عشق رسول پاک ﷺ سچے اور پکے مومن اور
مسلمان کی معراج ،پہچان اور نشانی ہے۔ غازی علم دین شہید کا شمار بھی ان ہی
عاشقان رسول میں ہوتا ہے۔غازی علم دین شہید نے ناموس رسالت پر اپنی جان
قربان کرکے خود کو ہمیشہ کے لیے امرکردیا۔اس عظیم عاشق رسول غازی علم دین
شہید کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے امت مسلمہ ہرسال ان کی یاد میں شمعیں
روشن کرتی ہے۔ غازی علم الدین شہید ؒ کا جرات مندانہ کردار آج تک مسلمانوں
میں زندہ ہے۔ملک بھر میں مختلف تنظیموں کی جانب سے قرآن خوانی ،سیمینارز
اور دیگر تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ رسول اکرم ﷺ کی عزت و حرمت کی
حفاظت کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔ رسول اکرم ﷺ کے گستاخ کی سزا سر تن سے جدا
اسلام کا بنیادی دستور وقانون ہے۔جس پر تمام مسلمان ہر لحاظ سے متفق اور اس
کوتسلیم بھی کرتے ہیں۔
علم دین 4 دسمبر 1908 ء میں کوچہ چابک سوارں لاہور میں طالع مند کے گھر
پیدا ہونے والا ایک عاشق رسول تھا۔ طالع مند لکڑی کے بہت اچھے کاریگر تھے
۔علم دین نے ابتدائی تعلیم اپنے محلے کے ایک مدرسہ سے حاصل کی۔ تعلیم حاصل
کرنے کے بعد اپنے آبائی پیشہ کو ہی اختیار کیا اور اپنے والد اور بڑے بھائی
میاں محمد امین کے ساتھ ہی کام کرنا شروع کر دیا۔علم دین کے والد فرنیچر
بنانے کے ہنرمند کاریگر تھے وہ اکثرشہر سے باہر جب بھی کام کے سلسلہ میں
جاتے توعلم دین ان کے ساتھ جاتا تھا۔علم دین کا ایک بھائی پڑھ لکھ کر ایک
سرکاری نوکری کرنے لگاجبکہ ایک بھائی محمد امین والد اور بھائی علم دین کے
ساتھ کام کرتا رہا۔تقسیم ہند سے پہلے ہونے والے ایک واقعہ نے پورے برصغیر
کے مسلمانوں میں ہلچل مچاکر رکھ دی تھی۔
1923 ء میں لاہور کے ایک ناشر راج پال انتہا پسند ہند و نے رسول اکرم ﷺ کی
شان میں ایک گستاخانہ کتاب ایک فرضی نام سے لکھی ۔ کتاب میں انتہائی نازیبا
باتیں لکھی تھیں جنہیں کوئی بھی مسلمان برداشت نہیں کرسکتا تھا۔ کتاب کے
شائع ہونے سے پورے برصغیر کے مسلمانوں میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔
مسلمان رہنماؤں نے انگریز حکومت سے اس دل آزار کتاب پر فوری پابندی لگانے
اور ناشر کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔ جس پر اس ناشر کے خلاف مقدمہ درج
کر لیا گیا۔
سیشن کورٹ کے مجسٹریٹ نے راج پال کو مجرم قرار دیتے ہوئے صرف چھ ماہ قید کی
سزا سنادی جس کے بعد لاہور ہائیکورٹ میں اس سزا کے خلاف اپیل کی گئی ۔ کیس
کی سماعت میں مجرم راجپال کو جسٹس دلیپ سنگھ مسیح نے رہا کردیا کہ اس وقت
مذہب کے خلاف گستاخی کا کوئی قانون موجود نہ تھا۔جس پر مسلمانوں میں سخت
اضطراب پیدا ہوگیا۔ انگریز حکومت کی عدم توجہی پر مایوس ہوکر مسلمانوں نے
