بحث مباحثہ ، مناظرے یا پھر لفظی
جارحیت سے ہمیشہ گریز کی راہ اختیار کی ہے ، با حیثیت مسلم پختون پاکستانی
ہونے کے ناطے مختلف مسلم ممالک میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر قتل و غارت گیری
اس قدر زیادہ دیکھی کہ ایسا لگتا ہے کہ جیسے قیامت واقع ہو گئی ہو، شام میں
کیمونسٹ نظریات کے حامل رروس کی جانب سے مسلمانوں پر کلسٹر بمباریاں ، عراق
میں داعش کی جانب سے بچوں کے ہاتھوں میں خنجر دے کر گلے کاٹنے کی ویڈیوز ،
بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ نچلی ذات سے بھی بدتر سلوک ، کشمیر میں مظلوم
مسلمانوں پر بھارتی جارحیت ، پھر الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کی طرح ،
پاکستان پر در اندازیاں اور پاکستان علاقوں پر بمباریاں ، افغانستان میں
امریکی جارحیت اور افغان جنگجوؤں کی جانب سے مسلمانوں کی سر زمین پر قبضے
کے مسلسل 15سال ، بر ما میں روہنگیا مسلمانوں پر قیامت صغری ، یمن میں دو
ہاتھیوں کے بیچ عوام کا پس جانا ،فلسطینی مسلمانوں کا اسرائیل کے ہاتھوں
ہولو کاسٹ ،افریقی ممالک میں مسلمانوں کو درپیش مسائل ، مغربی ممالک میں
مسلم فوبیا کے شکار ، مسلم امہ کہ جیسے کوئی اچھوت ہوں کہ کہیں ان کو چھونے
سے کوئی دھماکہ نہ ہو جائے ، کشمیر سمیت تمام مسلم ممالک میں اندلس کی
تاریخ دوہرائی جا رہی ہے اور عرب ملوکیت اسباب اور و سائل ہونے کے باجود
نیرو کی طرح بانسری بجا رہے ہیں۔
میں جہاں بھی مسلمانوں کی حالت زار دیکھتا ہوں ، تو دل خون کے آنسو روتا ہے
کہ خراج لینے والی امت واحدہ ، آج اپنی فرقہ بندیوں کی وجہ سے خراج اپنے
خون سے ادا کر رہی ہے۔پاکستان کے موجودہ حالات دیمک کی طرح اس کی سلامتی کو
کھا رہے ہیں اور آنے والے بدترین حالات کے بجائے ہمیں جنت کے باغ دکھائے جا
رہے ہیں ، دل سے دعا تو یہی ہے کہ یہ خوشنما و جھوٹے وعدے سچے ثابت ہوں ،
پاکستانی سیاست دان جھوٹ بولتے رہیں اور اﷲ تعالی ان کے جھوٹ کو سچ ثابت
کرتا جائے ، کاش کہ ایسا ہوجاتا تو دنیا میں ہر جگہ امن کا بول بولا ہوتا ۔
لیکن ایسا نہیں ہوتا۔کیونکہ عمل کے بغیر کچھ بھی نہیں ہوتا ، اور ہمارے
اعمال ایسے ، جیسے دیکھ کر شرمائیں ہنود ، ۔۔میں خود ایک گناہ گار بندہ ہوں
، مجھے کوئی راستہ سجھائی اس لئے نہیں دیتا کیونکہ میری اپنی حدود ہیں ،
میں اپنی حدود سے متجاوز نہیں ہوسکتا ، عام فہم انداز میں یہ سمجھ لیں کہ
پوری دنیا کا ٹھیکہ نہیں لے رکھا ، لیکن دل چاہتا ہے کہ دنیا میں امن قائم
ہو ، سلامتی ہو، خوشحالی ہو ، سکون ہو، لیکن خیر و شر کی اس جنگ میں ایسا
ممکن نہیں ہے کیونکہ جب سے دنیا وجود میں آئی ہے ، خیر کے ساتھ شر کی جنگ
جاری رہی ہے ، میں امریکہ کو مسلم ممالک میں جارحیت کرنے سے نہیں روک سکتا
، لیکن ان تک میری یہ بات ضرور پہنچ جائے گی کہ اس آتش نمرود کو اتنا مت
بھڑکاؤ کہ مشرق سے مغرب تک آگ کے شعلوں سے اپنے گھروں کو بھی جلا بیٹھو ،
عراق میں بلاجواز قبضے و پھرفرقہ وارانہ خانہ جنگی کرانے کے بعد داعش کے
خلاف ایک بار پھر67ممالک کے ساتھ میدان جنگ میں سب کو اتار لائے ہو ،سب کو
آگے کرکے اپنے 500فوجیوں کے ساتھ سب کے پیچھے ہو تاکہ بھاگنے میں سب سے
پہلے بھاگو۔ اگر عراق پر جھوٹی رپورٹ بنا کر حملہ نہ کرتے تو آج ، داعش
