عاصمہ جہانگیر صاحبہ کا صائب مشورہ

انسانی حقوق کی علمبردار،نامور قانون دان محترمہ عاصمہ جہانگیر صاحبہ پاکستان کی ان معدودی شخصیات میں شامل ہیں جنہوں نے ہمیشہ بلا خوف،بلا تفریق جمہوریت اور انسانی حقوق کی جدوجہد کی ہے۔ضیاالحق کے بعد پرویز مشرف کی آمریت نے کئی ترقی پسندوں اور سول سوسائٹی کی قد آور شخصیات کو بھی ڈگمگا دیا تھا لیکن محترمہ عاصمہ جہانگیر کا اس وقت بھی موقف بالکل صاٖف اور واضح طور پر آمریت کے خلاف تھا ۔ ان کاسیاسی جماعتوں کو موجودہ حالات میں اپنی ہی جڑیں نہ کاٹنے کا مشورہ بروقت اور دانش مندی کا اظہار ہے۔ان حالات میں اس سے بہتر رائے نہیں دی جاسکتی۔ پاکستان کی موجودہ سیاسی ہلچل ایک بار پھر کرپشن کے خلاف ہے۔ صبح شام،اٹھتے بیٹھے احتساب احتساب کے نعرے گونج رہے ہیں ۔پاکستان کی مختصر سیاسی تاریخ میں پاکستان پیپلز پارٹی وہ واحد جماعت ہے جس پر سب سے زیادہ کرپشن کے الزامات بھی عائد ہوئے اور انکے رہنماؤں پر نا صرف مقدمات بنائے گئے بلکہ انکا عدالتی ٹرائل بھی ہوتا رہا ۔حکومتوں کی برطرفیاں بھی اسی الزام پر کی جاتی رہیں ۔پیپلز پارٹی نے ہمیشہ یہ موقف اختیار کیا کہ پاکستان کی اسٹبلشمنٹ محروم طبقات کی پارٹی ہونے کی وجہ سے ہم پر یہ الزامات عائد کرتی ہے۔ویسے یہ الزامات اب تمام ان سیاسی پارٹیوں پر لگتے ہیں جو جمہوریت کی حمایت کرتی ہیں ۔ 1958 میں ایوب خان کے اقتدار پر قبضہ سے آج تک سیاسی حکومتوں کے خلاف جو الزام تواتر کے ساتھ عائد کیا جاتا رہا ہے وہ کرپشن ہی ہے۔ایوب خان نے بنیادی جمہوریت متعارف کروانے سے پہلے تمام قومی سیاسی قیادت کو ایسے ہی الزامات پر سیاست سے باہر کیا ۔ضیا الحق بھی احتساب و اسلام کا نعرہ بلند کرتے ہوئے اقتدار پر قابض ہوئے ، پرویز مشرف تو حالیہ دور ہی کی بات ہے۔ اس طرح اگر دیکھا جائے تو عوام کے حقیقی مطالبات کی بجائے جن کو حل کرنے میں مختصر دورانیے کی سیاسی جمہوری حکومتیں ناکام رہیں۔انہیں چلتا کرنے کیلئے کرپشن کو بنیادی نعرے کے طور پر استعمال کیا گیا۔یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے اور جیسا کہ آج بھی کی جارہی ہے کہ کرپشن کے خاتمے کے ساتھ ہی پاکستان کا خزانہ ایسا لباب بھر جائے گا کہ پاکستان کے 21 کروڑ عوام کا معیار زندگی تھوڑے عرصہ میں ہی ترقی یافتہ ممالک کے عوام کو پیچھے چھوڑ دے گا ۔یہ یوٹوپیائی نعرے عوام کو دھوکہ دینے کے علاوہ کچھ نہیں ۔ اور یہ بات اس لیے ثابت ہے کہ ایوب خان سے آج تک غیر سیاسی حکومتیں بھی جن مقاصد کیلئے قائم کی گئیں وہ احتساب کا موئثر قانون بھی نہیں بنا سکیں ۔بلکہ ہر آمریت کے بعد کرپشن کا گراف مزید بڑھا ہی ہے۔شفافیت کی اہمیت سے کوئی ذی شعور انکار نہیں کرسکتا لیکن اس منزل کا حصول ویسے ممکن نہیں جیسا کہ عمران خان اپنے کارکنوں اور عوام کو بتا رہے ہیں۔ترقی یافتہ ممالک جنکی مثالیں دی جارہی ہیں انکا ماضی بھی نگاہوں سے اوجھل نہیں ہونا چاہیے۔