جنگوں میں جاسوسی کس قدر اہمیت کی حامل ہے
اس سے آج کے حالات کی معمولی سمجھ بوجھ رکھنے والا بھی خوب واقف ہے۔ بیسویں
صدی کے دوسرے نصف میں ہونے والی تمام جنگوں میں جاسوسی نے بہت اہم کردار
ادا کیا ہے۔ صرف جنگ ہی نہیں بلکہ حالت امن یا سرد جنگ میں بالخصوص اس شعبے
کا کردار بہت بڑھ جاتا ہے۔ اس کی واضح مثال امریکا اور روس کے درمیان چار
عشروں تک چلنے والی سرد جنگ ہے جس میں امریکا و روس کے جاسوسی کرنے والے
ادارے ایک دوسرے کے خلاف مسلسل مصروف عمل رہے۔ ان اداروں میں امریکا کی CIA
اور روس کی KGB نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ ان اداروں کا مقصد نہ صرف دشمن
ممالک کی جاسوسی تھی بلکہ دوسرے ملک کی طرف سے کسی بھی ممکنہ خطرے کی
معلومات کوجمع کرکے ان کا سد باب کرنا اور دشمن کے خلاف مؤثر حکمت عملی
ترتیب دینا تھا۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان بھی تقسیم ہندوستان کے بعد سے یہی کیفیت ہے۔
ہم بھارت کے ساتھ ہمیشہ جنگ یا سرد جنگ کی حالت میں رہے ہیں۔ ایسے حالات
میں جاسوسی کے اداروں کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے۔ حالیہ دنوں میں کہ جب اوڑی
میں بھارتی فوج پر ہونے والے حملے میں متعدد بھارتی فوجی مارے گئے تو ایسے
وقت میں بھارت کی طرف سے پاکستان پر الزام تراشی کا سلسلہ جاری ہے اور تادم
تحریر جنگ کی دھمکیاں جاری ہیں۔ جو کہ محض بھارت کی عوام کو راضی کرنے کے
لیے دی جانے والی گیدڑ بھبھکیاں ہیں۔ کیونکہ اوڑی میں ہونے والے حملہ ایسے
وقت میں ہوا ہے کہ یہ بھارت کے مفاد میں ہے۔ اس بات کے علاوہ اس کے شواہد
بھی ابھی تک بھارت تلاش نہ کر پایا ہے کہ اس میں پاکستان ملوث ہے۔ ابتدائی
میڈیا رپورٹس میں جو مضحکہ خیز شو پیش کیے گئے تھے وہ بھارتی سرکار نے خود
ہی احساس ہونے پر ردکردیے ہیں۔
اگر بھارت اور اس کی خفیہ ایجنسیوں بالخصوص را کی تاریخ دیکھی جائے تو را
ماضی میں کئی ایسے آپریشن کرچکی ہے کہ جن میں اپنے املاک و فوجیوں کا نقصان
کرکے پاکستان کو بدنام کرنے کی سازش کی گئی تھی۔ قارئین کو بتاتے چلیں کہ
بھارتی خفیہ ایجنسی را RAW یعنی (Research and Analysis Wing) 1968ء میں
وجود میں لائی گئی۔ اس ایجنسی کے قیام کا مقصد ہی بھارت کا پڑوسی ممالک میں
اپنے مفادات کا تحفظ تھا۔ اسی مقصد کے لیے اس ایجنسی کو تشکیل دیا گیا تھا۔
چنانچہ شروع دن سے ہی یہ ایجنسی بھارت کے اندر سے زیادہ باہر ہی سرگرم رہی
ہے۔ اس بات کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ را نے اپنے قیام کے
بارہ سال بعد پہلا آپریشن 1980ء میں بھارت میں کیا جس دوران ملک میں
ایمرجنسی نافذ کی گئی تھی۔
بھارت کی اس خفیہ ایجنسی کے کریڈٹ پر پہلا فالس فلیگ آپریشن 1970ء کا ہے کہ
جس میں بھارت ہی کے ایک فوکر جہاز گنگا کو کچھ ہائی جیکروں نے کشمیری
مجاہدین کے روپ میں اغوا کیا اور لاہور میں اتار لیا۔ پاکستان نے بعد ازاں
ان ہائی جیکروں کو گرفتار کرلیا۔ اس ہائی جیکنگ کو بنیاد بنا کر بھارت نے
پاکستان کے لیے اپنی فضائی حدود کے استعمال پر پابندی عائد کردی۔ گرفتار
ہونے والے ہائی جیکرز میں سے ایک کی بعدازاں شناخت بھارتی بارڈر سکیورٹی
فورس کے انسپکٹر کی حیثیت سے ہوگئی۔ اسی واقعہ کی بنیاد پر پاکستان کے لیے
مشرقی پاکستان کی طرف پرواز کرنا ممکن نہ رہا اور اس کے لیے کولمبو کے
راستے طویل راستہ طے کرنا پڑتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ 1971ء کی جنگ میں
پاکستان مشرقی پاکستان میں کمک پہنچانے سے قاصر رہا تھا۔
الغرض یہ پہلا آپریشن تھا جس میں را کی جانب سے نہ صرف اپنے لوگوں کی جان
خطرے میں ڈالی گئی بلکہ لاہور ائیرپورٹ پر کھڑے اس جہاز کو بھی آگ لگوادی
گئی۔ بعد ازاں تحقیقات میں یہ بھی ثابت ہوا کہ ہائی جیک ہونے والا فوکر
