پاکستان مسلم
لیگ کے سینئر رہنما ظفر علی شاہ دنیائے سیاست کے ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں
نے سیاست کا بھرم رکھا ہوا ہے۔مجھے ان کے ساتھ کچھ عرصہ کام کرنے کا موقع
ملا ہے۔
اندر کی بات بتاؤں شاہ جی پیسے والوں کے ہاتھوں مار کھا گئے انہی دنوں
سیاست میں ایک نووارد جوان داخل ہوئے جن کا نام ڈاکٹر طارق فضل ہیں۔۲۰۰۲ سے
۲۰۰۷ تک میں نے کبھی ہلکی اور کبھی تیز سیاست ان کے ساتھ کی۔میں جب جدہ میں
اسیری کاٹ کے خالی دامن پاکستان پہنچا تو نون لیگ ڈری سہمی ہوئی تھی خود
میاں صاحب فون کیا کرتے۔ یوم تکبیر پر چالیس لوگ لے کر آیا تو پارٹی نے سر
پر اٹھا لیا کون نکلتا تھا مشرف کے سامنے ۔ہم ہی سر پھرے تھے جو زمانہ طالب
علمی سے سٹھیانے تک سڑکوں پے ہیں۔
معدودے چند لوگوں میں سید ظفر علی شاہ ایک ایسے شخص تھے جن سے اچھی دعا
سلام رہی۔پھر ہوا یوں کہ مجھے جلد ہی پتہ چل گیا اور میں نے پارٹی چھوڑ
دی۔اس دن ان کا فون تھا کہہ رہے تھے آپ نے مسلم لیگ کیوں چھوڑی پارٹی کسی
کے باپ کی جاگیر نہیں ہوتی ڈٹے رہنا تھا۔شاہ جی کی گرفت کمزور پڑ رہی
تھی۔لوگ جب اے ٹی ایم کی بات کرتے ہیں تو مجھے کہنے میں باک نہیں کہ
پارٹیوں میں پیسہ بڑے کام کی چیز ہوتا ہے مجھے یہ تو علم نہیں کہ طارق فضل
نے کتنا پیسہ لگایا لیکن اتنا ضرور علم ہے کہ پارٹی کا دفتر بھی ان کی
کوٹھی تھی اور چیک بکوں کے دو بڑے تھیلے بھی ان کے ساتھ ہی رہا کرتے
تھے،اسی دوران ۲۰۰۸ کا الیکشن آ گیا لائیرز موومنٹ شروع ہوئی وکلاء کی اس
تحریک میں شاہ جی کا کردار بھولنے کے قابل نہیں ہے ان دنوں ان کے پاس ایک
آلٹو گاڑی تھی شائد اب بھی وہی گاڑی ہے۔نفیس اور کھڑک دار لہجے کے شاہ جی
ہمہ وقت غریب کارکنوں کی مدد کے لئے تیار رہتے تھے۔میرے بیٹوں کی شادی پر
جو ۲۰۰۹ میں ہوئی آدھی مسلم لیگی قیادت موجود تھی۔بلکہ ایک موقع پر جناب
مہتاب عباسی نے کہا نئے دوست کم پرانے زیادہ ہیں تو سوائے کھسیانی ہنسی کے
میرے پاس جواب نہ تھا۔شاہ جی سے بہت کچھ سیکھا ۔حق بات منہ پر کرنے کے طفیل
ہی جیل گیا تھا اور جرنیل اسد درانی کی مہربانی کا شکار ہوا تھا یہاں بھی
شاہ جی کے ساتھ رہا۔ایک روز ایک چینیل پر برملا کہا کہ شاہ جی میرے سیاسی
استاد ہیں مجھے علم تھا کہ یہ بندہ کسی بھی وقت کسی بڑے جھوٹ کے سامنے ڈٹ
جائے گا۔آج ظفر علی شاہ نے اپنی ہی حکومت کی دھجیاں اڑا دیں۔انہوں نے مسلم
لیگی انٹرا پارٹی انتحابات پر جس انداز سے تبصرہ کیا وہ سننے لائق تھا۔مسلم
