مجھے امّی ابّو سے کہنا ہے کہ ۔۔۔
(Khuram Shahzad, Karachi)
میں سات برس کا تھا۔عمر کا ہر دور اپنے
ساتھ نیا شوق لایا۔پتنگ بازی اُن دنوں من بھائی ۔بڑے چچازاد بھائی خوب
پتنگیں اُڑاتے ۔ دو، ایک پتنگ کاٹتے ،بو کاٹا کے نعرے لگتے جس پر فاتحانہ
انداز سے مجھے پتنگ تھما دی جاتی ۔ میرے لئے یہ کافی نہ ہوتا ۔خیر! میرے
ہاتھ پتنگوں کے تنکے ہی آتے۔میں خمدار تنکے کے دونوں سرے دھاگے سے اس طرح
جوڑتا کہ ایک کمان بنتی، دوسرا تیر ۔ کبھی جب دل چاہتا کہ تیر آسمان کی
بلندیوں کو چیرکر کسی ستارے کو مسخّر کرے۔کمان کمزور ہوتی اور تیر کھینچتے
ہی ٹوٹ جاتی۔ماں باپ بھی اولاد سے اسی طرح اُمیدیں لگا لیتے ہیں ۔کمان کے
مضبوط ہونے کا انتظار نہیں کرتے اور نہ سمجھ بچے کی طرح کمان توڑ بیٹھتے
ہیں ۔ |
|