بے وقوف یا سمجھدار؟؟؟

ہمیں ایک ایسے بادشاہ کی تلاش کرنی چاہئے جسے اپنے انجام سے زیادہ اپنے عوام کی فکر ہو۔ جو اپنے لئے محل اور جائیدادیں نہ بنائے بلکہ لوگوں کی فلاح و بہبود کے لئے سوچے، ملک کی بہتری کے لئے سوچے۔ جس کی سوچ تعمیری ہو نہ کہ تخریبی اور جو قوم اور ملک کی توانائی کو مثبت سمت میں اور مثبت کاموں میں استعمال کرے نہ کہ ہڑتالوں، مظاہروں اور دھرنوں میں۔ وہ اپنے لئے جائیدادیں نہ بنائے، بلکہ ملک میں بسنے والے کروڑوں عوام کے دکھ و درد کو اپنا بنائے۔ دنیا ایسے بادشاہ کو چاہے بے وقوف کہے لیکن ہمیں آج ایسے ہی کسی بادشاہ کی ضرورت ہے۔
ہر سال بعدایک نیا بادشاہ!!!یہ ایک پرانی حکایت ہے کہ ایک ملک کے لوگ ہر سال اپنا بادشاہ تبدیل کرتے تھے۔ یہ اس ملک کے لوگوں کا اپنا بنایا ہوا قانون تھا جس پروہ ہر سال سختی سے عملکرتے تھے۔ جیسے ہی ایک بادشاہ کو حکومت کرتے ایک سال کا عرصہ گزر جاتا۔ لوگ اس کو پکڑ کر دور جنگل میں چھوڑ آتے جہاں اسے جنگلی جانور کھا جاتے یا وہ بھوک، پیاس سے مر جاتا۔ اور پھر اسی دن جو بھی شخص ان کے شہر میں سب سے پہلے داخل ہوتا، وہ اسے ایک سال کے لئے اپنا بادشاہ بنا لیتے۔ اس طرح کئی بادشاہ آئے اور گئے۔ اس دن بھی لوگ اپنے بادشاہ کو جنگل میں چھوڑ کے آنے کے بعد اپنے نئے آنے والے بادشاہ کا انتظار کر رہے تھے کہ ایک نوجوان شہر کے مرکزی دروازے سے داخل ہوا۔ لوگوں نے اس کا شاندار استقبال کیا اور اس کو بادشاہ کے تخت پہ بٹھا دیا۔ وہ بہت حیران ہوا اور اس نے پوچھا کہ یہ سب کیاہے؟ تو لوگوں نے اسے بتایا کہ یہاں کا یہی قانون ہے ۔ نوجوان نے پچھلے بادشاہوں کے بارے میں پوچھا تو اسے تمام تفصیلات سے آگاہ کیا گیا۔ نوجوان نے کہا کہ مجھے اس جگہ لے جایا جائے جہاں تم لوگ اپنے بادشاہوں کو چھوڑ کے آتے ہو۔ وہاں جا کر نوجوان نے دیکھا کہ یہ ایک ویران و بیابان جنگل ہے۔ جگہ کا معائنہ کرنے کے بعد بادشاہ نے حکم دیا کہ اس جگہ پہ ایک شاندار محل تعمیر کیا جائے اور اس جگہ سے ہمارے محل تک ایک عمدہ سڑک تعمیر کی جائے۔ اور یہ سب کام ایک سال سے کم عرصے میں ہو جانا چاہئے۔ ایک سال کے عرصے میں جنگل کیجگہایک عالیشان محل کھڑا ہو گیا اور ایک سڑک کی تعمیر بھی مکمل ہو گئی۔ لیکن بادشاہ کو اس کے عہدے سے ہٹایا نہیں گیا تو نوجوان نے لوگوں سے اس کی وجہ پوچھی، کہ کیا اس ملک کے لوگوں نے اپنا قانون تبدیل کر دیا ہے؟ تو لوگوں نے کہا کہ آپ سے پہلے جتنے بھی بادشاہ گزرے وہ سب کے سب بے وقوف تھے، انہیں اپنا انجام نظر آ رہا تھا لیکن پھر بھی انہوں نے اپنے آپ کو بچانے کا کوئی بندو بست نہیں کیا، حالانکہ جو آپ نے کیا وہ سب بھی یہ کام کر سکتے تھے، لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ آپ سب سے زیادہ سمجھدار بادشاہ ہیں ۔ اور ہمیں ایک سمجھدار بادشاہ کی ہی تلاش تھی۔ اس لئے اب ہمیں نئے بادشاہ کی ضرورت نہیں۔