لیگ سعودی عرب کے ایک انتہائی سینئر رہنما جو الریاض سے اسلام آباد آئے تھے
میں اور وہ انتحابی روداد کو سن کر لوٹ پوٹ ہوئے۔سچی بات ہے مین کھل کر
تنقید نہیں کر سکتا اس لئے کہ ابھی ہم بھی اسی حمام میں ہیں جس دن ہمارے
انٹرا پارٹی انتحابات ہوئے تو اس موضوع پر بات کروں گا۔ویسے جتنے بھی
الیکشن ہوئے سارے ہی الیکشن کمشنر ذلی و خوار ہوئے مگر سرخروئی ملی تو
ہمارے قریبی عزیز چودھری جعفر اقبال گجر کو جو کل کے مختار کل تھے۔
ظفر علی شاہ کے ساتھ پارٹی نے جو کچھ کیا وہ ہم سب نے بلدیاتی انتحابات میں
دیکھ لیا ۔سچ بولنے والے کو جو سزا میاں صاحب دیتے ہیں وہ دیکھنی ہو تو ظفر
علی شاہ کی صورت میں دیکھی جا سکتی ہے۔میاں صاحب میں کمال یہ ہے کہ وہ اپنے
مخالف کو گھر تک چھوڑ کے آتے ہیں۔چودھری اختر علی وریو کہا کرتے تھے لوگ
فلور پر میرے ساتھ کھڑا ہونا پسند نہیں کرتے تھے کہ میاں نواز شریف نے دیکھ
لیا تو خانہ خراب ہو جائے گا۔ان کی کیا بات کریں میرے ابا جی کے ایک دوست
علی محمد دھاریوال ہوا کرتے تھے گجرانوالہ سے ایم این اے تھے غلطی سے
ذوالفقار علی بھٹو کو کہہ بیٹھے کہ آپ غریبوں کا کھانا نہیں کھاتے ڈی سی کا
کیوں کھاتے ہیں۔بھٹو صاحب نے بھرے مجمعے میں ان کی اوقات جو وہ اپنے نزدیک
سمجھتے تھے بیان کر دی حالاں کہ وہ بڑے عزت دار وکیل تھے۔ہوا کیا علی محمد
دھاریوال اسی صدمے سے دل کے عارضے میں مبتلا ہو کر اس دنیا سے چلے گئے۔ظفر
علی شاہ نے لندن کے ایک اجتماع مین شہنشاہ کے سامنے اونچی آواز میں کچھ کہہ
دیا تھا جو نازک آبگینے کو کرچی کرچی کر گیا۔
جس دن ظفر علی شاہ چیئرمین کا الیکشن ہارے اسی دن میرے سامنے چیک بکوں کے
دو تھیلے آ گئے ذہانت۔مطانت،جراء ت اور بہادری چیک بک سے مار کھا گئی طارق
فضل پرانے دوست ہیں آج ٹی وی پر چودھری نثار علی خان کی مدح سرائی کر رہے
تھے تو میں سوچ رہا تھا کہ چودھری نثار کو تو کوئی چیک بک نہیں ہرا سکتی بس
اس قسم کی ملمع سازی ہی شائد مات دلوا دے۔
جناب شاہ جی نے کہا کہ مشرف کے ریفرینڈم اور مسلم لیگ کے انتحابات میں انیس
بیس کا فرق ہے وہ یہ بھی کہہ گئے کہ انیس کسی کو بھی کہہ لیں۔
جناب ظفر علی شاہ عمر کے اس حصے میں ہیں کہ وہ پارٹی نہیں چھوڑ سکتے لیکن
حقیقت یہ ہے کہ پارٹی انہیں چھوڑ چکی ہے۔وہ تو لوگوں کو کہتے رہے کہ پارٹی
کسی کے باپ کی جاگیر نہیں ہے لیکن جس دن انہیں کوئی ایسا بندہ مل گیا وہ
چھوڑ دین گے۔رکے ہوئے متعفن سیاسی جوہڑ میں کنول ہیں آپ۔
|