علی بیٹا ٹی وی بند کر دو جمعے کی نماز کا
وقت ہو گیا ہے۔امی نرمی سے علی سے مخاطب ہوئیں علی نے ناگواری سے ٹی وی بند
کیا اور بولا اللہ کون سی ہماری سنتا ہے وہی دال روٹی...ہونہ ! امی اداسی
سے بولیں ایسے نہیں کہتے بیٹا اپنے زور بازو سے محنت کرو اللہ پہ بہروسہ
رکھو زندگی بڑی نعمت ہے لیکن علی بڑبڑاتے ہوئے باہر نکل گیا امی افسردگی سے
اسے جاتا دیکھتی رہی علی بادل نخواستہ مسجد کی طرف چل پڑا دل میں اللہ سے
ہزار شکوے تھے کہ اچانک ایک تیز رفتار گاڑی اس کے آگے سڑک پار کرتے ہوئے
نوجوان کو کچل گئی علی بال بال بچا تھا وہاں لوگوں کا ایک ہجوم لگ گیا کسی
نے علی کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کے کہا بیٹا اللہ کا شکر ادا کرو آپ بچ گئے
علی حواس باختہ اس لڑکے کی لاش کو لے جاتے دیکھ رہا تھا۔اس کی جگہ میں ہوتا
تو۔۔؟ اس احساس سے ہی اسے جھرجھری آگئی سامنے ہی مسجد سے خطبے کی آواز آ
رہی تھی" اور تم اپنے رب کی کون کونسی نعمت کو جھٹلاؤ گے" علی کے قدم مسجد
کی طرف اٹھتے گئے آنکھوں میں ندامت کے آنسو تھے اسے اپنے گناہوں کی معافی
مانگنی تھی اور اپنے رب کی نعمتوں کا سجدہء شکر بجا لانا تھا ۔ |