پاکستان کے عوام اس معاملے میں بہت خوش قسمت ہیں کہ انہوں نے آج تک جتنے بھی بادشاہوں کا انتخاب کیا وہ بھی سب کے سب سمجھدار اور سیانے تھے۔ انہوں نے عوام کی فکر کی ہو یا نہ کی ہو اپنے انجام کی فکر سب سے پہلے کی۔ اپنے سے پہلے گزرے ہوئے بادشاہوں کی مثالوں کو سامنے رکھتے ہوئے سب سے پہلے انہوں نے اپنے بچاؤ کا بندوبست کیے۔انہوں نے نہ صرف اپنے ملک میں بلکہ ملک سے باہر بھی اپنے لئے شاندار اور عالی شان محل تعمیر کروائے، گھر خریدے، کاروبار چمکائے تا کہ بوقت ضرورت کام آ سکیں۔ اور جب کبھی حالات ایسے بن جائیں کہ ان کی بادشاہت کو کسی قسم کا خطرہ لاحق ہو تو وہ سیدھے اپنے محلوں کی راہ لیں تاکہباقی کی زندگی چین و سکون کے ساتھ گزار سکیں۔ اس لئے انہیں فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ملک میں چاہے غربت ہو، مہنگائی ہو، ناخواندگی ہو، دہشت گرد ی ہو یا کسی قسم کا اور مسئلہ ان کو کیا، جیسے ہی کوئی مشکل سامنے آئی تو یہ جا اور وہ جا۔پریشانی تو وہ کرے جسے کوئی راستہ سجھائی نہ دے۔ ان کو تو اپنے محلوں کی طرف جانے والے سارے راستوں کا علم ہے۔ اس لئے کچھ بھی ہو جائے، یہ پر سکون ہیں۔ راستے بند ہو جائیں، کاروبار تباہ ہو جائیں، ملک جل جائے، لوگ مر جائیں، جمہوریت ختمہوجائے یا آمریت آ جائے انہیں کوئی پریشانی نہیں ، کیونکہ اگر حالات خراب بھی ہو جاتے ہیں تو کوئی ایک بھی ہمیں یہاں نہیں ملے گا، کوئی دبئی میں ہو گا، کوئی لندن میں، کوئی جدہ میں ، پیچھے رہ جائیں گے ہم اور ہمیں پھر سے ہو گی تلاش ایک بادشاہ کی۔ لیکن اب کی بار ہمیں ایک ایسے بادشاہ کی تلاش کرنی چاہئے جسے اپنے انجام سے زیادہ اپنے عوام کی فکر ہو۔ جو اپنے لئے محل اور جائیدادیں نہ بنائے بلکہ لوگوں کی فلاح و بہبود کے لئے سوچے، ملک کی بہتری کے لئے سوچے۔ جس کی سوچ تعمیری ہو نہ کہ تخریبی اور جو قوم اور ملک کی توانائی کو مثبت سمت میں اور مثبت کاموں میں استعمال کرے نہ کہ ہڑتالوں، مظاہروں اور دھرنوں میں۔ وہ اپنے لئے جائیدادیں نہ بنائے، بلکہ ملک میں بسنے والے کروڑوں عوام کے دکھ و درد کو اپنا بنائے۔ دنیا ایسے بادشاہ کو چاہے بے وقوف کہے لیکن ہمیں آج ایسے ہی کسی بادشاہ کی ضرورت ہے۔ آپ کو کیسے بادشاہ کی تلاش ہے ، بے قوف یا سمجھدار؟؟؟
aamer malik
About the Author: aamer malik Read More Articles by aamer malik: 7 Articles with 5808 views Working in social and development sector.. View More