میرا پاکستان کیسا ہو ؟؟؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(Malik Muhammad Shahbaz, )
قائد اعظم ؒ کی قیادت میں مسلمانوں نے دن
رات انتھک محنت کر کے پاکستان حاصل کیا۔اس ملک کی بنیادوں میں لاکھوں
مسلمانوں کا خون شامل ہے۔ بزرگوں نے اپنے جوان بیٹے اپنی آنکھوں کے سامنے
ذبح ہوتے دیکھے۔مسلمانوں نے اپنا تن ، من ، دھن قربان کر دیا۔اپنے جسم و
جاں کی پروا ہ نہیں کی ، اپنے مال و متاع کی پرواہ نہیں کی۔ پاکستان کو
لاالہ الا اﷲ کی بنیاد پر حاصل کیا گیا جس کی خاطر خون کے دریا بہا دیے گئے
۔ قیام پاکستان عمل میں آیا تو مسلمانوں نے اپنی جائیدادیں ، مال و دولت
چھوڑ کر پاک سرزمین کی طرف ہجرت شروع کردی ۔ دوران سفر ہزاروں مسلمانوں کو
قتل کردیا گیا ، خواتین کی سرعام عصمت دری کی گئی ۔ قدم قدم پر مسلمانوں پر
ظلم وستم ہوئے مگر مسلمانوں نے ہار نہیں مانی اور پاکستان کی طرف سفر جاری
و ساری رکھا ۔ مسلمانوں نے یہ ظلم و ستم کیوں برداشت کیے ؟ اپنا تن ، من ،
دھن کیوں لٹا دیا؟ اپنی جائیداد اور مال و دولت کی کیوں پرواہ نہیں کی؟
خواتین کی عصمت دری کیوں سہنا پڑی؟ ان سب سوالوں کے پیچھے ایک ہی وجہ ہے کہ
پاکستان جو لاالہ الا اﷲ کی بنیاد پر بن رہا ہے یہاں ضرور مسلمانوں کو تحفظ
ملے گا۔کلمہ طیبہ کی بنیاد پر بننے والا ملک پاکستان مسلمانوں کے جان و مال
کا محافظ بنے گا ۔پاکستان امن کا گہوارہ بنے گا، غریبوں اور کمزور وں کا
سہارہ بنے گا۔ پاکستان میں عبادات کی مکمل آزادی ہوگی ۔ ہر طرح کاخوف و ڈر
ختم ہوجائے گا۔ انہی امیدوں کو مد نظر رکھ کر مسلمانوں نے تحریک پاکستان کو
مثالی تحریک ثابت کر دیا۔ مال لٹتا ہے تو لٹ جائے ، جان جاتی ہے تو چلی
جائے مگر تحریک پاکستان کو ناکام نہیں ہونے دیں گے ۔
جنونی جذبات کے ساتھ تحریک پاکستان کو آگے بڑھاتے بڑھاتے آخر کار 14 اگست
1947 کو پاکستان حاصل کر لیاگیا۔ مسلمان جوق در جوق ہجرت کرتے ہوئے پاک
سرزمین کی طرف آ رہے تھے ۔ایک قافلے کے ساتھ ایک ایسا خاندان تھا کہ جس کا
سربراہ تحریک پاکستان میں شہید ہوچکا تھا۔ باقی ماندہ خاندان کاجس میں چار
بچے اور ایک ان کی ماں شامل تھی پاکستان کی طرف سفر رواں دواں تھا۔راستے
میں دوران سفر ایک بچے کو شہید کردیا گیا ۔ تھوڑا مزید آگے بڑھے تو ایک بچہ
مزید شہید کردیا گیا، اسی طرح ایک ایک کر کے چاروں بچے شہید کردیئے گئے اور
باپ پہلے ہی شہید ہوچکا تھا ۔ سارے کا سارا خاندان تباہ ہوگیا صرف اور صرف
بچوں کی ماں باقی بچی مگر اس بہادر خاتون نے ہمت نہ ہاری اور اپنا سفر جاری
رکھا اور آخر کار پاکستان کی سرحد پر قدم رکھا اور سجدہ ریز ہوگئی۔ علامہ
احسان الٰہی ظہیر ؒ لکھتے ہیں کہ اس خاتون نے سجدے سے اٹھ کر چلانا شروع
کردیا ۔ لوگوں نے پوچھا کہ اے خاتون تم تو بخیر وعافیت پاکستان پہنچ گئی ہو
تم کیوں چلا رہی ہو؟ اور اگر اس وجہ سے چلا رہی ہو کہ تمہارا کوئی شہید
ہوگیا یا کوئی مال لوٹ لیا گیا تو یہ کوئی بڑی بات نہیں۔ یہاں ہر ایک اپنا
سب کچھ لٹا کر پاکستان پہنچا ہے لیکن تم کیوں چلا رہی ہو۔وہ خاتون جواب
دیتی ہے کہ اے سوال کرنے والے سن! مجھے یہ دکھ نہیں کہ میرا خاوند شہید
ہوگیا ، میرے بچے شہید ہوگئے بلکہ دکھ تو اس بات کا ہے کہ میرا خاوند اور
میرے بچے یعنی میرا پورا خاندان اس پاک سرزمین کو چھو نہ سکا۔ اس قدر خوش
تھے پاک سرزمین پر قدم رکھنے والے کہ خوشی سے رونا اور چلانا شروع ہوگئے
تھے۔ یہ خوشیاں کیوں تھی؟ اپنا سب کچھ لٹا کر بھی پاک سرزمین پر قدم رکھنے
والے کیوں خوش تھے؟
