سپریم کورٹ نے پانامہ لیکس کے معاملے پر
تحریک انصاف اور دیگر سیاسی جماعتوں کی وزیر اعظم کی نااہلی سے متعلق چار
درخواستیں باقاعدہ سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف ،
وزیر خزانہ اسحاق ڈار ، مریم نواز ، کیپٹن (ر) صفدر ، حسن نواز ، حسین نواز
، ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے ، چیرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو اور اٹارنی جنرل
سمیت تمام فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے دو ہفتوں میں جواب داخل کرنے کا
حکم جاری کیا ہے ۔ سپریم کورٹ کے اس حکم کو عمران خان یقینا اپنی بہت بڑی
کامیابی قرار دے رہے ہیں ۔انہوں نے مسرت بھرے لہجے میں کہا سپریم کورٹ نے
بادشاہ کو قانون کے نیچے لانے کے لیے پہلا قدم اٹھایا ہے ۔ لیکن سماعت کے
باوجود ہمارا احتجاج جاری رہے گا ۔ اس کے برعکس وزیر اعظم میاں محمدنوا ز
شرف نے سپریم کورٹ کی کاروائی کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں عدالت پر
اعتماد ہے اس لیے ہمیں عدالتی فیصلہ بھی قابل قبول ہوگا ۔ پیپلز پارٹی اور
اے این پی کی جانب سے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہاگیا کہ دانش مندی کا
مظاہرہ کرتے ہوئے تحریک انصاف کو اب احتجاج ختم کردینا چاہیئے ۔جسٹس (ر)
وجہیہ الدین (جو تحریک انصاف کے بانی رکن ہیں اور عمران خان کی طرز آمریت
کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے تحریک انصاف کو خیر باد کہہ چکے ہیں ) کے مطابق
اگر حکومت فیصلے پر عملدرآمد کرانے کی یقین دھانی کروائے تو عدالت احتجاج
ختم کرنے کا حکم جاری کرسکتی ہے ۔شاید اسی وجہ سے عدلیہ دھرنے کو روکنے کا
حکم وقتی طور پر جاری نہیں کیا کیونکہ اس سے پہلے ڈاکٹر طاہر القادری اور
عمران خان کے کینٹنر دھرنے کے خلاف سپریم کورٹ حکم جاری کرچکی ہے جس پر
نواز شریف حکومت نے عمل درآمد نہیں کیا ۔اس کے باوجود کہ عمران خان سے
ملاقات کے دوران چینی سفیر واشگاف الفاظ میں کہہ چکے ہیں کہ سی پیک منصوبے
کی تکمیل پاکستان میں سیاسی استحکام سے وابستہ ہے جس پر عمران خان نے کہا
کہ ہم سی پیک منصوبے کی حمایت تو کرتے ہیں لیکن کرپشن کے خلاف احتجاج کرنا
ہمارا حق ہے ۔ اب جبکہ مقدمہ ملک کی سب سے بڑی عدالت میں جاپہنچا ہے اور
قابل سماعت ہونے کے ساتھ ساتھ اس پر مزید کاروائی بھی شروع ہوچکی ہے ۔حکومت
اور ریاستی اداروں سے بغاوت کا جرم تو بہت پہلے ہی کرچکے ہیں اگر اب اسلام
آباد بند کرکے سپریم کورٹ کے خلاف عدم اعتماد کا اظہار کررہے ہیں ۔اس اقدام
کو کوئی بھی محب وطن شخص نہیں سراہ سکتا ۔اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ
عمران خان ایک ضدی شخص ہیں اور اپنے منہ سے نکلی ہوئی ہر بات کو دوسروں پر
ٹھونسنے کی آرزو رکھتے ہیں جو کسی بھی طرح صحیح اقدام نہیں ہے ۔ وہ فرماتے
ہیں کہ نواز شریف دنیا کے کرپٹ ترین انسان ہیں جس کی حکومت کے خاتمے کے بعد
ہم پاکستان کو حقیقی معنوں میں قائد اعظم کاپاکستان بنائیں گے ۔ یہ بات
کہنے سے پہلے انہیں قائداعظم کی زندگی اور جدوجہد آزادی کا مطالعہ اور
