بلا مقابلہ؟

عوام ابھی اس خوشخبری سے لطف اندوز ہی ہور ہے تھے، کہ ایک اور نسبتاً کم درجہ کی خوشخبری آپہنچی۔ ابھی وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف کے پاکستان مسلم لیگ ن کے بلا مقابلہ صدر منتخب ہونے کی خبر کی روشنائی خشک نہ ہوئی تھی، کہ برادرِ خورد ، خادمِ اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی بھی ایسی ہی خبر منظرِ عام پر آگئی، کہ وہ بھی پنجاب کے بلا مقابلہ صدر منتخب ہوگئے ہیں، اس خبر کے ساتھ ہی ایک تیسری خبر یہ سامنے آئی کہ پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ چوہدری پرویز الہٰی بھی اپنی پارٹی کے بلا مقابلہ صدر منتخب ہوگئے ہیں، صفحہ آخر پر ایک اور خبر پر نگاہ پڑی، جس میں بتایا گیا تھا کہ بیرسٹر وسیم الحسن جمیعت العلمائے پاکستان پنجاب کے بلا مقابلہ صدر منتخب ہو گئے۔ ان تمام لوگوں کے مقابلہ میں اول تو کسی صاحب نے آنے کی کوشش ہی نہیں کی، اگر آبھی گئے تو کاغذات واپس لے لئے، اگر نہیں لئے تو انہیں ووٹ کوئی نہیں ملا۔ ان میں سے کسی پارٹی کے بھی کسی رکن کی یہ مجال نہیں کہ پارٹی کے طے شدہ منصوبہ بندی کے خلاف کاغذ جمع کروائے، یا آپس میں بھی رائے لی جائے، جو فیصلہ ’اوپر‘ سے ہوگا، اسی پر عمل کرنا پڑے گا ۔

پاکستان میں سیاسی پارٹیوں کی کہانی خاندانوں سے باہر نہیں نکلتی۔ وزیراعظم کے بلا مقابلہ منتخب ہونے کے پیچھے یہی حقیقت کارفرما ہے کہ پارٹی ان کی ذاتی جاگیر ہے۔ اس سے زیادہ کیا ہو کہ پارٹی خود وزیراعظم کے نام پر ہے۔ نام پر پارٹی بنانے کا مطلب یہی ہے کہ کوئی دوسرا اُس طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھے۔ جو رہنما یا کارکن ایسی پارٹی کا حصہ ہیں، وہ اول دن سے ہی یہ سوچ کر وہاں آئے ہیں کہ فلاں صاحب کی قیادت میں ہی سفر کرنا ہے۔ یہ بات بھی آئینے کی طرح عیاں ہے کہ پارٹیوں میں مشاورت برائے نام ہی ہوتی ہے۔ ایسا بھی حکومت ملنے کی صورت میں کرنا پڑتا ہے، اگر پارٹی اپوزیشن میں ہے تو مشاورت کی زیادہ ضرورت ہی نہیں۔ موجودہ حکومتی پارٹی کا تو ماضی بھی گواہ ہے کہ یہ مشورہ وغیرہ لینے کو زیادہ مناسب خیال نہیں کرتے ، حتیٰ کہ جب جناب نواز شریف پہلی مرتبہ وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوئے تو اُن کی حکومت اتحاد کی بنیاد پر قائم ہوئی تھی، مگر چند ہی ماہ میں انہوں نے اتحاد کے اجلاس بلانا اور اتحادیوں سے مشاورت کرنا بھی ترک کردیا۔ پارٹی میں بھی ان کے چند ہی خاص لوگ ہیں جن سے شاید وہ مشور ہ کرتے ہوں۔ مشاورت کی ضرورت وہاں ہوتی ہے، جہاں کسی کو کوئی اہمیت دی جائے، جہاں بادشاہت ہو وہاں باقی لوگ رعایا کی حیثیت ہی رکھتے ہیں۔

پاکستان میں تمام سیاسی جماعتیں ذاتی جاگیر یا ذاتی کاروبار سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتیں۔ اب الیکشن کمیشن کی کاغذی کارروائیوں کی تکمیل کے لئے پارٹیوں کے الیکشن ضروری ہو گئے تھے، ورنہ الیکشن میں نشان بھی الاٹ نہ ہوتا اور ممکن ہے پارٹی کے نام پر الیکشن لڑنے پر بھی پابندی لگا دی جاتی۔ الیکشن کمیشن کو بھی اچھی طرح خبر ہے کہ یہ الیکشن فائلوں کے پیٹ بھرنے کے لئے کروا دیئے جاتے ہیں۔ پارٹیوں نے ستم تو یہ کیا کہ ’بلامقابلہ‘ ہی اپنے صدور منتخب کروا لئے، وہ چاہتے تو افسانے کو کچھ رنگ دیا جاسکتا تھا، اور پارٹی کے اندر ہی ایک آدھ امیدوار کو آگے آنے دیتے ، انتخاب کا ماحول جاندار بن جاتا۔ مگر بات وہی بادشاہت کی آجاتی ہے، بلا مقابلہ کا بھی اپنا ہی مزہ ہے، کسی کی اہمیت اس قدر ہو جائے کہ کوئی مقابلے میں آنے کی ہمت ہی نہ کرے، یا احترام اس قدر ہو کہ کوئی مقابلے کے لئے سامنے ہی نہ آئے۔ لیکن اپنے ہاں پارٹیوں میں الیکشن صرف الیکشن کمیشن کو مطمئن کرنے کے لئے کروائے جاتے ہیں۔ بڑی سیٹوں پر امیدواروں کی کارروائی ڈال دی اور چھوٹی سیٹوں پر نامزدگیاں کردیں، یوں پارٹی کے اندر الیکشن کے تمام مراحل خوش اسلوبی اور ملی بھگت سے ادا ہو جاتے ہیں۔ اگر تحریک انصاف نے کچھ عرصہ قبل انٹرا پارٹی الیکشن کروانے کی کوشش کی تھی تو بری طرح ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا، یہی کام اگر مسلم لیگ ن یا اسی قسم کی کوئی اور پارٹی بھی مقامی سطح پر کرے گی تو یہی حشر ہوگا۔ مگر مرکزی سطح پر ہونے والے الیکشن میں تحریک انصاف ہو یا مسلم لیگ ن اور یا پھر پیپلز پارٹی، سب کا انتخابی نظام اور نتیجہ ایک جیسا ہی ہوتا ہے، کہ جو پارٹی کا مالک ہے وہی صدر بنے گا۔ اس کے ساتھ کسی کا مقابلہ نہیں، وہ بلا مقابلہ ہی کامیاب ہوگا۔
 
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 427970 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.