یک روزہ رائٹرز کنونشن اور شہرخانیوال کی محبتیں

گزشتہ ہفتے 23 اکتوبر 2016 بروز اتوار راقم الحروف کو رائٹرز ویلفئیرفاؤنڈیشن اینڈ ہیومن رائٹس پاکستان خانیوال کے کوارڈینیٹر آفاق احمد خان کی دعوت پر یک روزہ رائٹرز کنونشن میں شرکت کے لئے گیا ۔ خانیوال شہر میں جانا اور اس شہر کو دیکھنا میرے لئے پہلا اتفاق تھا ۔
جنوبی پنجاب میں انیسویں صدی کے اوائل تک ساڑھے دس لاکھ مربع ایکڑ زمین کا قطعہ جو بلکل سنسان اور بنجر تھا 1863 ؁ء میں نہر لوئر باری دوآب کے آنے سے یہ بنجر اور ویران زمین گندم کا سونا اور کپاس کی چاندی اگلنے لگی اور آج پاکستان میں ایک رول ماڈل ہے جب زراعت کی بات کی جائے ۔ بیان کردہ اس زمین کو ہم جنوبی پنجاب کے ایک ضلع خانیوال کے نام سے جانتے ہیں ۔ خانیوال کے سمال میں دو اضلاع جھنگ اور ٹوبہ ٹیک سنگھ ، مشرق میں ساہیول ، مغرب میں ملتان اور وہاڑی کے علاقے ہیں ۔ خانیوال کی تاریخی حیثیت مستند ہے ۔ آپ خانیوال میں جائیں تو آپ کو بہت سی ایسی چوپالیں ملیں گی جہاں بیک وقت تین زبانیں اردو خوبصورت اردو، پنجابی اور سرائیکی کا حسین امتزاج نظر آئے گا۔ اس قطعہ زمین پر سب سے پہلے جو خاندان آباد ہوا وہ ڈاھا خاندان تھا ۔ ڈاھا خاندان اپنے نام کے ساتھ لفظ ’’خان‘‘ استعمال کرتے تھے اسی مناسبت سے اس شہر کا نام خانیوال پڑگیا۔ خانیوال پاکستان کا دوسرا بڑا ریلوے جنکشن ہے ۔ضلع خانیوال کی چار تحصیلیں ہیں جن مین خانیوال ، کبیر والا، جہانیاں اور میاں چنوں شامل ہیں ۔سابق وزیر اعلیٰ غلام حیدر وائیں کا تعلق بھی اس ضلع سے تھا ۔ شاہ محمود قریشی کا ضلع بھی خانیوال ہے لیکن ان کی گدی ملتان میں ہے۔

تو صاحبو خانیوال کی کچھ تاریخ بیان کرنے کے بعد آپ کو بتاتا چلوں کہ گزشتہ ہفتے 23 اکتوبر 2016 بروز اتوار راقم الحروف کو رائٹرز ویلفئیرفاؤنڈیشن اینڈ ہیومن رائٹس پاکستان خانیوال کے کوارڈینیٹر آفاق احمد خان کی دعوت پر یک روزہ رائٹرز کنونشن میں شرکت کے لئے گیا ۔ خانیوال شہر میں جانا اور اس شہر کو دیکھنا میرے لئے پہلا اتفاق تھا ۔میں خانیوال کے بس ٹرمینل پر تقریباََ رات بجے پہنچا ۔ ابھی بس سے اتر کر خود کو سنبھال نہ پایا کہ آفاق احمد خان آکر بغل گیر ہو گئے اور حق میزبانی ادا کرنے کے لئے مجھے اپنے ساتھ گھر لے آئے ۔ چھ گھنٹے کی سفر کی تھکان اور نیند کی مارے جاتے ہی مہیا کئے گئے بستر پر دراز ہوا اور تب آنکھ کھلی جب سورج بلند ہو چکا تھا اور گھڑی کی سوئیاں آٹھ بجا رہی تھیں ۔ جلد سے نہا دھو کر تیا ر ہوا اس دوران آفاق احمد خان کے والد محترم ڈاکٹر محمد یوسف صدیقی صاحب نے ناشتہ لا کر دیا ابھی ناشتہ کر کے فارغ ہوا ہی تھا کہ آفاق احمد خان بھی آن موجود ہوئے اور بتایا کہ وہ اس ہال میں انتظامات کرکے آئے تھے جہاں تقریب منعقد ہونی تھی۔ ناشتہ سے فارغ ہو کر ڈاکٹر محمد یوسف صدیقی کے ہمراہ جناح ہال ٹی ایم اے خانیوال پہنچے ۔ مہمانوں کی آمد جاری تھی کہ لیہ کی شان ’’تعمیر ادب‘‘ والے عبداللہ نظامی صاحب کی آمد ہوئی ان ہمراہ آپا ثمرینہ اور آپا فوزیہ سمیع بھی تھی۔ ان کے استقبال کا اعزاز راقم الحروف کو حاصل ہوا۔مہمانوں نکی آمد کی سلسلہ جاری و ساری تھا کہ میری ملاقات ہفت روزہ ’’باوقار‘‘ والے جناب میاں محمد اجمل عباس اور خانیوال کے ادبی ستاروں چمکتا نام جناب عبدالرؤف سمرا سے ہوئی اور ادبی ، معاشرتی اور سیاسی تمام موضوعات پر سیر حاصل گفتگو ہوئی ۔یک روزہ رائٹرز کنونشن کی سادہ مگر پر وقار تقریب کا باقاعدہ آغاز قاری احمد جاوید صاحب نے تلاوت کلام پاک سے کیا اور بارگاہِ رسالت میں ہدیہ نعت پروفیسر ثمرینہ رمضان نے پیش کی۔ اس خوبصورت تقریب کی نظامت سن شائن مڈل سکول خانیوال کی ٹیچر محترمہ مس نسرین نے جبکہ دارِارقم سکول کی دو طالبات نے ان کی معاونت کر کے بہت ہی احسن انداز میں نظامت کے فرائض سر انجام دیئے ۔

تقریب میں آنے والے تما م مہمانوں کو دارِارقم سکول کے طلباء و طالبات نے خوبصورت ٹیبلوز سے منفرد انداز میں خوش آمدید کہا ۔ اس تقریب کی صدارت خانیوال کے سنئیرجرنلسٹ حاجی عبد الطیف انور نے کی جبکہ مہمانِ خصوصی میں پروفیسر مسز رضیہ رحمان صاحبہ اور پی ایچ ڈی ریسرچ سکالر ڈاکٹر عبدالعزیز چشتی صاحب شامل تھے ۔ یہاں میں خانیوال کے ارباب اختیار کا ذکر کرنا چاہوں گا جن میں ڈی سی او زین بن مقصود ، ٹی ایم او شوکت حیات مجوکہ ، ڈی آئی او سلمان خالد ، ٹی ایم او فنانس ملک لیاقت علی کھیارااور اسسٹنٹ کمشنر خانیوال شامل ہیں ۔ انہوں نے اس ادبی تقریب میں آنے کے لئے ہامی بھری ان کے نام بھی دعوت ناموں میں بڑے بڑے حروف میں لکھے گئے لیکن ان میں سے کوئی بھی اس تقریب میں نہیں آیا اورنہ ہی کسی کو اپنی نمائندگی کے لئے بھجوایااس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں کہ یا تو یہ لوگ اپنے شہر خانیوال میں ادب کی بڑھوتری پسند نہیں کرتے یا پھر ان کو اپنے اس جناح ہال میں بیٹھنا پسند نہیں تھا جس میں یہ تقریب منعقد ہوئی ، جس ہال کو آج آفاق احمد خان نے بہت عرصے کے بعد کھلوایا۔

تو صاحبو بات ہو رہی تھی یک روزہ رائٹرز کنونشن جو کہ رائٹرز ویلفئیرفاؤنڈیشن اینڈ ہیومن رائٹس پاکستان کے زیر اہتمام خانیوال میں منعقد ہوا ۔ دارِ ارقم سکول کے بچوں کے خوش آمدید کہنے کے بعد میاں اجمل عباس نے سپاس نامہ پیش کرتے ہوئے رائٹرز ویلفئیرفاؤنڈیشن اینڈ ہیومن رائٹس پاکستان کے اغراض و مقاصد بیان کئے اور خانیوال میں مستقبل میں بھی اس قسم کے ادبی پروگرام کرواتے رہنے کا پختہ عزم کیااور تقریب میں آنے والے تمام رائٹرز اور دور دراز سے آئے ہوئے تمام مہمانوں کی آمد کا شکریہ ادا کیا ۔ جناب عبداللہ نظامی صاحب نے ’’بچوں کے لئے کیسے ادب تخلیق کیا جائے‘‘ کے موضوع پر لیکچر دیتے ہوئے بچوں کا ادب تخلیق کرنے کے بہت سے اہم نکات بتائیکہ جس صنف میں بھی لکھنا ہو اس صنف کیبہترین تحریروں کا زیادہ سے زیادہ مطالعہ کرنے سے تحریر میں پختگی آتی ہے۔اس لئے اچھا لکھنے کے لئے اچھا پڑھنا ضروری ہے۔معاشرے کے حالات و واقعات کی سچی اور حقیقی عکاسی کہانی کو موثر بنا دیتی ہے ، اس لئے اپنے ارد گرد موجود حقیقی کرداروں کو اپنی کہانی کا موضوع بنائیں ۔ اس تقریب میں راقم الحروف کے ذمہ ’’کالم نویسی کیسے کی جاتی ہے‘‘ کے عنوان پر لیکچر دینا تھا ۔ جو کچھ یو تھا ’’سب سے پہلے تو کالم کی تعریف معلوم ہونا لازمی ہے ۔ ’’کالم ایک تحریر ی کارٹون ہے‘‘ تو صاحبو کارٹون کو دلچسپ بنانے کے لئے اس کی شکل و صورت اس کی زبان ،اس کا قد کاٹھ سب کو مدِ نظر رکھنا ضروری ہے ۔آج کل اچھا کا لم نگار وہی ہے جسے کالم نگاری کے ساتھ ساتھ کالم لکھاری پر بھی عبور حاصل ہو۔ جو کالم نگار اپنے کالم میں حکمرانوں سے اپنے مراسم کا حوالہ دے تو وہ بہترین کالم نگاری کر رہا ہو گا ۔کالم لکھنے کے بعد اگر آپ کا کالم کسی بڑے اخبار میں نہیں چھپتا تو گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں کیوں کہ بڑے اخباروں میں بہت سے چھوٹے لوگ چھپتے ہیں جبکہ چھوٹے اخباروں میں بہت سے بڑے لوگ چھپتے ہیں ۔ کیونکہ کہ کسی بھی جماعت میں پڑھنے کے لئے آپ کو پہلے نرسری کلاس میں تو پڑھنا پڑتا ہی ہے ‘‘، جبکہ میری ساری بات کا لُبِ لُباب یہ تھا کہ تمام اصناف ادب کے لئے وسعتِ مطالعہ لازمی شرط ہے۔ ۔ آپا فوزیہ سمیع نے ’’کہانی نویسی کے لئے ضروری لوازمات‘‘ کے عنوان پر بڑے بھرپور انداز میں بیان کرتے ہوئے کہا نی لکھنے سے پہلے یہ طے کریں کریں کہ کہانی کسی عمر کے بچے کے لئے لکھ رہے ہیں ، کہانی میں آسان اور سادہ جملے استعمال کریں کہانی کا آغاز ایسا ہو کہ بچہ پوری کہانی پڑھنے پر مجبور ہو اور اختتام میں بچے کی اصلاح کے لئے ایک اچھا سا پیغام یا نصیحت ضرور کریں ۔محترمہ پروفیسر ثمرینہ رمضان نے ’’ادبی رسائل سے دوری کیوں‘‘ پر لیکچر دیتے ہوئے کہا کہ والدین کی حد سے بڑھتی ہوئی مصروفیات کی وجہ سے ان کے پاس بچوں کو ادبی رسائل کی اہمیت بتانے اور رسائل کی طرف راغب کرنے کا وقت ہی نہیں ۔ نہ وہ خود یہ رسائل پڑھتے ہیں اور نہ ہی بچوں کو پڑھنے کے لئے دیتے ہیں اس لئے بچے ادبی رسائل سے دورہیں ۔ انہوں نے مزید کہا کہ آج والدین کی مصروفیت اور بچوں کو ادبی رسائل کی طرف راغب نہ کرنے کی وجہ سے اکثر بچوں اور نوجوانوں کی توجہ سوشل میڈیا کی طرف ہو گئی ہے جس سے کتابوں اور ادبی رسائل کو وہ توجہ نہیں مل رہی جس کے وہ مستحق ہیں ۔یہ صورت حال ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ ’’ادیب بحیثیت صحافی‘‘ کے موضو ع پر خطاب کرتے ہوئے میان عبدالوحید عمرانہ نے کہا کہ ہر ادیب صحافی نہیں ہوتا اور ہر صحافی اچھا ادیب نہیں ہوتا ۔ ہاں کچھ ادیب حضرات صحافت کے میدان میں آکر اپنے جوہر دکھاتے ہیں جو کہ اپنی خبر اور رپورٹ کو ادب کی کسوٹی پر پرکھ کر لکھتے ہیں ۔اس لیکچر کے بعد سٹیج کی طرف آنے سے پہلے دارِارقم سکول کی ننھی منی طالبات نے اسلامی اور مشرقی لباس میں ملبوس ہو کر ایک عربی نشید پر خوبصورت پر فارمنس پیش کر کے حاضرین سے خوب داد سمیٹی ۔