احتجاجی جلسے جلوس نکالنے شروع کر دئیے۔مسلمانوں نے ہائیکورٹ کے اس فیصلے
کے خلاف پورے ملک میں ایک احتجاجی تحریک شروع کردی۔مگر انگریز حکومت نے
روایتی مسلم دشمنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دفعہ 144 نافذ کرکے الٹا مسلمان
رہنماؤں کو ہی گرفتار کرنا شروع کردیا۔ مسلمانوں میں یہ احساس بیدار ہونے
لگا کہ حکومت وقت ملعون ناشر کو بچانے کی کوشش میں ہے اور یہ کہ اس ملعون
کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے ان کو خود ہی کچھ کرنا ہوگا۔
سب سے پہلے لاہور کے ایک غازی خدابخش نے 24 ستمبر 1928ء کو اس گستاخ راج
پال کو اس کی دکان پر نشانہ بنایا تاہم یہ بھاگ کر اپنی جان بچانے میں
کامیاب ہوگیا۔ غازی خدابخش کو گرفتاری کے بعد 7 سال کی سزاسنائی گئی۔اس کے
بعد افغانستان کے ایک غازی عبدالعزیز نے لاہور آکر اس شاتم رسول کی دکان کا
رخ کیا مگر یہ بدبخت دکان میں موجود نہیں تھا، اس کی جگہ اس کا دوست سوامی
ستیانند موجود تھا۔ غازی عبدالعزیز نے غلط فہمی میں اس کو راج پال سمجھ کر
اس پر حملہ کر کے ایک ہی وار میں اس کا کام تمام کردیا۔ غازی عبدالعزیزکو
حکومت وقت نے چودہ سال کی سزا سنائی۔ راج پال ان حملوں کے بعد بہت خوفزدہ
ہوگیا ۔ حکومت نے اس کی پشت پناہی کرتے ہوئے دو ہندو سپاہیوں اور ایک سکھ
حوالدار کو اس کی حفاظت پر متعین کردیا۔ راج پال کچھ عرصے کے لئے لاہور
چھوڑ کر کاشی، ہردوار اور متھرا چلا گیا مگر چند ماہ بعد ہی واپس آگیا اور
دوبارہ اپنا کاروبار شروع کردیا۔ علم دین کی غیرت ایمانی نے یہ گوارا نا
کیا کہ یہ ملعون اتنی آسانی سے بچ نکلے بالاآخر اس کو اس کے آخری انجام تک
پہنچانے کا فیصلہ کرلیا۔
علم دین اپنے ایک قریبی دوست رشید کے ساتھ لاہور کی تاریخی مسجد وزیر خان
کے سامنے احتجاج میں شامل تھا جو ہندو راجپال کے خلاف نعرے لگارہا تھا۔
جذبات کا ایک سمندر اس ہجوم کے نعروں کی گونج میں امنڈ رہا تھا۔ امام مسجد
نے انتہائی درد بھری آواز میں کہا۔ ’’مسلمانوں شیطان راج پال نے اپنی کتاب
میں ہمارے حضور اکرم ﷺ کی شان اقدس میں گستاخی کی ہے اور عدالتوں نے اسے
رہا کردیا ہے جس سے اسلام دشمنوں کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔‘‘ امام مسجد کے
یہ الفاظ غازی علم دین کے دل میں اتر گئے اور اس نے اسی وقت فیصلہ کیا کہ
وہ گستاخ رسول کو واصل جہنم کرکے ہی دم لے گا۔ اس نے اپنی اس خواہش کا
اظہار اپنے دوست رشید سے کیاوہ بھی گستاخ راج پال کو مزا چکھانا چاہتا تھا۔
دونوں نے اس مسئلے پر تین بار قرعہ اندازی کی اور تینوں بار علم دین کا نام
آیا، آخرکار رشیدعلم دین کے حق میں دستبردار ہوگیا۔ اﷲ پاک نے یہ سعادت
شائد علم دین کے ہی نصیب میں لکھ رکھی تھی۔
