تحریر: زریاب
فاطمہ سکندر
پاکستان میں دھرنے، الزامات، جلسے اور پھر احتساب اسی کا نام حکومت اور
جمہوریت رکھا گیا ہے۔ یہ سلسلہ پچھلے کئی برسوں سے بڑے زور و شور سے جاری
ہے۔ احتساب کیا اور سیاست کسے کہتے ہیں خود بہت سے وہ لوگ بھی نہیں جانتے
جو جگہ جگہ اس بات کا راگ الاپتے نہیں تھکتے۔ طرز حکومت کو سمجھنے کے لیے
اس قبل بھی بیشتر مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ ایک حکمرانی کا انداز خلیفہ رسول
صلی اﷲ علیہ وسلم حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کا بھی تھا۔
حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کے امیر المومنین ہونے کے دور کی بات ہے کہ کفار
کے خلاف جنگ ہوئی اور مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی۔ فتح کے بعد حاصل ہونے
والے مال غنیمت کو سب افراد میں برابر تقسیم کر دیا گیا۔ جو کہ اس غزوہ میں
شامل تھے۔ سب کے برابر حصے ہونے کی وجہ سے حضرت عمر فاروقؓ کے حصہ میں بھی
ایک چادر آئی۔ لیکن دراز قد ہونے کی وجہ سے ایک چادر سے ان کا جوڑا نہ بن
پایا چونکہ آپؓ کے بیٹے بھی اسی غزوہ میں شامل تھے تو انہوں نے اپنے حصے
میں آنے والی چادر بھی اپنے والد محترم کو دے دی کہ آپؓ اپنا لباس بنا لیں۔
اگلے دن دو چادروں سے بنا لباس پہن کر جب حضرت عمر فاروقؓ باہر لوگوں سے
ملے تو وہاں موجود کئی افرادنے آپؓ کو حیرت سے دیکھا اور کہنے لگے کہ اے
عمر ؓ تو نے کس طرح اپنی چادر سے لباس مکمل بنا لیا جبکہ ہمارا لباس نہیں
بنا جبکہ تو دراز قد بھی ہے۔ یقینا مال غنیمت سے اپنے لیے دو چادریں لی ہوں
گی۔ حضرت عمر ؓ اس وقت کے خلیفہ تھے امیر المومنین تھے۔ چاہتے تو جواب نہ
دیتے اور چاہتے تو ان سب کے منہ بند کرو ا سکتے تھے لیکن آپؓ نے ایسا نہیں
کیا ، بلکہ انہیں کو جواب دیا۔ اپنے بیٹے کو بلایا اور اُس نے کہا کہ میرے
والد نے میری چادر بھی لی ہے اپنا لباس بنانے کے لیے انہوں نے مال غنیمت سے
ایمانداری کے ساتھ وہی کچھ لیا ہے جو دوسروں کے حصوں میں آ یا ہے۔
وہ عمر ؓ تھے جن کو جنت کی بشارت دنیا میں دے دی گئی تھی جن کے بارے میں
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتا۔ کیا
یہ شخص بے ایمانی یا حق تلفی کر سکتا تھا؟ نہیں۔ کیونکہ اس کے سینے میں خوف
خدا تھا۔ قیامت کے دن کا ڈر تھا۔ حق مارنے کا خوف تھا۔ ظلم کرنے سے گھبراتا
تھا۔ خدا پہ اور روزِ احتساب پہ یقین تھا اور ڈر تھا۔ یہ وہ حکمران تھا جو
کہتا تھادریائے نیل کے کنارے اگر کوئی کتا بھی بسا بس مر جاتا ہے تو میں اس
