طلاق کہیں سیاسی مدعا تو نہیں

کیا طلاق، پلاین (ہجرت) جیسے ایشو کو اْٹھا کر مودی جی یوپی فتح کرنے کے فراق میں تو نہیں ہیں۔ سیاسی پنڈتوں کا بھی یہی کہنا ہے کہ ان ایشو کو اْٹھا کر جہاں مسلمانوں میں بے چینی وافتراق پیدا کرنا ہے وہیں ان مسائل کے ذریعے ہندوئوں کو متحد کرنا بھی ہے تاکہ یوپی الیکشن میں خاطر خواہ فائدہ اْٹھایا جاسکے۔ اب جبکہ یوپی میں سیاسی گھمسان مچا ہوا ہے۔ سماج وادی پارٹی میں ہوئے گھریلو جھگڑے اب گھر کی لکشمن ریکھا پار کر چکے ہیں۔ یوپی کا سیاسی مستقبل دائو پر لگا ہوا ہے۔ ہر پارٹی خانگی جھگڑوں سے لطف اندوز ہورہی ہے اور خاص کر بی جے پی تو یہ گمان کررہی ہے کہ ان کے اس جھگڑے سے ہمیں اقتدار تک پہنچنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی۔ لیکن انہیں یہ سوچ لینا چاہئے کہ یوپی میں بھی بہار کے طرز پر گٹھ جوڑ کی آوازیں اْٹھ رہی ہیں اور اس سلسلہ میں پیش رفت بھی ہوچکی ہے اگر یہ گٹھ جوڑ ہوجاتا ہے اور تمام پارٹیاں متحد ہوکر یوپی کا الیکشن لڑتی ہیں تو پھر جس طرح دہلی میں جھاڑو پھیرے گئے تھے اور بہار میں گائے نے گوبر کیا تھا اسی طرح یوپی میں بی جے پی کو تین طلاق دے دیں گے۔
دیر سے ہی سہی لیکن ہمارے ملک کے وزیر اعظم نے اپنا غم اور دکھ دل کھول کر بیان کیا ہے،اور یہ ہونا بھی چاہیے،جب آپ ہمارے وزیر اعظم ہیں تو مطلب صاف ہے کہ ہماری ذمہ داری بھی آپ پر بنتی ہے،جیسے للکار کر اور سینہ ٹھوک کر مودی جی نے یہ جملہ استعمال کیا ہے کہ’’ہم مسلم بہنوں کی زندگی تین طلاق کے ذریعہ برباد نہیں ہونے دیں گے‘‘ بہت قابل قدر اور عزت کی نظر سے دیکھے جانے لائق جملہ ہے، اس بات کو کوئی بھی نہیں چاہتا کہ کسی کی زندگی خواہ مخواہ برباد ہوجائے،مودی جی نے صاف لفظوں میں کہا کہ میڈیا اسے سیاسی ایشو نہ بنائے،ہندو بنام مسلم نہ بنائے، مسلم بنام بی جے پی نہ بنائے،باتیں تو بہت اچھی ہوئی ہیں،اور ہونی بھی چاہیئیں کیونکہ آج پہلی مرتبہ ہی سہی لیکن ملک کے وزیر اعظم کو ملک میں رہنے والے بے بسوں اور بیکسوں کی یاد تو آئی، اب اس سے ہم یہ اندازہ بخوبی لگا سکتے ہیں کہ ملک میں کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والی عورت کے ساتھ ظلم نہیں ہوگا اور ہر ایک کو مکمل انصاف دیا جائے گا،اب کوئی بھی عورت اپنے اور پرائے کے ظلم سے تنگ ہوکر خود کشی نہیں کرے گی،اب کسی بھی بلقیس بانو کو انصاف کیلئے در در بھٹکنے کی ضرورت نہیں ہوگی،اب پھر سے کسی کو ذکیہ جعفری جیسا غم نہیں ہوگا،اب کسی عشرت جہاں کو ممبئی سے اٹھاکر گجرات کی سڑکوں پر نہیں مارا جائے گا،اب کوئی دلت ماں اپنے بیٹے