ضابطہ اخلاق بھی کسی "بلا" کا نام ہے
(Shaikh Khalid Zahid, Karachi)
ہم پاکستانیوں کیلئے، پاکستان قدرت کی عظیم
ترین نعمت اور انمول تحفہ ہے۔ خصوصی طور پر ان لوگوں کیلئے جو اس ملک کی
بوٹیاں نوچ نوچ کر بیچ رہے ہیں اور کھا بھی رہے ہیں۔ اس ہی ملک کا ایک طبقہ
ایسا بھی ہے جو صبح و شام مانگ مانگ کر کھا رہا ہے اور ایک طبقہ ایسا بھی
جو جسے چھین چھین کر کھانے کا شوق ہے ، یہ طبقات ایسی خلقِ خدا ہے جسے لگتا
یوں ہے کہ قدرت سے کوئی لینا دینا نہیں ہے بظاہر ان کا ایمان ایسا نظر آتا
ہے کہ انکو "مرنا" نہیں ہے اور نا کوئی حساب کتاب دینا ہے۔ یہ ان لوگوں کی
طرح زندگی گزارنے کو ترجیح دیتے ہیں جو مل جائے لے لو اور کھالو اور آگے
بڑھ جاؤ۔ ہمارے معاشرے میں ایک قلیل تعداد ایسے طبقے کی بھی ہے جو اپنی
محنت اور مزدوری کی مد میں حاصل ہونے والی روزی کو بہت جان کر اللہ کا شکر
ادا کرتے ہیں اور کرتے رہتے ہیں۔ یہ شکر گزاری کی اعلی مثال بننے کیلئے تا
حیات کوشاں رہتے ہیں۔ یہ طبقات کھاتے جس کسی کا بھی ہوں رہتے کسی کی بھی
پناہ میں ہوں مگر یہ سب ووٹ کے معاملے میں انتہائی کٹر واقع ہوئے ہیں۔
ہمارے ملک کے "بڑے" جو شائد جبری طور پر بڑے بن کر بیٹھے ہیں، ہر اس عمل
اور اقدام سے خوفزدہ رہتے ہیں جو ان کی سمجھ کے مطابق نا ہو، مگر پھر دنیا
میں ہونے والی ترقی کی دم سے لٹکے بھی رہنا چاہتےہیں۔ سوشل میڈیا پر بھی
اپنے آپ کو دیکھنا چاہتے ہیں اور سوشل ہونے کے خواہشمند بھی ہیں مگر اس کی
حقیقت کو تسلیم کرنے سے معذرت خواہ ہیں۔ ایسا اس وقت ہوتا ہے جب آپ بدلتے
ہوئے حالات و واقعات سے مطابقت کئے بغیر ایک سایہ دار درخت کے سائے میں
بیٹھنے کو ترجیح دیتے ہیں اور ایک دن آتا ہے کہ اس درخت کو بھی کاٹنے والے
آجاتے ہیں پھر سوائے بے بسی کے اور کچھ نہیں رہ جاتا۔
دنیا کا ہر فرد اس امر سے بخوبی واقف ہے کہ آج کوئی بھی چیز پوشیدہ یا حتمی
محفوظ نہیں ہے۔ اس کے برعکس دنیا کی اکثریت بے حس بھی اتنی ہی ہوگئی ہے
یعنی ثابت یہ ہوتا جا رہا ہے کہ جتنی معلومات بڑھتی جارہی ہیں اتنی ہی بے
حسی بڑھتی جارہی ہے۔ ہمارے سامنے روزانہ کی بنیاد پر کیسی کیسی سچائیاں آتی
جارہی ہیں لیکن پھربھی سب ویسے کا ویسے ہی چل رہا ہے۔ کرپٹ لوگ محترم بنے
پھر رہے ہیں دنیا جہان کا پروٹوکول لئے پھر رہے ہیں۔ جن لوگوں کو انصاف کے
کٹہرے میں کھڑا ہونا چاہئے وہ لوگ انصاف کی گردن دبوچے بیٹھے ہیں۔ قانون کی
بالادستی ملک کی ترقی کی کنجی ہے جب تک قانون طبقاتی تقسیم کی ذدمیں رہے
گا، انصاف کو انصاف نہیں کہا جاسکتا۔
ہر پاکستانی کی خواہش ہے کہ پاکستان میں امن ہو، ترقی ہو، بہتر سےبہتر
زندگی کی بنیادی ضروریات میسر ہوں، صفائی ستھرائی کا خیال رکھا جاتا ہو،
تعلیم کے بہترین اور مساوی مواقع ہوں اور سب سے بڑھ کر صحت کی بہترین
سہولیات ہر یونین کونسل کی سطح پر میسر ہوں۔ ہر پاکستانی جو سال ہا سال سے
اپنی ان خواہشات کی تکمیل کے انتظار میں بوڑھا ہوئے جارہا ہے اور کتنے تواس
خواہش کو دل میں لے کر ہی اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ ہم لوگ کسی ضابطہ اخلاق
کے عادی نہیں رہے، ہمیں قانون کی بالادستی پر کوئی اعتماد نہیں رہا۔ گلی
محلوں کی بیٹھکوں سے لے کر پر تعیش ڈرائنگ رومز تک ملکی سیاست پر زور و شور
سے مباحثے ہورہے ہوتے ہیں۔ ان مباحثوں میں ملک اور بین الاقوامی، ساری
سیاسات کو زیرِ بحث لایا جاتا ہے۔ حکومتی بالیسیوں پر روشنی ڈالی جاتی ہے ،
باقاعدہ تنقیدی جائزہ لیا جاتا ہے تجاویز بھی پیش کی جاتی ہیں بد قسمتی سے
یہ تجاویز وہاں تک پہنچنے سے قاصر رہتی ہیں جہاں انکو پہنچ جانا چاہئے۔
قانون کی بالادستی کا مطلب ہے ضابطہ اخلاق کی بالادستی، ہر ادارے کا ضابطہ
اخلاق ہوتا ہے مگر بدقسمتی سے ہمارے ملک میں شائد ضابطہ اخلاق تو واضح کیا
جاتا ہے مگر اس عمل کرنا ہے یا نہیں اس بات پر زور نہیں دیا جاتا۔ پر عمل
درآمد تو
آخر ہمارا سیاسی شعور اس وقت کیوں سو جاتا ہے جب ہم اپنے قیمتی ووٹ پر مہر
لگا رہے ہوتے ہیں، بطور قوم ہماری ساری سیاسی بصیرت کیوں معدوم پڑ جاتی ہے
یا اس بصیرت پر سیاہ عینک لگا لی جاتی ہے اور ہم کیوں کسی نا کسی تعصب کی
شکل کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں، ہم اپنی ہی تجاویز کیوں بھول جاتے ہیں، ہم اپنے
ہی سیاسی مباحثے کیون بھول جاتے ہیں، ہم قومی مفادات کی زبانی پاسداری کرنے
والوں کو کچھ بھی تو یاد نہیں رہتا۔ ہر پاکستانی اپنے اپنے ذاتی ضابطہ
اخلاق کی پاسداری کرنا شروع کردے، ذاتی مفادات سے باہر نکل آئے تو پاکستان
میں تبدیلی کو کوئی نہیں روک پائے گا۔ تبدیلی ہمیشہ اپنے اندر سے آتی ہے
باہر سے جو تبدیلی آتی ہے وہ وقتی اور جذباتی ہوتی ہے۔ |
|