دنیا کا سب سے بڑا خطرہ بن کر سامنے نہیں آتی ، داعش ، جیسی تنظیمیں تم خود
بناتے ہو ، پھر کہتے ہو کہ دنیا کو ان سے خطرہ ہے ، یہ کیوں نہیں کہتے کہ
امریکہ و مغرب کو مکافات عمل سے خوف آتا ہے ۔
آزادی نسواں کے نام پر دنیا بھر میں جھوٹ کا پرچار کرنے والے ، اپنی
239سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی خاتون کو امریکی صدر منتخب کرنے جا رہے
ہیں جن کو 1920میں پہلی مرتبہ ووٹ ڈالنے کا حق دیا گیا، ، اور صدر منتخب
ہونے کے لئے امریکہ کے دونوں نمایاں امیدوار عورت کی حرمت کا ہی استعمال کر
رہے ہیں، یہ وہی امریکہ ہے جہاں خواتین کو یکساں حقوق دلانے کی تنظیم کی
ریلی میں مرد و زن برہنہ ہوکر اجتماعی پریڈ کرتے ہیں ،اسی امریکہ کا ٹرمپ
جنسی مریض اور ذہنی خلجان کا شکار، صیاد اپنے دام میں خود آچکا ہے ، منہ سے
نکلی بات ، اور کمان سے نکلا تیر کبھی واپس نہیں آتے ، یہی حال امریکی
سیاست کا ہے آ ج امریکی انتخابات میں عورت کی عزت کو جنگ کا میدان بنا کر
دنیا میں نیلام کر رہے ہیں جس کی قیمت وہ امریکی عوام سے ووٹ کی شکل میں
وصول کرنا چاہتے ہیں ۔ ٹرمپ ، سیکس اسکینڈل میں الجھ گیا تو دوسری جانب
ہیلری کلنٹن ، اپنے شوہر کی نازیبا حرکات کو بھول کر ، اپنی ہی جنس کو ٹرمپ
کے خلاف ٹرمپ کارڈ کے طور پر باقاعدہ مہم کی صورت میں استعمال کررہی ہیں ،دونوں
امید وار یہ بھول گئے ہیں کہ یہ سب تو ان کے معاشرے کا حصہ ہیں ، جو انھوں
نے اپنی عوام کے نا بالغ اذہان میں بھر دیئے ہیں ۔انھیں عراق و شام،فلسطین
،برما ، کشمیر ،افغانستان کے وہ باپردہ خواتین کہاں نظر آئیں گی ، جن کو یہ
بیوہ ، کرچکے ہیں ، جن کے بچوں سے والدین کا سایہ اوران کی شفقت چھین چکے
ہیں ، مغربی کے اس ابولہول کو اسلامی شعائر میں لیپٹی کشمیر کی بیٹی نظر
نہیں آئے گی ، افغانستان کی وہ باپردہ خواتین کے سامنے یہ اندھے ہوجاتے ہیں
، جنھیں پرائی آنکھوں نے دیکھا نہیں تھا ، شام ، عراق ، برما کی ان خواتین
کی حالت ان کو کبھی نظر نہیں آئی گی کیونکہ ان کی نظریں برہنگی و درندگی
دیکھنے کی عادی ہوچکی ہیں ، یہ مظلومیت و حسرت و یاس کی تصویروں کو آرٹ
گیلری کا حصہ تو بنا سکتے ہیں لیکن ان کے سر پر چادر نہیں رہ سکتے ۔امریکہ
اور اس کے حلٖیفوں کو اسرائیل سے ایسا ہی پیار ہے کہ وہ اس کی محبت میں
اندھا ہوچکا ہے کہ، فلسطین ،روہنگیا ،افغانستان،کشمیر، عراق اور شام میں
ہونے والی بربریت اسے نظر ہی نہیں آتی ، کیونکہ پیار اندھا ہوتا ہے۔ آج روس
، مسلم ملک شام کا اسی طرح ساتھ دے رہا ہے جس طرح افغانستان میں ، امن کا
نام لیکر آیا تھا ، لیکن جب وہ واپس گیا ، تو اس سکندر کے دونوں ہاتھ خالی
تھے۔
بھارت اپنی انتہا پسندی میں اس قدر بڑھ چکا ہے کہ ایسے پاکستانی’ میراثی‘
بھی پسند نہیں ، ان کی غیرت کشمیریوں کے خون میں بہہ جاتی تھی کہ کہ فن
کاروں کی کوئی سرحد نہیں ہوتی ،اس لئے ہمیشہ ذلیل کرکے بھارت سے نکالے جاتے
ہیں ، اور پھر ذلیل ہونے کیلئے دوبارہ بھارت جاتے ہیں، میرے نزدیک شیوسینا
ان کے ساتھ کو کرتی ہے درست کرتی ہے ، ان کے نزدیک سکہ رائج الوقت اہمیت
رکھتا ہے، انھیں کشمیری مسلمانوں پر ہونے والے مظالم سے کیا واسطہ۔یہ
بلاشبہ بے حس و سفاک کردار کے حامل لوگ ہیں۔ |