بلوچستان میں دہشتگردی کے حالیہ واقعہ کی
عالمی سطح پر مذمت کی گئی ۔ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سمیت بھارت کے وزیر
منوہر پاریکر نے بھی کوئٹہ میں پولیس ٹریننگ سینٹر میں ہونے والی دہشتگردی
کے واقعہ کی مذمت کی ۔ بھارت کے علاوہ برطانیہ، جاپان اور چین سمیت دیگر
ممالک نے دہشتگردی کے اس واقعہ کی سخت الفاظ میں مذمت کی لیکن اس تمام
ممالک میں چین اور روس کی طرف سے آنے والی مذمت بہت سے معنی ساتھ لئے ہوئے
ہے۔چین کی طرف سے مذمتی بیان کی اپنی جگہ ایک خاص اہمیت ہے تاہم اس میں
کوئی حیران کن بات نہیں ۔ چین پاکستان کی ساتھ دوستی کی ہر سطح پر جانا
چاہتا ہے اور اب تک دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ بہت سے بین الاقوامی معاملات
میں چین پاکستان کی ٰغیر معمولی سپورٹ کر رہا ہے اور سفارتی سطح پر بہت
زیادہ آگے بڑھ کرپاکستان کی حمایت کر رہا ہے لہذا چین کی طرف سے مذکورہ
دہشتگردی کے واقعہ کی مذمت کرنا بین الاقوامی سطح پر کوئی حیرت انگیز بات
نہیں ۔ بہر حال چین کی طرف سے اس قسم کے دہشتگردی کے واقعہ کی مذمت بھارت
کے لئے پیغام ضرور ہوتی ہے۔ لیکن روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کی طرف سے از خود
بلوچستان کے اس دہشتگردی کے واقعہ کی مذمت اپنے ساتھ بہت سے ممالک کے لئے
بہت سے پیغامات لئے ہوئے ہے۔بھارت کی طر ف سے پچھلے دنوں بریکس ممالک کے
اجلاس کے دوران پاکستان کی دہشتگرد ملک ثابت کرنے کی کوشش کی گئی اور اس
حوالے سے ایک قرارداد بھی منظور کروانے کی کوشش ہوئی تاہم بھارت کے راستے
میں سب سے بڑی رکاوٹ چین ثابت ہوا جبکہ دوسری طرف روس نے بھی پاکستان کو
ایسا کرنے کی اجازت نہیں دی۔ لیکن یہاں حیرت ناک بات یہ ہے کہ کچھ ہی عرصے
قبل بھارت اور روس کے درمیان روس کی طرف سے اربوں ڈالر کے ایٹمی ہتھیار
فراہم کرنے کا معاہد ہ ہوا ہے جس پرچین اور پاکستان سمیت خطے کے دیگر ممالک
کو تشویش ہے لیکن اس معاہدے کے باوجود روس نے بریکس ممالک کے اجلاس میں
پاکستان کے حوالے سے بھارتی موقف کی تائید نہیں کی اور پاکستان کے خلاف
ہونے والی سازش کو نا کام بنا دیا۔ دوسری طرف روس نے گزشتہ دنوں پاکستان کے
ساتھ گلگت بلتستان کے بالائی علاقوں میں فوجی مشقیں بھی کی ہیں جن پر بھارت
میں بہت واویلا مچایا گیا ہے۔ بھارتی میڈیا نے بریکس اجلاس کے موقع پر بھی
روس کی شدید تنقید کا نشانہ بنایا جبکہ پاک روس فوجی مشقوں کے دوران اس
معاملے پر بھی روس کو آڑھے ہاتھوں لیا۔ لیکن جب بلوچستان میں دہشتگردی کا
واقعہ پیش آیا تو روسی صدر نے خود اس دہشتگردی کے واقعہ کی شدیدالفاظ میں
مذمت کی۔ حالانکہ روس اس بات سے بڑی اچھی طرح سے واقف ہے کہ بلوچستان میں
