چائے کا تاریخی پس منظر

موسم سرما کی آمد آمد ہے ، اس کے ساتھ ہی مختلف قسم کے گرم ملبوسات اور مختلف قسم کے خشک میوہ جات نے مارکیٹوں اور بازاروں کے حسن کو چار چاند لگادیئے ہیں ۔ قسما قسم کی آئس کریموں ،رنگ برنگے مشروبات اوردیگر گرم اشیائے خورد و نوش کی جگہ لیمن گراس ٗ سبز قہوؤں ، دیسی اور فارمی انڈوں ، قدرتی و مصنوعی یخنیوں ،مختلف الذائقہ خشک فروٹوں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ’’ چائے ‘‘نے لے لی ہے۔

’’چائے‘‘‘ جسے عربی میں ’’شاي‘‘اور انگلش میں ’’ٹی‘‘ (Tea) کہا جاتا ہے ٗ آج سے کم و بیش ایک صدی قبل اس سے بالکل لوگ نا واقف تھے ، لیکن کچھ عرصہ بعد جب لوگوں میں چرچا ہوا تو اس وقت لوگ اس کو اُبال کر پانی پھینک دیا کرتے تھے اور اس کی پتیاں چبا لیاکرتے تھے ۔ پھر جب مزید اس کاچرچا ہوا تو ’’ٹی‘‘ (Tea) کمپنی والے خوانچہ(سینی) لگاکر گراموفون(Gramophone) بجاکر لوگوں کو مخاطب کرتے تھے اور لوگ ان کے گرد جمع ہوجاتے تھے ٗ کمپنی والے بڑے بڑے کپڑوں پر خوب صورت اور خوش خط لکھے ہوئے پوسٹروں کا مظاہرہ کرتے تھے ، جس میں لکھا ہوتا تھا’’گرمیوں میں گرم چائے نہایت ٹھنڈک پہنچاتی ہے‘‘اور ’’چائے پیو ٗ سدا جیو‘‘ وغیرہ وغیرہ ۔‘‘ سننے میں آیا ہے (اﷲ جانے کہاں تک سچ ہے)کہ’’ جس طرح برف بظاہر ٹھنڈی معلوم ہوتی لیکن اس کی اندرونی تاثیر گرم ہوتی ہے اسی طرح چائے بھی بظاہر اگرچہ گرم معلوم ہوتی ہے لیکن یہ اپنے اندر بلا کی ٹھنڈی تاثیر رکھتی ہے ۔ ‘‘

بہر حال اس کے بعد پھر وہ نہایت اہتمام کے ساتھ پتیلی یا کیتلی میں سے گرم گرم چائے پیالی اور طشتری میں سجاکر دودھ اور شکر ملا کر بڑی منت اور سماجت سے( جیسے ماں اپنے بچے کو کڑوی دوا پلاتی ہے ) مونڈھا اور کرسی بچھا کر پیش کرتے تھے ، ایک پوڑیا (پوڑی) چائے کے ساتھ بھی کردیتے تھے اور یہ دونوں مہربانیاں بالکل مفت نذرانہ ہوتی تھیں۔

یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ اُس وقت تو یورپ اور امریکہ میں ’’چائے‘‘ کا رواج بالکل نہیں تھا اور اب بھی نہیں ہے اس لئے اکثر لوگ ’’چائے‘‘ کو فرنگیوں اور انگریزوں کی دشمنی اور چال سمجھ کر یا زہر خوانی ایک مہذب کوشش سمجھ کر ان کے اس پروپیگنڈے کو کوڑے میں پھینک دیا کرتے تھے ۔ بلکہ معتبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے اور ہمارے ایک استاد(اﷲ تعالیٰ ان کو غریق رحمت کرے) بھی یہ فرمایا کرتے تھے کہ انگریزوں اور اسلام دشمن عناصر کا مسلمانوں کو ’’چائے‘‘ کا عادی بنانے کا بنیادی مقصد ان کی نسل کشی ہے تاکہ’’ چائے ‘‘کے زہریلے اور مضر اثرات سے مسلمانوں کی بیخ کنی کی جائے اور تاریخ انسانیت سے ان کا وجود عنقاء کیا جائے لیکن ـ:
ایں خیال است و محال است و جنوں

الغرض لوگ ’’چائے‘‘ کی بڑی بے قدری کرتے تھے ، وہ وقت سستا اور آسودگی کا زمانہ تھا ( اس کو جہالت نہ کہیے گا) خالص دودھ سات پیسے اور زیادہ سے زیادہ دس ، گیارہ پیسے فی سیر ملا کرتاتھا ، جب کہ آج کل چائے کا ایک ٹوکن ۱۵ روپے اور چائے کی ایک پیالی ۲۵ روپے میں ملتی ہے۔

اُس وقت کی اتنی محنت اور چرچے سے صرف اتنا نتیجہ نکلا تھا کہ لوگ سردیوں میں غالبؔ کی شراب کی طرح اسے پی لیا کرتے تھے ؂
روز کی چائے کہاں پی لیا کرتے تھے گاہے گاہے
وہ بھی تھوڑی سی مزہ منہ کا بدلنے کے لئے