6 اپریل 1929ء کو علم دین بازار سے ایک چھری لے کر راجپال کی دکان کی طرف
چل پڑا۔ راج پا ل ابھی دکان پر نہیں آیا تھا۔ علم دین نے اس کا انتظار کیا
اور جیسے ہی راجپال اپنی دکان میں داخل ہوا علم دین نے چھری سے اس پر زوردر
وار کیا جو اس کے دل میں پیوست ہوگیا۔راج پال موقع پر ہی ڈھیر ہوگیا۔ پولیس
نے اسے گرفتار کرکے اس پر قتل کا مقدمہ درج کرلیا۔ علامہ اقبال کی درخواست
پر قائداعظم محمد علی جناح نے علم دین کا مقدمہ لڑنے کا فیصلہ کر لیا۔
قائداعظم نے ایک موقع پر علم دین سے کہا کہ وہ جرم کا اقرار نہ کرے۔ غازی
علم دین نے کہاکہ میں یہ کیسے کہہ دوں کہ میں نے یہ قتل نہیں کیا،مجھے اس
قتل پر ندامت نہیں بلکہ فخر ہے، عدالت نے علم دین کو سزائے موت سنادی۔
قائداعظم محمد علی جناح لبرل تصور کئے جاتے تھے اور اس وقت ہندو مسلم اتحاد
کے بہت بڑے حامی تھے، ہندو اخبارات نے ان پر کڑی تنقید کی لیکن قائداعظم نے
اس تنقید کو رد کرتے ہوئے کہا ’’مسلمانوں کیلئے حضور اکرم ﷺ کی ذات مبارکہ
ہر چیز سے بڑھ کر ہے۔‘‘31 اکتوبر 1929ء غازی علم دین شہید کی سزائے موت پر
عملدرآمد کا دن تھا۔
سزائے موت سے قبل علم دین سے آخری خواہش پوچھی گئی تو انہوں نے کہا کہ مجھے
صرف دو رکعت نماز پڑھنے کی اجازت دی جائے۔ غازی علم دین کو جب پھانسی گھاٹ
پر لایا گیا اور جب پھندا ان کی گردن میں ڈالا گیا تو اس نے وہاں موجود
لوگوں سے کہا ’’اے لوگو! گواہ رہنا میں نے راج پال کو نبی کریم ﷺ کی شان
میں گستاخی کرنے پر جہنم واصل کیا ہے، آج میں آپ سب کے سامنے کلمہ طیبہ کا
ورد کرکے حرمت رسول ﷺ پر اپنی جان نچھاور کررہا ہوں۔‘‘غازی علم دین نے اپنے
رشتہ داروں کو جو وصیت فرمائی وہ قابل غور ہے۔ میرے تختہ دار پر چڑھ جانے
سے وہ بخشے نہیں جائیں گے‘ بلکہ ہر ایک اپنے اعمال کے مطابق جزا اور سزا کا
حق دار ہوگا اور انہیں تاکید کی کہ وہ نماز نہ چھوڑیں اور زکوٰت برابر ادا
کریں اور شرعِ محمدی پر قائم رہیں۔
غازی علم دین شہید کو پھانسی کے بعد برطانوی حکومت نے ان کی میت بغیر نماز
جنازہ جیل کے قبرستان میں دفنادی جس پر مسلمانوں نے شدید احتجاج کیا اور 4
نومبر 1929 ء کو مسلمان رہنماؤں کے ایک وفد(جن میں سر فہرست شاعر مشرق
علامہ اقبال رحمۃ اﷲ تعالی علیہ، سر محمد شفیع، مولانا عبدالعزیز، مولانا
ظفر علی خان، سر فضل حسین، خلیفہ شجاع،میاں امیر الدین،مولانا غلام محی
الدین قصوری صاحبان شامل تھے) نے گورنر پنجاب سے ملاقات کی اور جسد خاکی کی
حوالگی کا مطالبہ کیا۔ گورنر نے شرط عائد کی کہ اگر مذکورہ رہنما پرامن
تدفین کی ذمہ داری اور کسی گڑبڑ کے نہ ہونے کی یقین دہانی کرائیں تو جسد
خاکی مسلمانوں کے حوالے کیا جاسکتا ہے ۔ مذکورہ وفد نے یہ شرط منظور کرلی۔