اس کی وجہ یہی تھی کہ انہیں ایک روشن مستقبل نظر آرہا تھا۔ امن و سکون کی
امید نظر آرہی تھی ۔ عبادات ، رہن سہن میں آزادی نظر آ رہی تھی اسی وجہ سے
اپنے تمام غم بھلا کر خوشی سے سجدہ ریزی کے مناظر پیش کرہے تھے۔ پاکستان
ایسا ہی ہونا چاہیے تھا ۔ جو ملک کلمہ طیبہ کی بنیاد پر بنا ہووہ ملک امن
کا گہوارہ ہوتاہے۔ مگر آج ہمارے ملک میں سب کچھ الٹی سمت میں جا رہا ہے۔
علامہ اقبال ؒ کے خواب کی تعبیر کی صورت میں ملنے والا پاکستان آج دہشت
گردی کی نظر ہوچکا ہے۔ کہیں خودکش ، کہیں ڈرون، ہر سو بربادی ہی بربادی نظر
آرہی ہے۔ نوجوان پڑھے لکھے ہونے کے باوجود نوکری ( ملازمت) کی تلاش میں در
در دھکے کھانے پہ مجبور ہوچکے ہیں۔یہ پاکستان جس کی بنیادوں میں لاکھوں
شہداء کا خون شامل ہے آج یہاں سکھ کا سانس لینا مشکل ہوچکا ہے۔ایک طرف
خودکش حملہ آور جان کے دشمن بن چکے ہیں تو دوسری طرف ٹارگٹ کلنگ عام ہوچکی
ہے۔حالات اس قدر شدید ہوچکے ہیں کہ صبح کو گھر سے محنت مزدوری کے لیے نکلنے
والے شخص کی واپسی کی امید بہت کم ہوتی ہے۔کیا علامہ اقبال ؒ نے ایسے ملک
کا خواب دیکھا تھا؟ نہیں نہیں ہرگز نہیں۔علامہ اقبال ؒ کے خواب کی تعبیر
ایسا ملک ہر گز نہیں ہوسکتا۔علامہ اقبال ؒکے خواب کی تعبیر ایسا ملک ہونا
چاہیے جہاں امن و سلامتی عام ہو ۔ جہاں قرآن کے اصولوں کے مطابق فیصلے ہوں۔
اقبال کے خواب کی تعبیر سے بننے والا ملک ایسا ملک ہونا چاہیے جہاں عدالتی
نظام غیر جانبدرانہ ہو ، سود اور رشوت کا نظام نہ ہو، عبادات کی آزادی ہو،
کسی قسم کا خوف نہ ہو، بچے بے فکر ہو کر سکول جائیں، کسی کو دھمکی آمیز
چٹھیاں وصول نہ ہوتی ہوں۔ایسا ہی ہونا چاہیے آج کا پاکستان کہ یہاں آج بے
روزگاری کا مکمل خاتمہ ہونا چاہیے۔ ایسا ہونا چاہیے میرا پاکستان کہ یہاں
مکمل مذہبی آزادی ہو۔ ایسا ہو میرا پاکستان کہ یہاں کوئی مدعی انصاف نہ
ملنے کی وجہ سے خود کشی نہ کرے۔ایسا ہو میرا پاکستان کہ ہسپتالوں میں سفارش
کے بغیرعلاج معالجہ ہو۔
اپوزیشن نمائندوں نے عوام کو یرغمال بنایا ہوا ہے ۔ دھرنے اور جلوسوں کی
سیاست کو فروغ دیا جارہا ہے۔دوسری جانب حکومت کی زیادہ تر توجہ پبلسٹی پر
ہے ۔ صحت کارڈز کا اجراء رحیم یار خاں میں ہوا مگر کروڑوں روپے کی
ایڈورٹائزنگ لاہور میں ہورہی ہے۔ اسی ایڈورٹائزنگ کے پیسے سے لاہور میں
غریب مریضوں کو سینکڑوں صحت کارڈ جاری ہوسکتے تھے۔ اسی ایڈورٹائزنگ کے پیسے
سے غریب بچیوں کی شادیاں ہوسکتی تھی۔ اسی ایڈورٹائزنگ کے پیسے سے شہریوں کو
سبسڈی کا کام کیا جاتا تو ہزار درجے بہتر تھا۔ اسی ایڈورٹائزنگ کے پیسے کو
برباد کرنے کی بجائے بجلی کی تیاری پر لگایا جاتا تو کچھ نہ کچھ ضرور فائدہ
ہوتا۔ملک کو مثالی بنانے کے لیے ہر طرح کی فضول خرچی کو روکنا ہوگا۔ میڈیا
کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا ہوگا۔ چائے والا ، چائے والا پکار پکار
کر عوام کا سر کھانے سے بہتر ہوگا کہ اہم نکات کو سامنے لایا جائے۔ ملکی
مسائل اور ان کا حل پیش کیا جائے۔ غریبوں پر ہونے والا ظلم و ستم دکھایا
جائے۔ ظالم کے خلاف مظلوم کی آواز بن جانا میڈیا کا کام ہے مگر افسوس کہ
میڈیا اپنے اصلی مقصد سے دور ہوچکا ہے ۔ الغرض ہر کو اپنی ذمہ داریوں کا
احساس کرنا ہوگا خواہ وہ وزیراعظم ہو یا صدر مملکت ہو، کوئی ایم۔این۔اے ہو
یا عام شہری ہو ہر ایک کو اپنے اپنے لیول پر ملکی بہتری کے لیے اقدامات
کرنا ہوں گے تب ہی پاکستان ایک مثالی ملک بن پائے گا۔اﷲ تعالیٰ پاکستان کا
حامی و ناصر ہو، آمین ۔ پاکستان زندہ باد |
|