اس کے بعد پھر جو کچھ اور جان کھپائی کی گئی اور ایڑی چوٹی کا زور صرف کرکے چرچا اور پروپیگنڈا بڑھایاگیا تو ’’چائے‘‘ اس وقت بھی استعمال کی جانے لگی جب کسی کو ’’نمونیہ ‘‘یا کسی کو زیادہ سردی کا اثر ، یا پھرکسی کو ’’لقوہ‘‘ ہوجاتا تھا تو دوا کی طرح مریض کو پلاتے تھے ۔مگر اب تو یہ ہماری گھٹی میں ایسی پڑ ی کہ دن میں جب تک دو تین بار اسے پی نہ لیں بدن کو سکون ہی نہیں ملتا اور سرپر اکثر بوجھ رہتا ہے ۔ بلکہ ا آج کل توکثر دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ جب کوئی محنت طلب دماغی یا جسمانی کام کیا جاتا ہے تو اس کی تھکاوٹ دور کرنے کے لئے چائے کے ایک یا دو فنجان پی لینے سے بدن کی تمام تھکان دور ہوجاتی ہے اور آدمی ہشاش بشاش ہوجاتا ہے ۔چنانچہ ایک ٹرک ڈریور کے بارے میں سننے میں آیا ہے وہ کہتا ہے کہ مجھے چوبیس (۲۴) گھنٹوں میں صرف ایک کپ کڑک چائے کا پلا دیا جائے ٗ میں پورا ایک رات دن( یعنی پورے چوبیس (۲۴) گھنٹے بغیر کچھ کھائے پیئے) مسلسل ٹرک چلاتا ر ہوں گا ۔لیکن شرط یہ ہے کہ چائے ٗ چائے بھی ہو محض اُبلا ہوا پانی نہ ہو ۔ ‘‘

محدث العصر علامہ سید محمد یوسف بنوری رحمۃ اﷲ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ جس ’’چائے‘‘ میں تین صفات نہ ہوں وہ چائے ٗ چائے نہیں۔ (۱) لب دوز ہو ٗ یعنی اتنی خالص اور اصلی دودھ کی بنی ہوئی ہوکہ اس کا گھونٹ بھرتے وقت دونوں ہونٹ آپس میں چپک جاتے ہوں ۔ (۲) لب سوز ہو ٗ یعنی اتنی گرم ہوکہ اس سے ہونٹ جلتے ہوں ۔ (۳) لب ریز ہو ٗ یعنی ایسی گاڑھی خالص ہوکہ پیتے وقت اس سے ہونٹ بھر جاتے ہوں ۔ ‘‘

ایک مرتبہ دورانِ درس ہم نے استاذِ محترم حضرت مولانا نذر الرحمن صاحب دامت برکاتہم العالیہ ( استاذِ حدیث مدرسہ عربیہ رائے ونڈ) سے پوچھا کہ ’’حضرت! چائے پینے کی کیا ’’دعاء ‘‘ ہے؟‘‘آپ نے فرمایا : ’’بھائی! چائے میں ہوتا کیاہے ؟‘‘ ہم نے کہا : ’’ دودھ۔‘‘ آپ نے فرمایا : ’’پھر جو دودھ پینے کی دعاء ہے وہی چائے پینے کی بھی دعاء ہے۔‘‘

ہمارا ایک دوست طاب علم تھا( جو اب ماشاء اﷲ عالم فاضل ہیں ) وہ کہتا تھا کہ میں ہر روز صبح سے لے کر شام تک پچیس (۲۵) کپ چائے کے پیتا ہوں ، جب میں چوبیس ( ۲۴ ) کپ پی لیتا ہوں تو آخر میں پچیسواں کپ’’ مزے ‘‘کے لئے پیتا ہوں ۔ہم نے پوچھا : ’’پھروہ چوبیس (۲۴) کپ کس کھاتے میں جاتے ہیں ؟‘‘ کہنے لگا: ’’ وہ تو میرا نشہ ہیں ٗمیں ان سے اپنا چائے کا نشہ پورا کرتا ہوں، صرف پچیسواں کپ مزے کے لئے پیتا ہوں۔‘‘

اسی طرح مشہور ہے کہ ایک جگہ لڑکے والے لڑکی کا رشتہ دیکھنے گئے اور مزے کی بات یہ کہ لڑکا بھی ساتھ تھا ، لڑکی والوں نے ان کے اکرام و ضیافت میں سب سے پہلے تو ان کے سامنے مختلف قسم کے پھل فروٹ رکھے اور اس کے بعد چائے بسکٹ پیش کیے جو انہوں نے نے نوش جاں کیے، اس کے بعد لڑکے والے رشتے کی بات چیت کرنے کرکے جب وہاں سے رخصت ہوگئے تو لڑکی کا والد حضرت مولانا مفتی رشید احمد لدھیانوی ؒ کے پا س آیا اور کہنے لگا : ’’مفتی صاحب!لڑکی کا رشتہ کرنا چاہتا تھا مگر لڑکا اس کے’’ کفو‘‘ (یعنی اس کی ذات اور اس کی برابری) کا نہ نکلا اس لئے رشتہ توڑ دیا ۔‘‘ مفتی صاحب نے پوچھا :کیسے ’’ برابری‘‘ کا نہ نکلا ؟‘‘ کہنے لگا : ’’جب وہ فروٹ کھانے لگا تو کیلے کا آدھا چھلکا اتارنے کے بجائے اس کاپوراا چھلکا اتار کر کھانے لگا اور جب چائے بسکٹ کھانے کی باری آئی تو بسکٹ‘چائے میں ڈبو ڈبوکر کھانے لگا حالاں کہ چائے میں بسکٹ ڈبوکر نہیں بلکہ بسکٹ کو منہ میں توڑ کراور اوپر سے چائے پی کر کھایا جاتا ہے ۔‘‘
Mufti Muhammad Waqas Rafi
About the Author: Mufti Muhammad Waqas Rafi Read More Articles by Mufti Muhammad Waqas Rafi: 188 Articles with 278880 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.