آف شور کمپنیوں کی مجموعی تعداد کروڑوں میں بنتی ہے جن میں سے چند سو کے نشان پاکستان میں دکھائی دیتے ہیں تو بقایا آف شور کمپنیاں ترقی یافتہ دنیا کے شہریوں کی ہی ہیں ۔ کیا یہ شہری وہاں کے سسٹم سے باہر ہیں؟۔ایسا نہیں ۔وہاں کی جمہوریت نے موجودہ مقام اپنے تسلسل سے حاصل کیا جہاں لمبا عرصہ ہوا سیاست دان کسی ایمپائر کے محتاج نہیں رہے بلکہ ریاست کے تمام ادارے منتخب حکومت کے ماتحت کام کررہے ہیں ۔اسکے باوجود آج بھی ان معاشروں یا حکومتی مشنری کو کلیتاً شفاف قرار نہیں دیا جاسکتا ۔صرف یہی نہیں بلکہ کسی بھی معاشرے کو کبھی سو فیصدی شفاف قرار نہیں دیا جاسکے گا ۔ ہاں نظام کی مضبوطی یہ ممکن بناتی ہے کہ غیر شفاف عناصر جب قانون کی گرفت میں آجائیں تو وہ بچ نہیں سکیں۔ایسا اس وقت ممکن ہوا جب معاشرے کی اخلاقیات مسلسل عمل اور جمہوری پروسس سے آج کے مقام پر پہنچی کہ ایک جھوٹ یا اسکی حمایت بلا آخر تباہی کی بنیاد بنتا ہے۔ترقی کے راستے میں قوانین آفاقی ہیں ان پر عمل ممکن بنانا معاشروں کی اپنی ذمہ داری ہے ۔معاشرے انسانوں سے وجود میں آتے ہیں ہر شخص اپنی زندگی کی بہتری کیلئے معاشرے میں اپنی جواب دہی کی ذمہ داری پوری کرتا ہے ۔ پاکستان میں ابھی ہم اخلاقیات کی بنیاد کو ہی نہیں سمجھ سکے تو تبدیلی کی امید کیسے قائم کرسکتے ہیں۔اب تک ہم اپنا، یا اپنے گروہ کے جھوٹ کو جھوٹ ماننے کیلئے تیار نہیں کیونکہ ہمیں خطرہ ہوتا ہے کہ اس طرح ہماری گروہی طاقت کمزور ہوجائے گی جبکہ دوسرے کے سچ کو سچ ماننے سے انکاری ہیں۔ چونکہ ایسی صورت میں بھی ہمیں کمزور ہونے کا خدشہ ہے۔ صرف ایک مثال کافی ہے کہ عمران خان جو کچھ شیخ رشید کے بارے میں کہتے تھے وہ شیخ رشید کی جانب سے عمران خان کی بعیت قبول کرنے کے بعد تبدیل ہوگیا۔ یہ واضح ہے کہ جو ہمارے ساتھ ہے صرف وہی درست ہے۔اگر سید خورشید شاہ صاحب یا محترم آصف علی زرداری صاحب عمران خان کی حمایت کردیں تو پیپلز پارٹی پر آج تک لگنے والے کرپشن کے تمام الزامات جھوٹ قرار دیے جاسکتے ہیں یا مولانا فضل الرحمن دھرنے کی حمایت کا اعلان کردیں تو آج تک عمران خان کے ان پر تمام الزامات کو صرف سیاسی نعرہ بازی قرار دیا جاسکتا ہے۔

اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ منتخب حکومت کا یہ دوسرا دورانیہ ہے اگر منتخب حکومتوں کو طاقت کے بل پر چلتا کرنے کا سلسلہ جاری رکھا گیا تو پاکستان کی ترقی،شفاف نظام مملکت اور جمہوری نظام کی مضبوطی ہمیشہ خواب ہی رہے گی۔تحریک انصاف کی پرورش اور جوانی کا موجودہ ابھار انتخابی سیاست کی ہی دین ہے۔اگر یہ سلسلہ ترک کیا گیا تو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ تحریک انصاف جو پاکستان کا مستقبل سمجھی جاتی ہے اپنے سمیت پاکستانی نووارد جمہوریت کو بھی لے ڈوبے گی۔ہم ایک بار پھر محترمہ عاصمہ جہانگیر صاحبہ کے صائب مشورے کو دھرانا چاہتے ہیں کہ ’’سیاست دان اپنی ہی جڑیں نہ کاٹیں‘‘
 
Abu Sanwal
About the Author: Abu Sanwal Read More Articles by Abu Sanwal: 15 Articles with 11223 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.