اسلامی جمہوریہ پاکستان کو آزاد ریاست کے
طور پر وجود میں آئے ستر سال کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن قائد اعظم محمد علی
جناح ؒ اور ان کے ساتھیوں کے گزرنے کے بعد آج تک پاکستان میں کچھ ایسا نہیں
ہوا کہ جس کی بنیاد پر یہ سرزمین پاک کو حاصل کیا گیا تھا ۔مختلف ادوار میں
مختلف اشکال کے لٹیروں نے اس سرزمین کو کیک سمجھ کر کھایا لیکن یہ اﷲ تعالیٰ
کی خاص عنایت تھی کہ اس ملک کو آج تک قائم رکھے ہوئے ہے ۔پاکستان میں سب سے
زیادہ جمہوری دور صرف دو ہی جماعتوں نے گزارا ہے اور حکومت کی ہے جیسے کسی
قبیلے پر دو سرداروں کی حکومت ہو اور انہوں نے اپنے علاقے بانٹنے کے ساتھ
ساتھ دن بھی بانٹ رکھے ہوں کہ آج میں نے حکم چلانا ہے اور کل تمہارا حکم
چلے گا۔اسی ایکسرسائزمیں دونوں سرداروں نے عوام میں خود کومقبول کرنے اور
اپنی شان و شوکت کو برقرار رکھنے کیلئے کئی لائحہ عمل اختیار کئے جن میں سب
سے بڑا لائحہ عمل آئی ایم ایف سے سود پر قرض لے کر ملک میں ترقی کے اسباب
اور عوام کیلئے وسائل پیدا کرنے تھے یہاں پر پاکستان کے ساتھ اسلامی
جمہوریہ کا لفظ کا مقصد تو ختم ہو جاتا ہے کیونکہ مذہب اسلام میں سود کو
حرام اور بڑے سخت الفاظ میں ممنوع قرار دیا گیا ہے ۔مطلب یوں کہا جا سکتا
ہے ان دونوں پارٹیوں نے آدھا پاکستان نگل لیا ہے اور آدھے کے پیچھے پڑے ہیں
۔ملک میں قابل غور جتنی بھی ترقی ہوئی آمریت کے دور میں ہوئی جبکہ جمہوریت
میں حقیقی آمریت کا مظاہرہ کرتے ہوئے غریب کرنے والے یہودیوں کے اصول کو
قائم رکھا گیا ۔الیکشن کمیشن اپنے اصولوں جن پر وہ انتخابات کرواتی ہے میں
یہ واضح طو ر پر لکھتی ہے کہ کوئی بات یا عمل جس کی وجہ سے پاکستانی سالمیت
کو خطرہ ہو یا غلط بیانی ،جھوٹ ،فریب میں ملوث پائے جانے والے امیدوار کو
نا اہل تصور کیا جائے گا اور دیگر صورتحال میں الیکشن کو بھی کالعدم قرار
دے کر دوبارہ کروائے جا سکتے ہیں ۔یہاں اس بات کی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ
حالیہ انتخابات 2013 میں دھاندلی پر بات کی گئی اور بڑے شور شرابے کے ساتھ
دھرنے بھی دئیے گئے لیکن الیکشن کمیشن اس کے بارے میں کوئی بھی ایکشن لینے
میں بے بس نظر آئی مطلب یہ کہ جیسے جمہوری حکومتیں اپنے ہی دستور پر قائم
نہیں رہ پائیں اسی طرح الیکشن کمیشن کے بس میں بھی اپنے ہی اصولوں پر قائم
رہنا نا ممکن ہے ۔مزید ظلم یہ کہ جب امیدوار انتخابات جیت کر اپنا دور مکمل
کرنے کے قریب ہوتے ہیں تو تب جا کر فیصلہ ہوتا ہے کہ اس شخص نے فلاں دستور
کی خلاف ورزی کی تھی ،اثاثے چھپائے اور غلط بیانی کی تھی جسکی وجہ سے اسکی
رکنیت معطل کی جاتی ہے اور الیکشن دوبارہ کروائے جانے کا حکم دیا جاتا ہے!