ہونے والی اس دہشتگردی کے تانے بانے افغانستان سے شروع ہو کر بھارت میں ختم
ہوتے ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ آج کل کے بین الاقوامی منظر نامے میں
امریکہ اور بھارت کا گٹھ جوڑ چل رہا ہے اور اب ہر معاملے میں بھارت امریکہ
کا اور امریکہ بھارت کا سپورٹر اور اتحادی ہے۔ روس بڑھتے ہوئے بھارت امریکی
تعلقات کا بہت باریک بینی سے جائزہ لے رہا ہے اور اس کے لئے علاقائی سطح پر
جوابی حکمت عملی بھی تیار کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پاکستان اور چین سے
تعلقات میں بہتری لا رہا ہے۔ بلوچستان کی حالیہ دہشتگردی میں بھارتی اور
امریکی خفیہ اداروں کے ملوث ہونے کے امکان کو کلی طور پر مسترد نہیں کیا جا
سکتا۔اس تناظر میں روسی صدر پیوٹن کا نہ صرف بھارت کو بلکہ امریکہ کو بھی
پیغام ہے کہ ہم اوپر بیٹھ کر سب مانیٹر کر رہے ہیں ۔ روسی صدر نے اس واقعہ
کی مذمت کر کے دراصل اپنے روایتی حریف امریکہ کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی
ہے اب دنیامیں سب کچھ وہ نہیں ہو گا جو تم چاہتے ہو۔ گزشتہ ایک دھائی سے
روس نے ایک مرتبہ پھر عالمی معاملات میں اپنا کردار اداکر نا شروع کیا ہے
جس کی وجہ سے اس کی معیشت پر بد ترین اثرات پڑ رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ
امریکہ نے دنیا بھر میں تیل کی قیمتوں کو زمین پر پہنچا دیا ہے لیکن اس کے
باوجود روس امریکہ کو للکاررہا ہے ۔ خلیجی ملک شام کی مثال دنیا کے سامنے
ہے کہ جہاں سب کچھ امریکہ کی مرضی کے مطابق نہیں ہوا اور روس نے عالمی سطح
پر اپنا کردار ادا کیا جس کی وجہ سے امریکہ کو بیک فٹ پر جانا پڑا۔روس کو
امریکہ اور بھارت کے درمیان دفاعی معاہدوں اور بڑھتی ہوئے تعلقات پر بھی
تشویش ہے جس کی وجہ سے اب روس نے وقتاً فوقتاً بھارت کو پیغامات دینے شروع
کر دیئے ہیں۔ بلوچستان میں دہشتگردی کے حالیہ واقعہ کے بعد روس کی طرف سے
بھارت کے لئے بھی پیغام گیا ہے اور بین السطور اسے یہ کہا گیاہے کہ وہ حد
سے تجاوز نہ کرے۔ اس پورے منظر نامے میں حقیقت حال یہ ہے کہ روس کا عالمی
سطح پر بین الاقوامی معاملات میں کردار ادا کرنے کے فیصلہ اور اپنی کھوئی
ہوئی پوزیشن حاصل کرنے کی کوششیں خود اس کے اپنے مفاد میں ہے ،اس میں
پاکستان کی محبت اور حمایت کا عنصر کم ہی شامل ہے لہذا روس کی حالیہ خارجہ
پالیسی کو ہمیں حتمی طور پر یہ نہیں سمجھ لینا چاہیے کہ روس پاکستان کے وہ
کچھ کرے گا کہ جو چین کرتا ہے تاہم ہمیں روس کی اس حکمت عملی کی ہر سطح پر
حمایت کرنی چاہیے اور تما م شعبوں میں روس سے زیادہ سے زیادہ تعاون بڑھانے
کی کوشش کرنی چاہیے۔اسی میں پاکستان کی بقا اور استحکام ہے۔ |