کی خود کشی کی خبر نہیں سنے گی، پھر جے این یو میں کسی نجیب کی ماں نہیں روئے گی،مظفر نگر کی داستان الم اب کبھی بھی دوہرائی نہیں جائے گی،خواجہ یونس کی ماں کی طرح کوئی آنسو نہ بہائے گی، چاہے کچھ بھی ہوجائے لیکن عورتوں کے تحفظات سے سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا ہے،یہ ایک خوش آئند قدم ہے اگر بات اچھی ہو تو اسے قبول کرنا چاہیے، چاہے بات کرنے والے سے آپ کو لاکھ اختلاف ہو۔ وزیر اعظم جی کی یہ بات تو ہمیں بہت پسند آئی ہے،لیکن طریقہ پسند نہیں آیا ! مودی جی نے مسلم عورتوں کے تعلق سے اس بات پر خوب زور دیا ہے کہ تین طلاق کے ذریعہ مسلم عورتوں کی زندگی برباد نہیں ہونے دیں گے،اگر یہ زندگی دوسری صورت میں برباد ہو تب؟ ایک چھوٹا سا سوال آپ سے ہے کہ کیا نجیب کی ماں ایک عورت نہیں ہے؟کیا وہ مسلم نہیں ہے؟ اگر ہاں تو پھر اب تک خاطر خواہ کوئی کاروائی کیوں نہیں؟مودی جی اگر آپ اپنی نیت میں سچے ہیں تو آپ کو چاہیے کہ اسلام میں طلاق کا کیا حکم ہے اور طلاق دینے کا طریقہ کیا ہے؟جس قرآن کے حوالہ سے آپ اور آپ کے میڈیا والے تین طلاق کو غیر اسلامی، غیر قرآنی قرار دے رہے ہیں، کیا اس قرآن کے دوسرے اور پانچویں پارے میں طلاق کی مفصل بحث نہیں ہے؟ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ طلاق ثلاثہ، نکاح حلال فقہی باتیں ہیں، اس کا تعلق ائمہ اربعہ سے ہے قرآن و حدیث سے نہیں ہے، ان عقل کے ماروں کو یہ بھی نہیں معلوم کہ فقہ کسی امام کے گھر کی لونڈی نہیں ہے،بلکہ ائمہ کے یہ اقوال مشہور ہیں کہ اگر کوئی بھی مسئلہ قرآن و حدیث کے خلاف ملے تو اسے دیوار پر پھینک مارو، فقہ کا ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے جو قرآن و حدیث سے متعارض ہوجائے، مسلمانوں کیلئے یہ ناممکن ہے کہ کسی بھی شخص واحد کے ذاتی قول کو قرآن و حدیث پر ترجیح دیں۔ عجیب و غریب منطق کے ذریعہ عوام کو بیوقوف بنایا جارہا ہے،جن کو اسلام سے کچھ واقفیت نہیں ہے،جو وضو کے فرائض تک نہیں جانتے ہیں وہ بھی طلاق ثلاثہ کے مسئلہ میں قرآن کا حوالہ دے رہے ہیں،اور غضب بالائے غضب یہ لوگ قرآن کی آیت کا صریح انکار کررہے ہیں، طلاق کے معاملہ میں بات یکطرفہ ہورہی ہے، ہر نیوز چینل ایسے debate کرا رہا ہے جہاں صرف یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ طلاق کا نظام صحیح نہیں ہے، طلاق کا مطلق مالک مرد ہی ہوتا ہے،اس معاملہ میں عورت لاچار و مجبور ہے، حالانکہ بات یہ نہیں ہے بلکہ جس طرح اسلام نے مرد کو طلاق کا اختیار دیا ہے عورت کو بھی خلع کا اختیار دیا ہے،طلاق ہمیشہ خانگی مجبوری