طیارہ گنگا پہلے ہی گراؤنڈ کیا جاچکا لیکن اس کو دوبارہ چالو کیا گیا اور
ہائی جیک کروایا گیا۔
فالس فلیگ آپریشن یوں بھی کسی ایجنسی کی کامیابی نہیں بلکہ ناکامی ہی
گردانے جاتے ہیں کہ جس میں آپ دشمن کو محض بدنام کرنے کے لیے اپنے افراد
اور املاک کا نقصان کرتے ہیں۔ چنانچہ را کی ناکامیاں صرف ان فالس فلیگ
آپریشنز تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ اس کے علاوہ بھی را کی تاریخ ناکامیوں
سے بھری پڑی ہے۔ چند چیدہ واقعات ہم یہاں نقل کیے دیتے ہیں کہ جن سے اس
ایجنسی کی ’’قابلیت و لیاقت‘‘ کھل کر سامنے آئی ہے۔
خالصتان کی تحریک کے دوران جب بھارتی آرمی نے آپریشن بلیوسٹار کا فیصلہ کیا
تو اس وقت را کی جانب سے سکھ کمانڈر بھنڈرا نو اے کی طاقت کا غلط تخمینہ
لگایا گیا۔ را کی جانب سے کہا گیا کہ آپریشن زیادہ سے زیادہ پانچ گھنٹے
ہوگا لیکن یہ آپریشن پانچ دنوں تک پھیل گیا۔ جس کے نتیجے میں بھارتی فوج کا
بھی بہت جانی نقصان ہوا اور عام عوام بھی اس میں ہلاک ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ
آپریشن بلیو سٹار آج بھی بھارت کے لیے ایک سیاہ دھبے کی حیثیت رکھتا ہے اور
اس داغ کو مٹانے کی تمام تر بھارتی کوششیں رائیگاں گئی ہیں۔
1968ء میں اس ایجنسی کو بنایا گیا تو اس کا بجٹ صرف تیس بلین روپے تھا لیکن
چند ہی سالوں میں اس کا بجٹ تین سو بلین روپوں تک پہنچ گیا اور اس وقت
امریکی تھنک ٹینک گلوبل سکیورٹی کے مطابق را کا بجٹ تین سو بلین ڈالر سے
چار سو پچاس بلین دالر تک ہے۔ اس قدر خطیر بجٹ کے باوجود را کے حصے میں
کامیابیاں کم اور ناکامیاں زیادہ آئی ہیں۔
نوے کی دہائی میں بھارت سرکار نے تامل ٹائیگرز کو تربیت دے کر سری لنکا کے
خلاف کھڑا کیا اور بہت سے ایسے آپریشن کیے کہ جن سے سری لنکا کی حکومت کو
بدنام کیا گیا لیکن بعد ازاں انھی تامل ٹائیگرز کے ہاتھوں وہ ہلاک ہوگئے۔
21ویں صدی میں نائن الیون کے بعد جب امریکا NATO سمیت اس خطے میں آیا تو را
کے لیے یہ ایک سنہری موقع تھا کہ وہ پاکستان کے خلاف کھل کر میدان مین آئے۔
اس موقع کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت کی سکیورٹی ایجنسیوں نے کشمیر
پر باڑ کی تعمیر کی۔ پاکستان میں پراکسی کو فروغ دیا اور اس سب کے باوجود
بہت سے فالس فلیگ آپریشن بھی کرنے پڑے۔ جن میں بھارت کے اپنے شہری ہلاک
ہوئے۔ ان میں مالیگاؤں اور سمجھوتہ ایکسپریس پر ہونے والے حملے شامل ہیں۔
اس کے علاوہ 2001ء میں بھارتی پارلیمنٹ پر ہونے والے حملوں کے متعلق بھی
یہی شبہ ظاہر کیا گیا تھا کہ بھارت سرکار نے خود کرائے ہیں۔
2016ء میں پٹھانکوٹ پر ہونے والے حملے میں بھی پہلے پاکستان کی طرف الزام
لگایا گیا لیکن بعد ازاں تحقیقاتی اداروں نے یہاں بھی تمام بھارتی الزامات
خاک میں ملا دیے کہ ان حملوں میں پاکستان کے ملوث ہونے کے کوئی شواہد نہیں
البتہ بھارت کی طرف سے اس حملے کو خود کرانے کے ثبوت موجود ہیں۔
ان تمام واقعات کے بعد حالیہ اوڑی واقعہ ہوا۔ الغرض ایسے متعدد واقعات ہیں
کہ جن میں بھارت کی سکیورٹی ایجنسیاں اپنے ہی افراد اور فوج کو مروا کر
دیگر ممالک کا نام لیتی ہیں۔
بہرحال ان تمام واقعات میں اگر بھارت سرکار کا مؤقف مان لیا جائے کہ یہ
حملے بیرونی حملہ آوروں نے کیے ہیں تو کیا بھارت کی خفیہ ایجنسیاں اس قدر
لا علم ہیں کہ وہ ان حملوں کو روک ہی نہیں سکیں۔ جبکہ اس وقت بھارت نے لائن
آف کنٹرول پر سخت ترین حفاظتی انتظامات کر رکھے ہیں۔ اس سب کے باوجود اگر
بھارتی حکومت یہی واویلہ کرتی ہے کہ یہ حملے دراندازی کے بعد ہوئے ہیں تو
پھر بھارت کو اپنی خیر منانے کی ضرورت ہے وگرنہ بھارت یہ تسلیم کرے کہ اس
کی اپنی ایجنسی اس کے اپنے ہی فوجیوں اور لوگوں کو مروا رہی ہے تاکہ ناپاک
عزائم کو پورا کیا جاسکے۔ |