مشاہدہ ضرور کرنا چاہیئے تھا ۔ کیونکہ قائداعظم محمد علی جناح برصغیر پاک و
ہندکے وہ عظیم لیڈر ہیں جنہوں نے قانون کو ہاتھ میں لیے بغیر آزاد پاکستان
کی جنگ لڑی انہوں نے جلسے بھی کیے تو ان میں شائستگی کاپہلو ہمیشہ نمایاں
رہا وہ خود بھی پاک دامن تھے اور ان کے رفقائے کار بھی فرشتوں جیسے تھے
لیکن کیا عمران اس آئینے میں اپنا چہرہ دیکھ سکتے ہیں ۔ جو سیتا وائٹ کی
اولاد کا باپ ہونے کے باوجود اسے باپ کا پیار دینے سے انکاری ہیں ۔کیا
عمران خان یہودیوں کی بیٹی جمائماخان سے شادی کرکے خلاف اسلام اقدام کرنا
کا مجرم نہیں بنے ؟۔طلاق ہونے کے باوجود وہ کس حیثیت سے لندن میں یہودی
سسرال میں جاکر ٹھہرتے ہیں؟ ان کے دو نوں بیٹے اسی یہیودی گھرانے میں پرورش
پا رہے ہیں ۔کیا عمران مادر پدر آزاد معاشرے کاحصہ نہیں رہے ؟اس کے بعد ایک
صحافی ریحام خان سے شادی کرکے اسے بھی طلاق دے دی ۔ ریحام کا یہ بیان
اخبارات کے صفحات پر موجود ہے کہ عمران انسانوں سے زیادہ اپنے کتے سے پیار
کرتے ہیں ۔ اب وہ چوتھی شادی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ افواہیں زوروں پر ہیں
لیکن وہ انکار ی ہے ۔ کیا ایسا مشکوک اور غیر اسلامی کردار کا حامل انسان
ملک و قوم کے لیے سود مند ثابت ہوسکتا ہے اور خود کو قائداعظم ثانی کہہ
سکتا ہے ؟ قائداعظم خود بھی اور ان کے رفقائے کار بھی دیانت دار تھے لیکن
عمران خوداور ان کے بیشترقریبی ساتھی بنک ڈیفالٹر اور زمینوں پر ناجائز
قابضین ہیں جو اے ٹی ایم کی شکل میں ہمیشہ عمران کے ساتھ نظرآتے ہیں۔ شیخ
رشید جس کے بدترین مشوروں پر عمران عمل کرتے ہیں ان کا ذاتی کردار کسی سے
ڈھکاچھپا نہیں ہے ۔وہ سٹیج کے اداکار تو ہوسکتے ہیں لیکن انہیں کوئی سنجیدہ
انسان نہیں کہہ سکتا۔ بہرکیف گزشتہ ساڑھے تین سالوں سے عمران خان کا جو روپ
ابھر کر سامنے آیا ہے اسے دیکھ کر یہی کہا جاسکتا ہے کہ وہ پاکستان میں
ترقی و خوشحالی کا بدترین دشمن بن چکے ہیں وہ نیا پاکستان بنانے کا چکمہ دے
کر قوم کو مسلسل بیوقوف بنا رہے ہیں۔ اگر وہ حقیقی معنوں میں ملک کو کرپشن
سے پاک کرنے چاہتے ہیں تو دیگر سیاسی جماعتوں کو ساتھ ملا کر انہیں
پارلیمنٹ سے ایسا بل پاس کروانا چاہیئے تھا جس کی روشنی میں سپریم کورٹ طرز
ایک آزاد اور خود مختار ادارہ کرپشن ، رشوت خوری اور اقربا پروری کے خلاف
آزادانہ اقدامات کرتا ۔ عمران یہ بھی نہیں کرسکے ۔ اگر وہ دھاندلی کے خلاف
سنجیدہ ہوتے تو الیکشن سے متعلق ایسا ضابطہ اخلاق مراتب کرواتے جس پر عمل
کرتے ہوئے 2018ء کے الیکشن منصفانہ اور غیر جانبدارانہ ہوتے ۔ عمران یہ کام
بھی نہیں کروا سکے۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ مسلسل احتجاج اور دھرنوں کا سلسلہ
شروع کرکے پاکستانی قوم کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کے ساتھ ساتھ ملک میں
خانہ جنگی کے حالات پیدا کرنا چاہتے ہیں ۔یہ بات یقینی ہے کہ نہ پہلے
دھرنوں سے کوئی فائدہ ہواتھااور نہ ہی اب ہوگا لیکن وفاقی دارالحکومت اسلام
آباد کو بند کرکے عمران خان سپریم کورٹ پر عدم اعتماد ، پاکستان دشمن اور
بھارت نواز سیاست دان کے روپ میں سامنے آئیں گے ۔
|