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیاوزیر اعظم اور صدر پاکستان سمیت دیگر جماعتوں
کے منتخب نمائندے اس شق کی زد میں نہیں آتے ؟ کیونکہ جب وہ ووٹ مانگنے جاتے
ہیں تو عوام سے جو وعدے کرتے ہیں کبھی کوئی ایک پورا کیا انہوں نے ؟وہ بھی
تو غلط بیانی سے کام لیتے ہیں !قانون سب کیلئے ایک جیسا کیوں نہیں ؟؟یہ بات
تو اپنی جگہ کہ ہر جمہوری حکومت میں اپوزیشن جماعتیں حکومتی جماعتوں پر طنز
و سنگین الزامات کی بوچھاڑ کرتی نظر آتیں ہیں !کوئی قرآن سر پر اٹھائے
الزام لگاتا ہے تو کوئی زارو قطار روتے ہوئے لیکن آج تک ان الزامات کی
تحقیقات کروانے کیلئے کوئی لائحہ عمل اختیار نہیں کیا گیا !کیا ان لوگوں کو
قانونی استثنیٰ حاصل ہے یا وہ الزامات جو بھاری عوامی مینڈیٹ لے کر منتخب
عوامی نمائندے ایک دوسرے پر لگا رہے ہوتے ہیں وہ محض طنز و مزاح اور تفریح
ِ طبع کیلئے عوام کے سامنے پیش کئے جا رہے ہوتے ہیں ؟؟ویسے تو پاک ستان کا
لفظی معنی پاکیزہ سرزمین سے ہیں جس کے تناظر میں اگر یہ کہا جائے کہ یہ
سرزمین اس جہاں پر بسنے والے پاکیزہ لوگو ں کی طرح پاک ہے تو کچھ غلط نہیں
ہو گا لیکن یہ بات 1960 کی دہائی تک ہی محدود رہ جاتی ہے کیونکہ اسکے بعد
کے بدلتے حالات و واقعات،مذہب یعنی پاکیزگی سے دوری،رشوت خوری،سود خوری،
جھوٹ ،ظلم و بربریت کا سہارا لے کر اپنی جاگیر داری اور جھوٹی شان و شوکت
کو برقرار رکھنے والی انا پرستی نے انسانیت کی تمام حدود کو پار کر دیا اس
بات کو یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ پاکیزگی کے ختم ہو جانے سے لفظ پاک
ستان میں سے پاک بھی ختم ہوگیا ہے اور صرف ستان باقی رہ گیا۔سمجھ میں نہیں
آتا کہ اسی ملک میں ہم تمام ثبوتوں کے ہونے کے با وجود انصاف ملنے کی یقین
دہانی نہیں کروا سکتے ۔ایک پوری جماعت جو کالعدم قرار دی جا چکی ہو اسی کا
سربراہ انتخابات میں حصہ لیتا ہے اور اس کے کاغذات نامزدگی واپس کرنے اور
انتخابات میں حصہ لینے سے روکنے کا ہمارے پاس کوئی جواز نہیں ہوتا !ایک شخص
جو ملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہے اور خود اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ وہ
اس سرزمین کے آزاد وجود کو تسلیم نہیں کرتا اس کے با وجود ہم اس کے اور
اسکی بنائی گئی جماعت کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لے سکتے ؟رواں دور حکومت میں
قریب دو سال قبل دہشتگردی کے خاتمے کیلئے آپریشن ضرب عضب شروع کیا گیا جس
کے رد عمل سے بچنے کیلئے ملک بھر میں نیشنل ایکشن پلان متعارف کروایا گیا
لیکن اس کے با وجود آج بھی کوئٹہ ،لاہور گلشن اقبال پارک جیسے روح سوز
واقعات رو نما ہو جاتے ہیں ۔بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی پاکستانی وزیر
اعظم میاں محمد نواز شریف کی خصوصی دعوت پر پاکستان میں ان کے محل تشریف
لاتے ہیں شادی کی تقریب میں شرکت کرتے ہیں اور بھارت لوٹ جاتے ہیں پھر وہی
نریندر مودی پاکستان کے خلاف زہر اگلتا ہے اور اسے سفارتی سطح پر دہشتگرد
ملک قرار دینے کیلئے جی توڑ کوششیں کرتا ہے ،آبی جارحیت کا مرتکب ہوتا ہے
اور لائن آف کنٹرول پر اشتعال انگیزی کر کے ہمارے جوانوں کو شہید اور زخمی
کرتا ہے ،پاکستان مخالف بیانات اور پاکستان میں ہونے والی دہشتگردی میں
ملوث ہونے کا پوری دنیا کے سامنے اقرار کرتا ہے لیکن مجال ہے کہ پاکستان
میں حکومتی جماعت کی جانب سے اس کا کوئی جواب دیا گیا ہو!بھارت والے
پاکستانی سرحد عبور کر جانے والے کبوتر کو بھی پکڑ کر تفتیش کرتے ہیں اور
سوشل و الیکٹرانک میڈیا پر کئی کئی گھنٹے ڈراما رچاتے ہیں !ہم ان کی خفیہ
ایجنسی ’’را‘‘کے اعلیٰ افسر کو پکڑ کر بھی خاموش ہیں !!امریکہ بھارت کے
خلاف کوئی بھی ایکشن نہ لینے کیلئے مختلف صورتوں میں دباؤ ڈالتا ہے لیکن
بھارت کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے اسکے با وجود بھی امریکہ ہمارا دوست ہے !!اگر
کوئی کرپشن کے خلاف احتجاج کرے تو اسکو دھمکی دی جاتی ہے کہ ایسا مت کرو
جمہوریت ڈی ریل ہو جائے گی سمجھ نہیں آتا کہ کرپشن اور جمہوریت میں ایسی
کونسی یگانگی ہے !!اسلامی جمہوریہ پاک تو ختم ہو گیا بات ستان پر آ کر رک
گئی ہے جسے ختم کرنے کیلئے دن رات محنتیں کی جارہی ہیں کبھی کسی محکمے کو
تو کبھی کسی موٹر وے کو گروی رکھ کر یہودیوں سے قرض لیا جا رہا ہے اور
پاکستانی معیشت کو افراط زر کی جانب دھکیلا جا رہا ہے رواں سال جو پانچ
روپے کا سکہ متعارف کروایا گیا ہے اسکا وزن ساٹھ کی دہائی میں موجود کھوٹے
سکے سے بھی کم اور گھٹیا ہے اگر اسی طرح جاری رہا تو سی پیک جیسے چاہے دس
منصوبے اور بن جائیں تو بھی پاکستانی معیشت کبھی مستحکم نہیں ہو پائے گی
کیونکہ نہ ہم آئی ایم ایف کے قرض سے چھٹکارا حاصل کریں گے نہ ہم معاشی طور
پر مضبوط ہو پائیں گے ۔پوری دنیا میں تحفظ سرحدوں کا کیا جا رہا ہے یا
کاروباری حضرات اور کاروباروں کا اس بات کو واضح کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری کی جا رہی ہے ۔
|