستان میں موثر اثر و رسوخ قائم کرنے کے باوجود جنرل راحیل شریف کی قیادت میں پاکستان آرمی اور آئی ایس آئی نے آپریشن ضرب عضب پر موثر عمل درامد کرکے پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف ایک مضبوط حصار قائم کر لیا ہے جس کے باعث جنرل راحیل شریف کی موجودگی میں جنوبی ایشیا میں اکھنڈ بھارت کی فکر کو آگے بڑھانے میں ایک بہت بڑی رکاوٹ حائل ہو گئی ہے ۔ چنانچہ پٹھانکوٹ اور اُڑی کے خوساختہ حملوں کے بعد دنیا بھر میں بھارت نے ایک منظم ڈِس انفارمیشن کے ذریعے پاکستان آرمی اور آئی ایس آئی کے خلاف نام نہاد دہشت گردی میں ملوث ہونے کا زہریلا پروپیگنڈا شروع کر دیا ہے ۔ اِسی حوالے سے بھارتی فوج نے پاکستان آرمی کو نشانہ نے کی غرض سے کنٹرول لائین پر سرجیکل اِسٹرائیک کا ڈرامہ رچایا گیا ہے۔ اِسی پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ حیران کن طور پر بھارتی حکومت اور میڈیا نے پاکستانی سلامتی امور سے متعلق وزیراعظم پاکستان کے دفتر میں منعقد ہونے والے اہم اجلاس کی کاروائی ایک قومی روزنامے میں لیک یا فیڈ ہونے کے بعددنیا بھر میں پاکستان آرمی اور آئی ایس آئی کے خلاف جو شیطانی پروپیگنڈا کیا ہے اُس کی مثال حالیہ سیاسی تاریخ میں نہیں ملتی جبکہ تا حال حکومتی سطح پر اِس مذموم پروپیگنڈے کا موثر جواب دینے سے بظاہر گریز کیا گیا ہے؟ اندریں حالات ، حکومتی بے حکمتی اور مبینہ ملکی سلامتی امور کی پامالی اور دیدہ دلیری سے آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی پر پاکستانی سول سوسائیٹی اور قومی درد رکھنے والے بیرون ملک پاکستانی حیران پریشان ہیں کہ یہ کیا ہو رہا ہے اور کیوں ہو رہا ہے؟ جبکہ بھارتی حکومت تمام تر سفارتی ذرائع اور بین الاقومی میڈیا کو نان پیپرز اور بیانات کے ذریعے پاکستان آرمی اور آئی ایس آئی پر بغیر کسی شہادت کے دہشت گردی کے نام نہاد الزامات لگانے اور پاکستان میں سیاسی خلفشار پیدا کرنے کی 4 نکاتی پالیسی پر زور شور سے گامزن ہے۔ (1) پاکستانی سیاسی اور عسکری قیادت میں خلیج پیدا کرنے کی نیت سے بیک ڈور ڈپلومیسی کے ذریعے سیاسی قیادت سے دوستی اور عسکری قیادت کو isolate یعنی تنہا کرنے کی پالیسی۔ (2) بھارتی عوام کو بھارتی ایٹمی صلاحیت اور میزائل کے تجربات سے آگہی کی کھلی میڈیا پالیسی پر عمل کرتے ہوئے بھارتی عوام کو پُراعتماد بنانے اور پاکستانی اداروں پر رعب و دبدبہ جمانے کی کوشش کرنا۔ (3) انسداد دہشت گردی counter-terrorism کی نئی بھارتی ڈاکٹرئین کے ذریعے پاکستان میں دہشت پسندانہ سرگرمیوں کو فروغ دینے کیلئے خفیہ آپریشن کے ذریعے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور افواج پاکستان کو بھاری قیمت ادا کرنے پر مجبور کرناجس کا اظہار بلوچستان ، کراچی اور خیبر پی کے علاقوں میں بھارتی زیر اثر طالبان کی دہشت گرد سرگرمیوں کو مقامی سہولت کاروں کی مدد سے منظم کرکے کیا گیا ہے۔ (4) امریکہ ، اسرائیل اور یورپین ممالک وغیرہ کیساتھ دفاعی تعاون کی پالیسی اختیار کرتے ہوئے پاکستانی ایٹمی ہتھیاروں کے دہشت گردوں کے ہاتھ لگنے کا تسلسل سے پروپیگنڈا کرنا تاکہ پاکستانی ایٹمی پروگرام کو کیپ کرانے کیلئے پاکستان پر مغربی ملکوں کا دباؤ بڑھایا جائے۔ درج بالا تناظر میں سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ کیا بھارت کے جاری و ساری جارحانہ عزائم کی موجودگی ہماری سیاسی قیادت نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا ہے جس کا مظاہرہ پاکستان کے چوٹی کے ادارے میں منعقد ہونے والی قومی سلامتی کی کانفرنس کی لیک یا فیڈ کے حوالے سے کیا گیا ہے۔حقیقت یہی ہے کہ ایسی کوئی نام نہاد بے حکمت روداد بھی متعلقہ اتھارٹی کی اجازت کے بغیر اگر توڑ مڑور کر بھی شائع کی جاتی ہے تو اِسے میڈیا کی آزادی سے نہیں بلکہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی شدید خلاف ورزی سے ہی تعبیر کیا جائیگا۔ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت قومی سلامتی امور سے متعلق اطلاعات لیک یا خفیہ فیڈ کے حوالے سے شائع کرنے کا حق کسی فرد کو حاصل نہیں ہے جس کی وضاحت آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعہ 3 اور 5 میں وضاحت سے کر دی گئی ہے۔تعجب کی بات ہے کہ اِس اَمر کی انکوائری 3 روز میں مکمل کرنے کے بجائے میڈیا رپورٹس کیمطابق اب وفاقی وزیر داخلہ نے اپنے آپ کو ہی اِس انکوائری کمیٹی سے علیحدہ کر لیا ہے جبکہ متعلقہ صحافی کا نام ECL میں ڈالنے کے چند روز کے بعد ہی نکال لیا گیا ۔ حیرت ہے کہ اِس سے قبل پاناما پیپرز لیکس پر وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کی جانب سے چیف جسٹس آف پاکستان کو جوڈیشل کمیشن بنائے جانے کے حوالے سے لکھے گئے ہائی پروفائل ریفرنس خط کے جواب میں عدالت عظمیٰ کے رجسٹرار کی جانب سے وزارتِ قانون و عدل کو جاری کئے گئے خفیہ خط کے مندرجات وفاقی وزارتِ قانون میں پہنچتے ہی نہ صرف میڈیا تک پہنچ گئے بلکہ اِس خفیہ سرکاری دستاویز کی عکسی تصاویر بھی شائع کر دی گئیں تھیں چنانچہ عوام الناس میں یہی سوالات جنم لے رہے ہیں کہ کیا خفیہ کوڈ کی پاسداری حکومتی اداروں سے اپنا بستر بوریا گول کر چکی ہے اور مالی و دانشورانہ خیانت ہی سیاسی اشرافیہ کے کچھ بااثر افراد کی زندگی کا مقصد حیات بن چکی ہے جسے وقت گزرنے کیساتھ ڈیل کی سیاست نے ایک ایسے ظالمانہ سیاسی نظام میں بدل دیا گیاہے جہاں قانون اور دستور کی اہمیت ثانوی ہو کر رہ گئی ہے۔بہرحال یہ اَمر خوش آئند ہے کہ نظریۂ پاکستان کی تکمیل، ارض پاکستان کی سلامتی اور مملکت خداداد کو دہشت گردی اور اندرونی و بیرونی جارحیت سے بچانے کیلئے افواج پاکستان متحرک ہیں اور دہشت گردوں کے سہولت کاروں کی سرکوبی کیلئے جنرل راحیل شریف کی قیادت میں آپریشن ضرب عضب جاری و ساری ہے جو ملکی سلامتی امور کے تحفظ کیلئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے کیونکہ قومی سلامتی امور پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ یہی وہ فکر ہے جس نے ہمارے نوجوانوں اور بزرگ شہریوں میں مایوسی کی جگہ دفاعِ پاکستان کی فکر کا نیا جذبہ، نئی اُمنگ اور جنون کی کیفیت پیدا کی ہے جو ہمارے ازلی دشمن کیلئے پاکستان کی سلامتی کی خاطر بے مثال قربانیاں دینے کے عزم کا پیغام ہے۔ اﷲ ہمارا حافظ و ناصر ہو۔
Rana Abdul Baqi
About the Author: Rana Abdul Baqi Read More Articles by Rana Abdul Baqi: 4 Articles with 2415 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.