سٹیج پر بیٹھے ہوئے مہمانوں کی خطاب سے پہلے ایک ننھے منے بچے محمد ابشام نے ’’کیا میں دنیا کو بدل سکتا ہوں‘‘ کے مشکل ترین موضوع پر بہر ہی اعتماد سے مدلل اور بہت کوبصورت انداز سے ، موضوع کے اعتبار سے شعروں سے مزین تقریر کر کے حاجرین محفل کے دل جیت لئے ۔ جناب عبداللہ نظامی صاحب نے محمد ابشام کو اس تقریب کا دولہا قرار دیا۔ تقریب کی مہمانِ خصوصی صدر شعبہ اردو گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج برائے خواتین خانیوال پرو فیسر رضیہ رضیہ رحمان صاحب نے اپنے خطاب میں مکالمہ نگاری کے اصول واضح کرتے ہوئے بتایا کہ مکالمہ عربی زبان کا لفظ ہے ۔ دویا دو سے زیادہ لوگوں کی آمنے سامنے گفتگو کو مکالمہ کہتے ہیں ۔انہوں نے بتایا کہ ایک اچھا مکالمہ پانچ حصوں پر مشتمل ہوتا ہے نمبر 1 ابتداء، نمبر 2 کشمکش، نمبر 3نقط عروج، نمبر4 سلجھاؤ، نمبر 5 اختتام ۔ انہوں نے مکالمے کے آغاز، انجام ، طوالت،زبان و بیان ، کردار،رموز اوقاف کے استعمال پر تفصیلی روشنی ڈالی اور بتایا کہ مکالمے کے اختتام پر ہمیشہ حق کی فتح و کامیابی اور جھوٹ اور باطل کی شکست و ناکامی دکھانی چاہیئے ۔انہوں نے اپنے خطاب میں کامیاب اور پُر وقار کنونشن اور تقریب تقسیم انعامات کے انعقاد پر آفاق احمد خان ، ڈاکٹر یوسف صدیقی ، عبداللہ نظامی اور دیگر منتظمین کو خراج تحسین پیش کیا اور مبارکباد دینے کے ساتھ ساتھ کہا کہ ایسی تقریبات کاانعقاد وقت کی اہم ضرورت ہے ۔صدرِ محفل کے خطاب سے پہلے ایک بار پھر دارِ ارقم سکول کے طالبعلوں نے ایک خاکہ پیش کیا جس میں انہوں نے پیغام دیا کہ دنیا کی زندگی میں نیکی اور بھلائی کے کام کرنا اور اس مہلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آخرت کی فکر کر کے تیاری کرنا ۔ دنیا کی زندگی میں نیکی اور بھلائی کے کام نہ کرنا،آخرت کی فکر کر کے تیاری نہ کرنے پر موت کے فرشتہ کی آمد پر انسان کی پریشانی اور مہلت کا تقاضا کرنا ۔مگر موت کے فرشتہ کا اظہارِ مجبوری کہ موت کا وقت تو اللہ نے پہلے ہی مقرر کر دیا ہے ۔اس خاکہ میں تینوں بچوں نے بہت ہی جاندار اداکاری کا مظاہرہ کیا اور حاضرین کے دل گرما دیئے ۔ صدرِ محفل جناب حاجی عبدالطیف انور نے اپنے صدارتی خطبہ میں کہا کہ ادب اور صحافت کا چولی دامن کا ساتھ ہے ۔ایک ادیب ایک اچھا صحافی اور کالم نگار ثابت ہو سکتا ہے انہوں نے مزید کہا کہ ایسی تقریبات کے انعقاد سے ہمارے معاشرے سے اچھت قلم کار سامنے آئیں گے، مجھے اس پروگرام میں آکر دلی خوشی ہوئی اور ہم آئندہ بھی ایسے پروگراموں کی سرپرستی کرتے رہیں گے۔انہوں نے دارِ ارقم سکول خانیوال کے بچوں کے پرفارمنس کو سراہا اور سربراہ ادارہ محترمہ عفیفہ سارہ کو مبارک باد پیش کی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس خانیوال میں اس طرح کی علمی و ادبی تقریب کا انعقاد ایک خاصی طویل مدت ک بعد ہوااور اب اس سلسلہ کو جاری رہنا چاہئے ۔ انہوں نے کہا کہ اگر اس طرح کی تقریبات کے لئے جگہ کا کو ئی مسئلہ ہو تو خانیوال پریس کلب کی عمارت حاضر ہے۔ تقریب کے تمام مقررین نے اپنے خطاب میں حکومت سے پُر زور مطالبہ کیا کہ حکومتی سطح پر بھی ادیبوں کی سرپرستی ہونی چاہیئے ۔ تقریب سے کالم نگار جناب انجینئر مظہر کلیم اور طاہر مامون رانانے بھی خطاب کیا اور اپنا کلام پیش کر کے حاضرین محفل سے خوب داد سمیٹی۔اس رائٹر کنونشن کی ایک اور خاص بات یہ تھی کہ اس میں آنے والے بہت سے رائٹرز حضرات کو ایوارڈ سے نوازا گیا جس کی تفصیل کچھ یوں ہے۔ رائٹرز ویلفئیرفاؤنڈیشن اینڈ ہیومن رائٹس پاکستان کی طرف سے جن ساتھیوں کو ’’یاد گار ایوارڈ‘‘ دیا گیا ان میں جناب تصور عباس سہو ، جناب حافظ معاویہ ظفر، جناب بشیر احمدشامل ہیں ۔ جبکہ ’’سپیشل ایوارڈ‘‘ جناب میاں عبدالوحید عمرانہ، محترمہ مسز فاخرہ جبیں، جناب میاں اجمل عباس، جناب طارق سمرا، جناب حافظ نعیم سیال، جناب فردین ساگر، جناب صالح جوئیہ، جناب یاسین صدیقی، جناب محمد شاہد فاروق اور جناب حمزہ شہزاد کو دیا گیا۔ رائٹرز ویلفئیرفاؤنڈیشن اینڈ ہیومن رائٹس پاکستان کی طرف سے ’’ستارہ امتیاز ایوارڈ‘‘ جن احباب کو دیا گیا ان میں محترمہ فوزیہ سمیع، محترمہ ستارہ آمین کومل، جناب صداقت حسین ساجد، جناب عاطر شاہین، جناب خلیل ملک اورجناب عبد الرؤف سمراشامل ہیں ۔ رائٹرز ویلفئیرفاؤنڈیشن اینڈ ہیومن رائٹس پاکستان کا بڑا ایوارڈ ’’قومی ادبی ایوارڈ 2016 ‘‘ جو کہ بیک وقت ادب و صحافت ، سماجی اور تعلیمی خدمات میں نمایاں کردار ادا کرنے کے لئے جو احباب حقدار ٹھہرے ان کے نام کچھ یوں ہیں ، جناب عبداللہ نظامی، محترمہ پروفیسر رضیہ رحمان، محترمہ پروفیسر ثمرینہ رمضان، محترمہ فرحت مرتضیٰ ، جناب شہزاد اسلم راجہ، جناب حفیظ سبز واری اور جناب رشید احمد نعیم ۔تقریب کے دوران تمام مہمانانِ گرامی کی ٹھنڈے مشروب سے تواضع کی گئی اور تقریب کے اختتام پر تمام معزز مہمانوں کو پُر تکلف ظہرانہ بھی دیا گیا۔ رائٹرز ویلفئیرفاؤنڈیشن اینڈ ہیومن رائٹس پاکستان کے اس یک روزہ رائٹرز کنونشن میں راقم الحروف کو سرکت کر کے خانیوال کے محبت کرنے والے بہت سے مزید اچھے دوست ملے، جن میں بھائی طارق سمرا ، بھائی عبدالرؤف سمرا اور بھائی میاں اجمل عباس شامل ہیں جن کی محبتیں ایسی ملیں کی بھلائے نہ بھولیں گی۔ظہرانے کے بعدبھائی عبدالرؤف سمرا کی طرف سے تمام رائٹرز حضرات کو سمرا پیلس خانیوال میں چائے کی دعوت دی گئی جہاں بہت ہی اچھی محفل جمی اور اس محفل میں جناب عبداللہ نظامی صاحب نے طارق سمراء، عبدالرؤف سمرااور میاں اجمل عباس اور دیگر خانیوال کی ادبی شخصیت کو یقین دہانی کروائی کہ ہمسب مل کر خانیوال کی ادبی زمین کو سیراب کرتے رہیں گے۔یوں خانیوال شہر کی محبت اور یک روزہ رائٹرز کنونشن کی یادیں دل میں بسائے واپس آئے جو برسوں دل و دماغ میں تازہ رہے گی۔
Shehzad Aslam Raja
About the Author: Shehzad Aslam Raja Read More Articles by Shehzad Aslam Raja : 17 Articles with 16434 views I am Markazi General Secratary of AQWFP (AL-QALAM WRITERS FOURM PAKISTAN) and Former President of Bazm-e-Adab Govr Sadique Abbas Digree college Dera N.. View More