13 نومبر 1929 ء کومسلمانوں کا ایک وفد سید مراتب علی شاہ اور مجسٹریٹ مرزا
مہدی حسن کی قیادت میں میانوالی روانہ ہوا اور دوسرے روز جسد خاکی وصول کر
لیا گیا۔15 دن بعد جب غازی علم دین شہید کی میت کو قبرسے نکالا گیا تو ان
کا جسد خاکی پہلے دن کی طرح تروتازہ تھا۔ جسد خاکی بالکل صحیح وسالم اور اس
میں سے خوشبو آرہی تھیں، چہرہ حسن و جمال کا حسین امتزاج تھا، اور ہونٹوں
پر مسکراہٹ جھلک رہی تھی۔
علم دین شہید کے والد طالع مند نے علامہ اقبال سے نماز جنازہ پڑھانے کی
درخواست کی جس پر علامہ اقبال نے کہا کہ وہ بہت گناہ گار انسان ہیں، اس لئے
اتنے بڑے شہید کی نماز جنازہ وہ نہیں پڑھاسکتے۔نماز جنازہ قاری شمس الدین
خطیب مسجد وزیر خان نے پڑھائی۔‘‘غازی علم دین شہید کی نماز جنازہ لاہور کی
تاریخ کی سب سے بڑی نماز جنازہ تھی جس میں6 لاکھ سے زائد لوگوں نے شرکت کی
تھی۔ ہر ایک کی خواہش تھی کہ سچے عاشق رسول غازی علم دین شہیدکے جنازے کو
کندھا دے پائے۔لاہور میں میانی صاحب قبرستان میں آپ کی آخری آرام گاہ موجود
ہے۔ بغیر چھت مزار کے چہار وں اطراف برآمدہ ہے، مزار کے ساتھ ہی غازی علم
دین شہیدکے والد محترم اور والدہ محترمہ کی بھی آخری آرام گاہیں موجود ہیں۔
لوح مزار پر پنجابی اور اردو کے کئی اشعار کندہ ہیں۔
علامہ اقبال نے غازی علم دین شہید کی میت کو کندھا دیا اور اپنے ہاتھوں سے
انہیں قبر میں اتارا۔ اس موقع پر علامہ اقبال کی آنکھیں نم ہوگئیں انہوں نے
کہا۔ کہ ’’ایک ترکھان کا بیٹا آج ہم پڑھے لکھوں پر بازی لے گیا اور ہم
دیکھتے ہی رہ گئے۔‘‘ علم دین شہید کی پھانسی کے بعد ایسے حالات پیدا ہوگئے
جس کی وجہ سے انگریزوں کو اپنے قوانین میں تبدیلی کرنا پڑی اور کسی بھی
مذہب کی توہین کو جرم قرار دیا گیا اور اس طرح ایک علم دین کی شہادت قانون
میں تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوئی ۔آزادی پاکستان کے بعد توہین رسالت کے
قانون کو ’’پاکستان پینل کوڈ‘‘ کا حصہ بنایا گیا اور 1982ء میں اس وقت
پاکستان کے صدر جنرل ضیاء الحق نے اس قانون میں ترمیم کرتے ہوئے قرآن کریم
کی توہین کی سزا عمر قید جبکہ حضور اکرم ﷺ کی توہین کی سزا کم از کم سزا
موت قراردے دی۔
غازی علم دین شہید نے ناموس رسالت پراپنی جان کو قربان کرکے رہتی دنیا تک
ایک لازوال مثال قائم کردی ، شہید کا کردار اسلام اور حق و سچ کی سربلندی
کے لئے مسلمانوں کے لئے تا قیامت مشعل راہ رہے گا۔گستاخ رسول راجپال کو
جہنم رسید کرنے والے سچے عاشق رسول غازی علم دین شہید کے 31 اکتوبر2016ء کو
87 ویں یوم شہادت کے موقع پر ملک بھر میں سیمینارز،قرآن خوانی اور دیگر
تقریبات کا اہتمام کیا جارہا ہے جس میں غازی علم دین شہید کو خوبصورت الفاظ
میں خراج عقیدت پیش کیا جائے گا ۔ |