کے تحت وقوع میں آتی ہے، کبھی ایسا ہوتا ہے کہ عورت کی کچھ عادتیں یا حرکتیں ایسی ہوتی ہے جس کی بنا پر شوہر کے ساتھ گزارہ ناممکن ہوجاتا ہے، کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ مرد کی عادت اس قابل نہیں رہتی کہ بیوی اس کے ساتھ زندگی گزارے،ایسی صورت میں اسلام نے بیوی کو حق دیا ہے کہ وہ خلع کے ذریعہ اپنے شوہر کو چھوڑ دے۔ایسے مکمل اور کامل نظام کو محض چند دین بیزار عورتوں کی وجہ سے چیلینج کردینا کہاں تک مناسب ہے، اسلام نے طلاق کا جو تصور دنیا کو دیا ہے وہ کسی بھی مذہب میں نہیں ہے،یہ ممکن نہیں ہے کہ کسی بھی ملک یا مذہب کے ماننے والوں کی ازدواجی زندگی میں کبھی کوئی خرابی پیش نہ آئے،ہندو مذہب کا طریق طلاق کیا ہے؟ عدالت کے چکر کاٹنے میں ایک طویل مدت گزر جاتی ہے،پیسہ کا معاملہ الگ ہوتا ہے،ہندوستان میں live in relation پر کوئی پابندی نہیں ہے،جو عورتیں ایسے مرد سے جدا ہوتی ہے ان کے حقوق کی بات کیوں نہیں کی جارہی ہے،مسلم طلاق شدہ عورتوں کی ذمہ داری تو ان کے باپ بھائی اور دیگراقرباء پر اسلام نے لازم کی ہے، لیکن ان غیر مسلم عورتوں کے حقوق کا کیا ہوگا جو بغیر طلاق کے پوری زندگی گزار نے پر مجبور کی جاتی ہے۔ کیا طلاق، پلاین (ہجرت) جیسے ایشو کو اْٹھا کر مودی جی یوپی فتح کرنے کے فراق میں تو نہیں ہیں۔ سیاسی پنڈتوں کا بھی یہی کہنا ہے کہ ان ایشو کو اْٹھا کر جہاں مسلمانوں میں بے چینی وافتراق پیدا کرنا ہے وہیں ان مسائل کے ذریعے ہندوئوں کو متحد کرنا بھی ہے تاکہ یوپی الیکشن میں خاطر خواہ فائدہ اْٹھایا جاسکے۔ اب جبکہ یوپی میں سیاسی گھمسان مچا ہوا ہے۔ سماج وادی پارٹی میں ہوئے گھریلو جھگڑے اب گھر کی لکشمن ریکھا پار کر چکے ہیں۔ یوپی کا سیاسی مستقبل دائو پر لگا ہوا ہے۔ ہر پارٹی خانگی جھگڑوں سے لطف اندوز ہورہی ہے اور خاص کر بی جے پی تو یہ گمان کررہی ہے کہ ان کے اس جھگڑے سے ہمیں اقتدار تک پہنچنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی۔ لیکن انہیں یہ سوچ لینا چاہئے کہ یوپی میں بھی بہار کے طرز پر گٹھ جوڑ کی آوازیں اْٹھ رہی ہیں اور اس سلسلہ میں پیش رفت بھی ہوچکی ہے اگر یہ گٹھ جوڑ ہوجاتا ہے اور تمام پارٹیاں متحد ہوکر یوپی کا الیکشن لڑتی ہیں تو پھر جس طرح دہلی میں جھاڑو پھیرے گئے تھے اور بہار میں گائے نے گوبر کیا تھا اسی طرح یوپی میں بی جے پی کو تین طلاق دے دیں گے۔
 
NAZISH HUMA QASMI
About the Author: NAZISH HUMA QASMI Read More Articles by NAZISH HUMA QASMI : 109 Articles with 69032 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.