کا بھی جوابدہ ہوں۔ یہ وہ لوگ تھے جو ہمارااسلاف تھے جو ہمارے لیے مشعل راہ
اور مثال تھے۔
اب ہم اور ہمارے حکمران کیا کر رہے ہیں۔ کس طرف جا رہے ہیں؟ اگر ہمارے وزیر
اعظم سے کوئی پوچھتا ہے کہ یہ اتنا پیسا کہاں سے آیا؟ یہ اسٹیل ملیں اور
شوگر ملیں کہاں سے آئی ہیں تو وہ خود کو مستثنیٰ تصور کرتے ہیں کہتے ہیں
ہمارا اپنا ہے۔ اگر اِن سے پوچھا جائے کہ یہ آف شور کمپنیاں کہاں سے آئی
ہیں تو جواب آتا ہے تمہاری بھی تو ہیں۔ ہم تو خاندانی رئیس ہیں۔ جب ان
چوروں ، لٹیروں سے احتساب کی بات کی جاتی ہے تو قومی احتساب کا ادارہ بے بس
ہو کر رہ جاتا ہے کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹایا
عمران خان نے تو کسی نے ساتھ نہیں دیا۔ جب جب بات ان کے پیسے اور مال اکھٹا
کرنے کی ہوئی تب تب گریبانوں تک جانے والے ہاتھ گمنان طریقے سے کٹے گئے۔
اور یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی ذات پر کتاب لکھتے ہوئے خود کو اس عمرؓ سے ملاتے
ہیں۔
کہاں یہ اور کہاں وہ؟ جب عمران خان نے تحریک احتساب کی بات کی تو قوم ساتھ
کھڑی نہ ہوئی۔ اداروں نے ساتھ نہ دیا۔ جب عمران خان نے لوٹا ہوا پیسا کھایا
ہوا مال ان سے نکالنے کی کوشش کی تو ساری قوم پھر بھی ساتھ کھڑی نہ ہوئی۔
کوئی ادارہ قانون اس انسان کا ساتھ نہیں دے رہا۔ عوام میں شعور کو اجاگر
کرنے کی تگ ودو کی جارہی ہے تاہم عوام ہے کہ بے حسی کی انتہا ہے۔ کل تاریخ
اپنے سنہری حروف میں عمران خان کے بارے لکھے گی کہ ــ’’ ایک پاگل شخص تھا
جو پاگل قوم کے لیے پاگل تھا‘‘ وزیر اعظم ہاؤس کا سالانہ خرچہ حد سے تجاوز
کرتا ہوا 86 کروڑ ماہانہ ہو گیا ہے لیکن ہم میں شعور نہیں کہ اپنے ٹیکس کے
دیے ہوئے پیسوں کو یوں پامال کرنے پر اس کو پکڑسکیں۔ جس طرح نواز شہباز
برادران نے الیکشن سے پہلے دو سال چھ ماہ میں مسائل حل کرنے زرداری کو
سڑکوں پر گھسیٹنے کا وعدہ کیا تھا اور آج یہ حال ہے ۔
اگر کوئی با شعور اور عزت دار قوم یہاں پر ہوتی تو آج یقینا ملک کی تقدیر
بدل چکی ہوتی ہے۔ یہاں پر موروثی سیاست کے جنازے نکل چکے ہوتے۔ ہماری سب سے
بڑی پریشانی یہ ہے کہ سیاست دان باریاں بدل بدل کر آتے ہیں اور ایک دوسرے
کو فرینڈلی اپوزیشن کے ذریعے مظبوط کرتے ہیں اور یوں عوام ان کے ہاتھوں بے
وقوف بنتی رہتی ہے۔ آخر کب تک ایسا ہوگا ، ہم با شعور اور عزت مند قوموں
میں شمار ہوں گے۔ آج تو ہر شخص یہ سوچتا ہے کہ ہمارا کیا لینا دینا؟ مگر
ایک حقیقت ہے کہ جس دن پاکستان میں جہالت ختم ہوگئی موروثی سیاست اور کرپٹ
حکمرانوں کا صفایا ہوجائے گا۔ بس اس وقت کا انتظار ہے جانے وہ کب آئے۔ |